چین میں مسلمانوں پر مذہبی پابندی

ان دنوں چین میں مسلمانوں پر مذہبی پابندیوں کا معاملہ ایک بار میڈیا پر آیا ہوا ہے۔مسلمانوں پر نماز، روزے، حجاب، داڑھی اور دیگر عبادات پر پابندی کے خلاف دنیا بھر کے کئی مسلم ممالک میں چین کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ ترکی کے مختلف شہروں میں بھی مظاہروں کے دوران مظاہرین نے مذہبی فرائض کی ادائیگی پر کوئی بھی پابندی ناقابل قبول قرار دی ہے۔ گزشتہ دنوں مصر کی معروف علمی درس گاہ جامعہ الازہر کی معتبر شخصیات نے بھی چین میں مسلمانوں پر مذہبی پابندی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں اس طالمانہ اقدام پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی باضابطہ طور پر ایک لادین پارٹی ہے، جو کہ گزشتہ کئی برسوں سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے کہ مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کو جہاں تک ہو سکے، روزے رکھنے سے باز رکھا جائے اور مذہبی پابندیوں میں جکڑا جائے۔ سنکیانگ چین کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پورے ملک میں نسلی اقلیت کی حیثیت رکھنے والی ایغور مسلم آبادی مقامی طور پر اکثریت میں ہے۔ امسال رمضان المبارک کی ابتدا سے پہلے صوبے کے مسلمانوں پر پابندی عاید کرتے ہوئے چینی حکومت کی جانب سے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں مقامی مسلمانوں پر رمضان الکریم میں روزے رکھنے، تراویح پڑھنے، قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور نمازوںکی ادائیگی کے لیے مساجد میں جانے پر پابندی کا اعلان کیا گیاتھا، اس کے بعد مسلمانوں کے گھروں پرچھاپے بھی مارے گئے تھے اور پولیس کی جانب سے ایغور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان سے روزوں، نماز اور قرآن الکریم کی تلاوت کے حوالے سے تفتیش کی جاتی رہی ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے دیے گئے احکامات میں سرکاری عہدیداروں، ملازمین، طلبا و طالبات اور لادین حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی سے منسلک تمام مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے سے باز رہنے کی تلقین کی گئی تھی۔ چینی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے مسلمانوں کے علاقوں میں واقع تمام تعلیمی اداروں کو رمضان کے حوالے سے بھیجی گئی خصوصی ہدایات میںکہا گیا تھا کہ بچوں کی تعلیم اور مذہب کو جدا جدا رکھاجانا بہت ضروری ہے۔ اس لیے تمام اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹس اس امر کویقینی بنائیں کہ کوئی طالب علم رمضان میں روزے رکھ کر کلاس میں نہ پہنچے۔ تمام والدین سے بچوں کو روزہ نہ رکھوانے کا حلف نامہ لیا گیا اور انہیں تنبہیہ کی گئی کہ اگرکوئی بچہ روزے کی حالت میں پایا گیا تو اس کے والدین کوگرفتار کر لیا جائے گا، جس پر جلاوطن ایغور باشندوں کی نمائندہ تنظیم ورلڈ ایغور کانگریس کے ترجمان دلشاد رشید نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا: ”چین کی طرف سے روزہ رکھنے پر پابندی کا مقصد یہ ہے کہ ایغور مسلمانوں کو رمضان کے دوران ان کی مسلم ثقافتی پہچان سے دور رکھا جائے۔“ جبکہ عالمی جریدے muslimmatters نے اپنی اشاعت میں لکھا تھا کہ چین کے مسلمانوںکو فلسطین، شام اور افغانستان کے مسلمانوں کی نسبت ایک مختلف صورتحال کا سامنا ہے، کیوں کہ چینی حکومت نہیں چاہتی کہ چینی مسلمان اپنے دین پر عمل کریں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، مساجد جائیں اور قرآن الکریم کی تعلیم حاصل کر کے اسے دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں۔

ان حالات کے پیش نظر یہ امر نہایت ہی افسوسناک ہے کہ چین مسلم ممالک کا ایک پرامن دوست سمجھا جاتا ہے اور چین کی تجارتی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ بھی مسلم ممالک میں ہے، جبکہ مسلم ممالک میں چین کو ایک دوست کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ چین کو بھی مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے،لیکن افسوس وہاں مسلمانوں کی آزادی کی یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو آزادی سے اپنی عبادات ادا کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے اورچین جیسے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو اس وقت سخت حالات کاسامنا ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا بھر کے مسلمان رمضان کے روزوں اور برکات سے مستفید ہورہے ہیں اور ایک اہم ترین مذہبی فرض ادا کررہے ہیں تو وہیں ان چینی مسلمانوں پر اس حوالے سے سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، جو انتہائی قابل مذمت ہے۔چین کا شکوہ ہے کہ سنکیانگ صوبے میں اس لیے مذہبی پابندی ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کو مذہبی عبادات پر عمل کرنے کی آزادی دی جائے تو انتہا پسندی میں اضافہ ہوگا، حالانکہ اسلام دین اور دنیا میں متوازن زندگی گزارنے کا پیغامبر ہے۔ رمضان کا روزہ غریبی میں زندگی کیسے گزارا جا سکتا ہے، اس کا پیغام دیتا ہے۔ اس مذہب میں ایک انسان سے لے کر جانور تک کے حقوق بہت واضح بیان کیے گئے ہیں۔ یہ مذہب اپنے پڑوسی کا پورا خیال رکھنے کا پیغام اگر دیتا ہے تو اپنے ملک کے لیے بغاوت کرنے کو کس طرح کہہ سکتا ہے۔ کیسی عجیب و غریب صورت حال ہے کہ جہاں لوگ روزے سے ہوں اور وہاں کی حکومت کہے کہ یہ کھانا کھاﺅ، روزے نہ رکھو۔ اپنے پروردگار کو باضابطہ طور پر یاد نہ کرو، نماز نہ پڑھو۔اس قسم کے ظالمانہ اقدامات کرنے والے ملک پر نہ صرف تنقید ہونی چاہیے، بلکہ اس پر دباﺅ بڑھایا جانا چاہیے کہ وہ عقیدوں کے معاملے پر ایسی زور زبردستی نہ کرے۔ چین کو سمجھنا ہوگا کہ مدلل اور زندگی بسر کرنے کا پرامن راستہ دکھانے والے مذہب کے عقیدتمندوں کے ساتھ ان کا یہ برتاﺅ کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا اور انتہا پسندی مذہب پر عمل کرنے سے نہیں بڑھتی ، بلکہ مذہب پر پابندی لگانے سے بڑھتی ہے۔ اگر مذہبی عقیدوں کو دبایا جائے گا تو بغاوت ہوگی۔ جہاں روزے رکھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، وہاں کے مسلم ہجرت کرنا شروع کر دیں گے۔ اس لیے نہیں کہ انھیں اپنی سرزمین چین سے ناراضگی ہے، بلکہ وہ ناراض اس بات سے ہوں گے کہ انھیں ان کے ملک کا سیاسی نظام ان کے مذہبی راستہ پر چلنے نہیں دے رہا،کیونکہ مذہب ہی ایک ایسی وابستگی ہے جس پر کوئی بھی انسان سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ مذہب کے لیے لوگ اپنا تن من دھن قربان کردیتے ہیں تو ملک چھوڑنا کیا مشکل ہے۔

یہ وہی چین ہے جس نے دنیا میں انصاف پرست کمیونسٹ نظام لانے کا خواب دکھایا تھا۔ دنیا میں غیر برابری کو ختم کرنے کا کمیونسٹ نظام کا سربراہ نظر آنے والا چین ماﺅزے تنگ کی قیادت کے بعد پوری طرح بدل گیا ہے۔ کمیونسٹوں کے لیے بھلے ہی مذہب ناقابل قبول ہو لیکن مذہبی لوگوں کے لیے یہ جینے کا ایک پاکیزہ راستہ ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتے، بھلے ہی اس کا مذہب و عقیدہ ایک دوسرے سے الگ کیوں نہ ہو۔ اسلام ایک ایسی قوت ہے جس کی حقانیت سے متاثر ہوکر بڑے پیمانے پر روزانہ لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں اور مسلمان دنیا بھر میں ایک بہت بڑی قوت ہیں۔ چین کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں 55 ممالک میں اسلامی حکومت ہے۔ چین کی تجارت پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ اس ملک کی مصنوعات پوری دنیا میں موجود ہیں۔ چین اگر اپنے ملک میں مسلمانوں کو روزے نہیں رکھنے دیتا ہے تو دنیا کے مسلمان اس کی مصنوعات کو خریدنا بند کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا پورا اقتصادی نظام دھڑام سے زمین پر آسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی ملک یا کسی اسٹیج سے چین میں مسلمانوں کی روزے رکھنے کی مذہبی آزادی کو چھینے جانے کی مخالفت میں اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرے، اسے اپنے اس فیصلے کو بدل لینا چاہیے۔چین چونکہ پاکستان کا دوست ہے، اس لیے پاکستان کو بھی چین پر دباﺅ بڑھاتے ہوئے مسلمانوں پر عاید پابندیوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701611 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.