تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دین اسلام کے پیغام کو پھیلانے سے
قبل اپنے عمل سے چالیس سال تک ثابت رکھا کہ محبت، پیار ،اخلاق، تہذیب، ادب،
رحم، نرمی، مہذب ، سلیقہ مندی،انصاف، عدل، بھائی چارگی، اخوت، اتحاد، یقین،
اعتماد، اطمینان ، صبر ،شکر اپنا کر حقیقت میں انسانیت کا درس دیا۔۔۔ یہی
وجہ تھی کہ آپ کی جان کے دشمن بھی آپ کو صادق، امین کے لقب سے پکارتے
تھےاور آپ سے زیادہ کسی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔۔ یہ وہ عوامل تھے جو اللہ
تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کے پیغام کو پھیلانے سے قبل اپنے پیارے حبیب
محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے اعمال سے ظاہر کیا۔ تاکہ دین اسلام کی اصل رو
جاہل ترین لوگ بھی سمجھ سکیں۔۔ دین اسلام تا قیامت کیلئے آیا ہے اور ہر
دور میں اس کے اصول ہمیشہ عمل کیلئے رہیں گے اور اسی میں ہی فلاح ہے۔نبی
کریم ﷺ کا ہر قوم و فعل قرآن ہے اور اللہ کا حکم بھی۔۔۔دور حاضر میں
الیکٹرونک میڈیا نے اسلام کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ،دینی پروگرام کی میزبانی شو
بزنس سے تعلق رکھنے والی شخصیات، صحافتی شخصیات یا پھر معاشرتی شخصیات ہوتی
ہیں جنہیں دین اسلام کی بارکیوں کت متعلق یا پھر یوں کہ لیجئے کہ دین اسلام
کی اساس کا علم نہیں اور غلط سلط مفروضے کیساتھ باتیں دین اسلام کے ساتھ
جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ صرف دین اسلام کا مذاق کے مترادف ہیں بلکہ
دائرہ اسلام سے خارج بھی۔۔۔ پی ٹی وی سے لیکر تمام نجی چینل پیمرا اور
آتین کے مطابق اس بات کے پابند ہیں کہ دینی پروگرام کی نظامت یا میزبانی
مفتی یا عالم دین مستند درس نظامی کا حامل ہو کیونکہ اس سے کم تعلیم یافتہ
لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیئے کہ علما دین، مفتیان
کرام، مشائخ و پیر عظام الیکٹرونک میڈیا اور حکومت کو پابند کریں کہ
نچکیئے، بہروپیئے،مزاحیئے، متنازہ شخصیت کو دینی پروگرام بلخصوص رمضان
المبارک اسپیشل ٹرانسمیشن پر سخت پابندی لگانی چاہیئے، مالکان نجی چینل ان
حضرات کو اپنی زیادہ مقبولیت، چینل کی ریٹنگ کی خاطر وہ تمام مالکان بھول
جاتے ہیں کہ ان کے مداری اینکرز مذہبی پروگرام کا کیا حال کررہے ہیں گویا
مذہب اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو!!تمام پاکستانیوں کی بھی یہ ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحائف کی لالچ میں اُن مداری اینکرز کی حواسلہ
افزائی نہ کریں جنہیں دین اسلام کا کچھ علم نہین!! کچھ تو ایسے بھی اینکرز
ہیں جو اپنے آپ کو افلاطون سمجھتے ہوئے گستاخیاں کرتے ہوئے نہیں ڈرتے!!
غلطی در غلطی پھر معافی در معافی!! کیا دین اسلام سے متعلق پروگراموں کی
نظامت یا میزبانی ان جیسے لوگوں کی قید ہے؟؟ لیکن ہمارے کہنے سے کیا یہ
سلسلہ بند ہوجائیگا شائد ہرگز نہیں !! ہاں ایک بات ضرور ہ کہ ہم نے اپنا حق
ادا کردیا اب علما دین، مفتیان کرام، مشائخ و پیر عظام اور حکومت کا فرض ہے
کہ وہ اس بارے مین سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے ایک سخت قانون بنایا جائے اور
اگر قانون ہے تو اس پر پابند کیا جائے بصورت تمام ذمہ داروان نہ صرف گنہگار
ہونگے بلکہ روز قیامت وہ اس سخت گرفت میں ہونگے۔ چینل میں بیٹھنے والے تمام
علما دین، مفتیان کرام، مشائخ و پیر عظام نے کبھی بھی مسالک کے خلاف اور
دین اسلام کے حق میں بات کی کہ دین اسلام کی اسل رو، اصل اساس، اصل بیناد
کو قائم رکھ کر دین کی خدمات کا بڑھادیا جائے بلکہ دیکھا تو یہ گیا ہے کہ
ہر فرقہ کا عالم اپنے اپنے فرقہ کی حمایت اور دفاع میں بیانات سے باز نہیں
آتا ،، جب ارض و سماں اللہ کی حاکمیت میں ہے اور رسول کی رحمت تمام جہاں
میں شامل ہے تو پھر مساجد جدہ جدہ کیوں؟ طریقہ عبادات مختلف کیوں؟؟ اختلاف
کی عبارت کیوں؟ کیا یہی دین اسلام تھا جو نبی کرایم ﷺ نے نبی نوع انسان کو
دیا!! پھر جہاد کے نام پر صرف مسلمان کا وحشانہ قتل، بربریت اور شیطانیت کو
جہاد کا نام دیکر دین اسلام کا مذاق نہیں تو کیا ہے؟؟ کیا مولا پاک حضرت
علی کرم اللہ وجہہ الکریم ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ، طارق بن زیاد،
شمس الدین التمش، تیمور لنک،ٹیپو سلطان، حیدر علی جیسے سپہ سالاروں نے جہاد
کس طرح کیا؟؟ یاد رکھیئے آپ ﷺنے جہاد کا طریقہ واضع کیا ہے جہاد میں
عورتوں، بوڑھوں، بچوں کا قتل حرام قرار دیا ہے، جو ہتھیار ڈال دیں انہیں
بھی قتل کرنے سے منع فرمایا گیا لیکن دور حاضر میں دین اسلام کے ٹھیکیدار
جو بڑی بری ڈارھی رکھ کر اونچی شلواریں، نیچی قمیض پہن کر خود کو اللہ والا
سمجھتے ہیں ، اللہ والا بننے کیلئے نہ لباس کی شرط ہے نہ روپ کی ،اللہ والا
بننے کیلئے حب رسول ﷺکوٹ کوٹ کر بھرا ہونا شرط ہے اور جو حب ﷺ رکھتا ہے وہ
نبی کریم ﷺ کے اعمال حسنہ کی تمام پیروی کا پابند بھی شرط ہے توا یسا شخص
عاشق رسول کہلاتا ہے وہ کبھی بھی ظلم اور بربریت نہیں کرسکتا بلکہ خود پر
ظلم سہ سکتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اگر دین
اسلام کے پروگرام یا مذہبی تہوار پر ایونٹ کرنا مقصود ہی ہو تو لازم ہے کہ
علما دین، مفتیان کرام، مشائخ و پیر عظام سے پروگرام کی میزبانی کرائی جائے
اور مہمان بھی انہیں بنایا جائے تاکہ نہ صرف پروگرام کی اہمیت برقرار رہے
بلکہ دین کی فکر و سوچ کا صحیح حق ادا ہوسکے، امید ہے کہ شائد مجھ ادنیٰ
صحافی کی یہ درخواست علما دین، مفتیان کرام، مشائخ و پیر عظام کیساتھ
ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے کانوں تک پہنچ جائے اور پاکستان کا میڈیا صحیح
معنوں میں مذہبی پروگرام کو پیش کرنے کا اعادہ کرے، اللہ پاکستان کو ہمیشہ
شاد و آباد رکھےآمین ثما آمین۔ |