کیا غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے؟-حصہ دوم

اس بارے میں احادیث کا تو شمار ہی نہیں، لیکن میں یہاں صرف ایک حدیث پاک پر اکتفاء کروں گا جو کہ جامع مانع ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین زندہ ہستیوں سے بھی مدد طلب کرتے تھے اور بعد وصال بھی انہیں وسیلہ بنایا کرتے تھے، اگرچہ میں یہ اصول پہلے ذکر کر چکا کہ شرک ہر طرح سے شرک ہے، چاہے زندہ سے ہو یا مردہ سے کیونکہ نہ تو کوئی زندہ رب کریم کا شریک ہو سکتا ہے نہ ہی کوئی مردہ، ولکن الوهابية قوم لا يعقلون، لیکن وہابیہ عقل سے عاری ہیں۔

حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی کسی حاجت کے سبب امیر المؤمنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوتا، لیکن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی حاجت کی طرف نظر نہ فرماتے، وہ شخص حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور اپنا یہ معاملہ ان سے بیان کیا، انہوں نے اس سے فرمایا کہ وضو کا برتن لاؤ پھر وضو کرو پھر مسجد جا کر وہاں دو رکعت نفل ادا کرو پھر یہ دعا پڑھو:"اللهم إني أسئلك وأتوجه إليك بنبيّنا محمّد صلى الله عليه وسلم نبي الرحمة يا محمّد إني أتوجه بك إلى ربي فتقضى لي حاجتي"، یعنی اے اللہ! میں تجھ سے ہمارے نبی محمد صلى الله عليہ وآلہ وسلم، جو کہ نبی رحمت ہیں کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں اور تيری طرف متوجہ ہوتا ہوں، یا رسول اللہ! میں آپ صلى الله عليہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ پھر اس دعا کے بعد اپنی حاجت ذکر کرنا……پھر وہ آدمی چلا گیا اور وہی کیا جو حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا تھا (ایسا کرنے کے بعد) وہ شخص حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دربان نے اسے بازو سے تھاما اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر کر دیا، انہوں نے اس شخص کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا، اس نے اپنی حاجت بیان کی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی حاجت پوری کی اور پھر اس سے فرمایا: "تم نے ابھی تک مجھ سے اپنی حاجت کا تذکرہ کیوں نہ کیا؟" اور فرمایا: "آئندہ تمہیں جو بھی حاجت ہو تو ضرور بتانا"، پھر وہ شخص امیر المؤمنین کی بارگاہ سے رخصت ہوگیا، اور حضرت سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور کہنے لگا: جزاك الله خيرًا، وہ میری حاجت کی طرف نظر نہ کرتے تھے اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوتے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے میرے بارے میں بات کی، حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے ہرگز ان سے تمہارا تذکرہ نہیں کیا، (بلکہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ) میں رسول کریم صلى الله عليہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ ایک بیمار شخص حاضر ہوئے جنہوں نے اپنی بینائی چلے جانے کی شکایت کی، نبی کریم صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے انہیں صبر کا مشورہ دیا، انہوں نے عرض کی، یا رسول اللہ صلى الله عليہ وآلہ وسلم! (چلنے پھرنے میں) میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں اور یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے، تو نبی پاک صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "وضو کا برتن لاؤ پھر وضو کر کے دو رکعتیں ادا کرو پھر یہ (مذکورہ بالا) دعا مانگو"۔ خدا کی قسم! کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ شخص اس حال میں ہمارے پاس لوٹے گویا کہ وہ نابینا تھے ہی نہیں۔
(المعجم الکبير، باب العين، ج:9،ص:30، مکتبة العلوم والحکم، موصل)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جب صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کوئی پریشانی درپیش ہوتی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اپنی حاجت روائی کے لیے حاضر ہوتے۔ مزید یہ حدیث پاک حضور اکرم صلى الله عليہ وآلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد کے واقعے کی طرف نشاندہی کرتی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ بزرگان دین کو "يا" کے ساتھ پکارنا، اور ان سے مدد مانگنا اور انہیں وسیلہ بنانا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کھلے دل ودماغ سے سوچنے، سمجھنے اور پھر حق کو قبول کرنے کی توفیق دے، آمین بجاہ النبي الكريم، والله أعلم بالصواب وما عَلَيّ إلا البلاغ
Hasnain Shoukat
About the Author: Hasnain Shoukat Read More Articles by Hasnain Shoukat: 12 Articles with 26416 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.