اے چاند یہاں نہ نکلا کر
(عابد محمود عزام, karachi)
یوں توہمارے معاشرے میں ہر چیز
پر اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے، جس پر سب لوگ متفق ہیں
اور وہ ہے اختلاف۔ اسی بے حد اختلاف کو دیکھتے ہوئے جون ایلیا نے خوب کہا
تھا: ”آﺅ کہ اختلاف رائے پر اتفاق کر لیں۔“ اگرچہ اختلاف کا پایا جانا
انسانی فطرت کا تقاضا ہے، جس سے پیچھا چھرانا مشکل ہی نہیں، بلکہ نا ممکن
ہے، لیکن شاید ہمارے معاشرے میں لوگ اختلاف کو دینی فریضہ سمجھ کر کرتے
ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو صرف
دنیاوی معاملا ت میں ہی نہیں،بلکہ شریعت کے اٹل اصولوں میں بھی ڈٹ کر
اختلاف کرنے والے مسلمان بن گئے ہیں، جبکہ اپنے ملی اور دینی معاملا ت میں
زبانی کلامی متحد و منظم ہونے کے دعوے تو بہت کرتے رہتے ہیں، مگر اِس پر
ایک آدھ بار ہی عملی مظاہرہ کرکے تھک جاتے ہیں اور پھر اپنا طرہ اونچا
رکھنے کی فکر میں اس حد کو بھی پہنچ جاتے ہیں جس کی نہ تو شریعت جازات دیتی
ہے اور نہ ہی قانون اپنے اندر کوئی گنجائش رکھتاہے۔ بہت سے دینی مسائل ایسے
ہیں، جن میں اتفاق کرنے سے کوئی دینی و دنیوی نقصان نہیں ہوتا، لیکن صرف اس
لیے اتفاق نہیں کیا جاتا کہ اس پر عمل کرنے سے مخالف مسلک کی تائید ہوجائے
گی۔ کچھ عرصہ قبل وزیر مذہبی امور کی کوششوں سے تمام مکاتب فکر کے علمائے
کرام کی موجودگی میں اسلام آباد کی تمام مساجد میں اذان و نماز کا ایک وقت
مقرر کرنا طے پایا تھا، لیکن مجال ہے کسی نے بھی ایک دن ہی سہی، عمل کرکے
دکھایا ہو۔
پاکستان میں اختلافی مسئلہ چاند کا بھی ہے، جس پر برسوں سے اختلاف چلا آرہا
ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے اس اختلاف کو اتفاق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے، لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ موجودہ ماہ مبارک کے چاند کے
حوالے سے وزیر مذہبی امور سردار یوسف پورے ملک میں ایک ہی دن میں رمضان
المبارک کرنے کے لیے کوشاں تھے، لیکن ہوا وہی جو گزشتہ کئی سالوں سے ہوتا
آرہا ہے، مسجد قاسم علی پشاور میں ایک دن پہلے ہی چاند نظر آگیا۔ ابھی عید
الفطر آنے والی ہے، حکومت ملک بھر میں عید ایک دن کرنے کی متمنی ہے، لیکن
یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ہوگا وہی جو ہر بار ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت کے
مطابق رمضان کے مہینے کا پہلا چاند دیکھ کر روزہ رکھو، شوال کے مہینے کا
پہلا چاند دیکھ کر روزہ ختم کردو اور عید مناﺅ۔ اس طرح چاند کا دیکھنا ایک
شرعی و مذہبی تقاضا ہے، جس پر صحیح طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے، لیکن ملک
میں چاند کے معاملے پر ہونے والی ”دھینگا مشتی“ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ چاند
دیکھنے کا شرعی معاملہ ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور اسی ضد کی بنا
پر بعض لوگ حکومتی اعلان ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ چاند کے معاملے پر اسی ضد
کو دیکھتے ہوئے حبیب جالب سے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے:
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
یہ دیس ہے ”ضدی“ لوگوں کا
حیران کن طور پر یہ اختلاف صرف رمضان المبارک اورعیدین کے چاند پر
نظرآتاہے، دیگر مہینوں کے چاند پر کبھی کوئی اختلاف سامنے نہیں آتا، جس سے
ثابت ہوتا ہے بعض لوگ اپنی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے ایک مختلف معاملہ قوم
کے سامنے لاتے ہیں۔ اگر وہ چاند دیکھنے میں حق بجانب بھی ہیں تو بھی ریاست
کا فیصلہ ماننے میں حرج ہی کیا ہے، جبکہ یہ فیصلہ بھی علمائے کرام نے کیا
ہو۔ حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں ملک
کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ اورجید علمائے کرام موجود ہیں۔ اس کے علاوہ
محکمہ موسمیات، پاکستان نیوی اور سپارکوکے نمائندے بھی فنی معاونت کے لیے
ہراجلاس میںموجودہوتے ہیں اور پھر سب کی متفقہ رائے کی روشنی میں اورتمام
ممبران کی موجودگی میں چیئرمین مرکزی رویت ِہلال کمیٹی پاکستان چاند کی
رویت یا عدم رویت کااعلان کرتے ہیں۔ رویت ِہلال سے متعلق جو فیصلہ اور
اعلان کیاجاتا ہے، وہ تمام ممبران کے اتفاق رائے سے ہوتاہے اور اس فیصلے پر
تمام ممبران کے دستخط بھی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجودچند افراد کی جانب سے اس
فیصلے کو ماننے سے انکار کیا جاتاہے، حالانکہ چاند دیکھنے کے لیے قائم
ریاستی کمیٹی کے اعلان پر عمل کرنے کو تمام مکاتب فکر کے معتبر علمائے کرام
ضروری قرار دے چکے ہیں۔ رمضان المبارک اور عیدین کا شمار مسلم ا ±مہ کے ان
عظیم مذہبی تہواروں میں ہوتاہے جن کا نفس ہی چاردانگِ عالم میں اخوت
ومساوات اور بھائی چارگی کا درس دینااور عفوودرگزر کو اپنا شعائر بناکر
اِسے عام کرناہے۔ ہر کوئی چا ہتا ہے کہ ملک بھر کے تمام مسلما ن ایک ہی دن
عیدین منائیں ، مگر افسوس صد افسوس کہ معاملہ برعکس ہوتا ہے، ایسا بہت کم
ہوا ہے کہ ہمارے ہا ں پورے ملک میں ایک ہی روز عید منا ئی گئی ہو،بلکہ یہاں
تو ایک ہی سال میں تین تین عیدیں بھی منائی گئی ہیں۔
جب تک خلافت عثمانیہ کی مرکزیت قائم تھی پوری امت میں مرکزیت تھی۔ ایک ہی
دن روزہ اور ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔ عرب اور ہندوستان میں چاند کی تاریخیں
ایک ساتھ چلتی تھیں۔ آج ملک میں کمیونی کیشن کی بہترین ارزاں اور عام
سہولیات ہیں، جن کے ذریعے رویت ہلال سے متعلق شہادتوں کی شرعی وقانونی
قبولیت اور تصدیق اور چاند نظر آنے یا نہ آنے کے معاملے کو حل کرنا زیادہ
دقت طلب نہیں ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا ترقی کر کے دوسرے
جہانوں کو مسخر کرنے کی فکر میں ہے، لیکن ہم چودہ سو سالہ پرانے چاند
دیکھنے کے مذہبی معاملے پر موجود اختلاف کو بھی ختم نہیں کرسکے۔ ان
اختلافات کو ختم کرنے کے لیے حکومت اور علمائے کرام کو مشترکہ اقدامات کرنا
ہوں گے۔ رویت ہلال کمیٹی کو چاہیے کہ ہر سال چاند دیکھنے سے متعلق اپنا الگ
ہی اعلان کردینے والے گروہوں سے رابطہ کرنے کے بعد گفت و شنید سے انھیں اس
بات پر قائل کیا جائے کہ ان کا کوئی ایک نمایندہ رویت ہلال کمیٹی سے رابطے
میں رہے اور چاند سے متعلق شہادتیں میڈیا اور عوام کو نہ دے، بلکہ رویت
ہلال کمیٹی کو دے اور پھر رویت ہلال کمیٹی اس کو پرکھ کر اعلان کرے۔ اس کے
ساتھ اہل علم و فن کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل عوامل پر غور وخوض کر کے قوم کے
سامنے مکمل وضاحت ہونی چاہیے کہ پورے ملک میں ایک ہی دن عید منانے کی شرعی
ضرورت یا حیثیت کیا ہے؟ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی شرعی یا تکنیکی حیثیت
یا جواز کیا ہے؟ جب کہ خلافت عثمانیہ میں پوری امت ایک ساتھ عید مناتی تھی
اور رویت ہلال کمیٹی کے قیام سے قبل بھی ملک کے مختلف حصوں میں مختلف محل
وقوع اور موسموں کے فرق کی وجہ سے نماز، افطار، سحر کے علاوہ عید کے دنوں
میں بھی فرق پایاجاتاتھا۔ اس پر کسی کو ایک دوسرے سے اختلاف بھی نہیں
ہوتاتھا تو کیا اب یہ ممکن نہیں؟اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟
اگر اہل علم و فن مل کر ان معاملات کو قوم کے سامنے واضح کردیتے ہیں تو
امید کی جاسکتی ہے قوم میں پیدا اختلاف کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ |
|