مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان ۔۔۔۔ ایک روشن باب
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
آزاد جموں و کشمیر کے قدآور سیاستدان و
بزرگ رہنماء سردار عبد القیوم خان یوں تو کسی تعارف و تحریر کے محتاج نہیں
لیکن نسل نو کو تاریخی شخصیات اور تاریخی واقعات یاد دلانے کیلئے ان پر بار
بار قلم کشائی کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے‘ سردار عبد القیوم خان ریاست جموں
و کشمیر کے ضلع ’’باغ‘‘ کے گاؤں ’’جولی چیڑ‘‘ میں 4 اپریل 1924 ء بروز جمعۃ
المبارک پیدا ہوئے اور ریاست جموں و کشمیر کے مختلف تعلیمی اداروں میں
تعلیم حاصل کرتے رہے‘ سردار قیوم خان نے تقسیم ہند سے قبل ثانوی تعلیمی
سرٹیفیکیٹ پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کیا‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد
انہوں نے برٹش انڈین آرمی کی انجینئرنگ کور میں شمولیت اختیار کر لی‘
1942سے 1946ء تک وہ افریقی صحراؤں سے لیکر مشرق وسطیٰ تک ممالک میں تعینات
رہے اور انہوں نے فلسطینی آپریشن کے ابتدائی ایام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا‘
1946 ء میں انہوں نے وطن واپسی کے موقع پر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور
تحریک آزادی کشمیر میں شامل ہو گئے‘ اس وقت جب پاکستان کا قیام وجود میں آ
چکا تھا اور مہاراجہ کشمیر نے کشمیریوں کی خواہش اور تقسیم ہند کے پلان کے
مطابق کشمیر کے الحاق پاکستان سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں مجاہد اول
سردار عبد القیوم خان نے 23 اگست 1947 ء کو نیلہ بٹ کے مقام پر اپنے
ساتھیوں سمیت جہاد آزادی کا اعلان کردیا تھا جس کی وجہ سے انتہائی قلیل
عرصے میں گلگلت / بلتستان سمیت آزاد جموں کشمیر کا 32000 ہزار مربع میل
علاقہ آزاد ہوا اور آزاد جموں اینڈ کشمیر حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔
تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں اور کلیدی کردار ادا کرنے کی بنیاد پر انہیں
’’مجاہد اول‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا اور 1975 ء میں پاکستان قومی الائنس کے
قیام میں بنیادی کردار ادا کرنے کی وجہ سے انہیں مسلسل 6 ماہ تک پلندری جیل
میں قید کیا گیا‘1955 ء میں سردار عبد القیوم خان خطہ آزاد جموں و کشمیر کے
نامور‘ زیرک اور قد آور سیاستدانوں کی موجودگی میں محض 31 برس کی عمر میں
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے بعد مختلف ادوار
میں 14 مرتبہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوتے رہے جو سردار
قیوم کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی دور اندیشیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے اور
کم عمری میں آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کی قیات کا سہرا سردار قیوم
کے سوا کسی اور شخصیت کو حاصل نہیں‘ مجاہد اول کی خدمات اور جدو جہد کو
دیکھتے ہوئے 2000 ء میں انہیں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا تا حیات
سپریم ہیڈ مقرر کیا گیا‘ 1952 میں سردار قیوم پہلی مرتبہ 28 سال کی عمر میں
آزاد حکومت کے وزیر بنے اور 1956 میں قد آور سیاستدانوں کی موجودگی میں
انہیں صرف 32 سال کی عمر میں آزاد حکومت کا صدر بھی مقرر کیا گیا جو کسی
اعزاز سے کم نہیں تھا‘ مجاہد اول دوسری مرتبہ 1971 میں اور تیسری دفعہ 1985
ء میں اور چوتھی مرتبہ 1991 ء میں آزاد جموں و کشمیر کے صدر منتخب ہوئے
لیکن انہوں نے 1991ء میں صدارت سے استعفیٰ دیا اور آزاد کشمیر کی قانون ساز
اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم منتخب
ہوئے‘ مجاہد اول کو اﷲ تعالیٰ نے یہ اعزاز بھی بخشا کہ انہوں نے دو مرتبہ
اپنے بیٹے سردار عتیق احمد خان کو ریاست آزاد جموں و کشمیر کا وزیر اعظم
منتخب ہوتے ہوئے دیکھا اور یہ اعزاز آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ میں کسی اور
شخصیت کو حاصل نہیں کہ وہ خود بھی متعدد مرتبہ ریاست کا صدر اور ایک بار
وزیر اعظم رہ چکا ہو اور اس کا بیٹا بھی دو مرتبہ ریاستی وزیر اعظ رہ چکا
ہو۔
سردار عبد القیوم خان کی کشمیر اور کشمیریوں کیلئے جدوجہد اور ان کی گراں
قدر خدمات کی پاداش میں سخت ترین مشکلات کا سامنا بار بار کرنا پڑا‘ انہوں
نے ہر محاذ پر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا اور 1971 ء کے بعد قوم کو نظریاتی
اور فکری انتشار سے بچانے کیلئے اور قوم کو دوبارہ نظریاتی استحکام کی طرف
موڑنے کیلئے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ دیا اور یہ نعرہ آج بھی
کنٹرول لائن کے دونوں اطراف پوری قوت سے گونجتا نظر آتا ہے‘ سردار عبد
القیوم خان نے ہمیشہ سیاست کو آزاد خطے کی خدمت کے طور پر لیا اور کبھی
ذاتی مفادات کا مطمع نظر نہیں رکھا جس کی وجہ سے سیاسی محاذ پر انہوں نے
کئی قربانیاں دیں جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جا چکی ہیں‘ مجاہد اول
سردار عبد القیوم خان کے کے دل میں پاکستان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی
تھی اور ان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ پاکستانیوں سے بڑھ کر
پاکستانی ہیں لیکن انہوں نے پاکستان کی ماضی کی اکثر حکومتوں کی جانب سے
پاکستانی سیاست میں عملاََ حصہ لینے کی پیشکشوں کو کبھی قبول نہیں کیا‘
1971ء کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں محب وطن پاکستانی جب شدید مایوسی کا
شکار تھے تو ایسے حالات میں کشمیریوں نے بھی اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر
ادھر اُدھر دیکھنا شروع کر دیا تھا اور اسی دور میں خود مختار کشمیر کا
فتنہ بھی سامنے آیا چنانچہ اس نازک مرحلے میں سردار عبد القیوم خان نے
کشمیر قوم کو ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ نعرہ دے کر ان کیلئے ایک واضح منزل
اور سمت کا تعین کر دیااور پاکستان سے ان کی والہانہ محبت کا صلہ یہ ملا کہ
وہ پاکستانی عوام کے دلوں میں مقبول ترین کشمیری رہنماء بن گئے اور انہیں
پاکستانی عوام سب سے زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
1975 ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو
نے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی اپنی کوششوں میں ناکامی بعد سردار عبد
القیوم خان کو (FSF) کے ذریعے اقتدار سے محروم کرکے پابند سلاسل کر دیا‘
رہائی کے بعد سردار عبد القیوم کو پاکستان میں بھٹو حکومت کی فسطائیت
کیخلاف (PNA) اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کی پاداش میں ایک بار پھر گرفتار کرکے
پلندری جیل میں قید کر دیا گیا جہاں وہ 18 ماہ تک قید رہے‘ 1977 ء میں
باوجود اس کے کہ ذولفقار علی بھٹو حکومت نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا
انہوں نے بھٹو کی دعوت پر محب وطن کا رول ادا کرتے ہوئے PNA لیڈروں کو
مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا اور مصالحتی کوششوں کو کامیاب بنانے میں اپنا
کلیدی کردار کیا اور ریاستی عوام کی فلاح و بہبود اور تعلیم کیلئے انتہائی
اہم کردار ادا کیا‘ سردار عبد القیوم خان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ
انہوں نے پاکستان کے آئین میں الحاق پاکستان آرٹیکل شامل کروانے میں
انتہائی اہم کردار ادا کیا‘ذاتی زندگی میں سردار عبد القیوم خان ایک
انتہائی ملنسار اور سادہ شخصیت کے حامل تھے‘ میری ان سے ملاقات اس وقت ہوئی
جب میں نوجوان کالم نویسوں کی نمائندہ تنظیم کالمسٹ کونسل آف پاکستان (CCP)
کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے ایک قومی سیمینار کا انعقاد کروانے کی تیاریوں
میں مصروف تھا ان دنوں سردار عبد القیوم خان ہسپتال میں زیر علاج تھے اور
شدید نقاہت و بیماری کے غالب آنے کے باوجود ملنے جلنے والوں سے گرمجوشی کا
اظہار کر رہے تھے اور وہ لمحات میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا‘ یہ ان کی
ذات کا ہی خاصہ تھا کہ ان کی وفات کے عظیم سانحے پاکستان سمیت دنیا بھر کے
مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے اظہار افسوس کیا‘ مجاہد
اول اس وقت دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کی کاوشیں‘ کوششیں‘ محنتیں اور
محبتیں ہمیشہ موجود رہیں گی‘قارئین کرام! مجاہد اول سردار عبد القیوم خان
کی زندگی پر روشنی ڈالنے کیلئے ایک کالم نہیں بلکہ کتابوں پر مشتمل ایک
سلسلہ چروع کرنا پڑے گا کیونکہ مجاہد اول سردار عبد القیوم خان جدید اسلامی
سیاسی تاریخ اور ریاستی سیاست کا وہ درخشاں ستارہ اور روشن باب ہیں جو
مدتوں قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گے‘ اﷲ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے
اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے‘ آمین۔ |
|