دھبے
(Tariq Hussain Butt, UAE)
ایک ایسے وقت میں جبکہ مقبوضہ
کشمیر کے اندر آزادی کی لہر اپنے زوروں پر ہے اور کشمیری عوام پاکستانی
پرچم لہراتے ہوئے فلک شگاف نعروں میں پاکستان سے ا لحا ق کا مطالبہ کر رہے
ہیں تو بھارتی حکومت پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے میں مصروف ہے ۔
یہ سچ ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پر
پاکستانی پرچم لہرانا اور آزادی کا مطالبہ کرنا غیر معمولی بات ہے جس پر
بھارتی حکومت سیخ پا ہے۔آئینی طور پرکوئی شہری کسی دوسرے ملک کے جھندے لہرا
کر اس سے اظہارِ یکجہتی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے
او پھر جس ملک سے اظہارِ یکجہتی کیا جائے وہ ملک ازلی دشمن ہو تو پھر ملکی
قیادت کے غم و غصہ کا اندازہ کرنا چنداں دشوار نہیں ہونا چائیے۔سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیری عوام ہر خطرہ مول لے کر احتجاج
کی راہ اپنائے ہوئے ہیں اور بھارتی ظلم و ستم کی پرواہ نہیں کر رہے اور نہ
ہی بغاوت کے مقدمات سے خوف زدہ ہیں اور نہ ہی پھانسیوں سے ڈر کر آزادی کی
راہ ترک کر رہے ہیں؟در اصل یہ سب کچھ بھارت کا اپنا کیا دھرا ہے کیونکہ اس
نے کشمیری عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور ان کے ساتھ رائے شماری کا جو وعدہ
کیا گیا تھا اسے ایفا نہیں کیا،بلکہ ان پر فوج اور پولیس کی مدد سے تشدد کی
راہ اپنائی ہے جس میں ہزراوں کشمیریوں کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑ
رہا ہے ۔ سب سے پہلے تو میں ان حریت پسندوں کو خراجِ تحسین پیش کروں گا
جھنوں نے بھارتی سنگینوں کے سائے تلے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کئے
اور بھارتی قیادت کو یہ پیغام دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے
بلکہ ان کی منزل پاکستان ہے ۔سلامتی کونسل کی قراردادیں اس بات کا واضح
ثبوت ہیں کہ کشمیریوں کو ان کی خواہشات کے بر عکس بھارت کا حصہ بنا یا گیا
ہے کیونکہ ان قرادادوں کی رو سے مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کروانے کا
وعدہ کیا گیا تھا تا کہ کشمیریوں کی رائے معلوم کی جا سکے کہ وہ پاکستان
اور بھارت میں کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن ساٹھ سال گزر جانے کے باوجود
بھی رائے شماری کی نوبت نہیں آئی کیونکہ بھارت کو علم ہے کہ اس رائے شماری
میں کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گئے یہی وجہ ہے کہ بھارت
رائے شماری کے اپنے وعدے سے مکر گیا ہے اور سنگینوں کے زور پر کشمیریوں کو
اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا ہے لیکن کشمیری اب اس کی مزید غلامی کیلئے
تیار نہیں ہیں کیونکہ انھوں نے اب حقیقی آزادی کا عزم کر رکھا ہے جسے
سنگینوں کی مدد سے روکا نہیں جا سکتا۔کشمیریوں کی اس لہر سے خوفزدہ ہو کر
بھارت نے پا کستان میں اپنی تخریبی کاروائیوں میں شدت پیدا کر لی ہے تا کہ
پاکستان اپنے مسائل میں الجھا رہے اور کشمیریوں کی اس تحریک میں ان کی
اخلاقی اور سفارتی مدد سے محروم رہے۔ ،۔
مجھے اس وقت ۱۹۷۰ میں بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت یاد آری ہے جس میں بھات
نے پاکستان کو دو لخت کر نے کے لئے پہلے مکتی باہنی تشکیل دی اور پھر اپنی
باقاعدہ فو ج سے بنگالیوں کی مدد کی تا کہ وہ پاکستانی فوج کے خلاف اٹھ
کھڑے ہوں۔بھارت کو علم تھا کہ پاک فوج ایک ایسے خطے میں جنگ میں ملوث ہے جو
مغربی پاکستان سے دور ہے اور جہاں اس کیلئے رسد کے سارے ذرائع مسدود ہیں
لہذا اسے زک پہنچانا بہت آسان ہے۔یہی سوچ کر بھارت نے بنگالیوں کو شہ دی کہ
وہ پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر دیں اور باقی ہم پر چھوڑ دیں کہ ہم اس
سے پاکستان کو کس پھانسیں گئے ۔ بنگا لیوں کی اس لڑائی کو بھارت نے آزادی
کی جنگ قرار دے کر بنگالیوں کی جس طرح سے مدد کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
ہے۔شیخ مجیب الرحمان اس زمانے میں بھارتی اشاروں پر ناچتے تھے اور انہی کی
ایما پر انھوں نے چھ نکات بھی تشکیل دئے تھے جو کھلم کھلا دو مملکتوں کے
قیام کی کوشش تھی۔صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے اس زمانے میں شیخ
مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے انھیں مغربی پاکستان میں نظر بند کر دیا
تھااور اس کے خلاف اگر تلہ سازش کیس کے نام سے ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے
بغاوت کا مقدمہ دائر کیا تھا لیکن ہمارے سیاستدانوں نے شیخ مجیب الرحمان کی
رہائی کیلئے جس طرح جنرل ایوب خان کو مجبور کیا تھا وہ سب پر روزِ روشن کی
طرح عیاں ہے۔ یہ وہی دور ہے جس میں مغربی پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو نے
پی پی پی کی بنیادیں رکھی تھیں اور ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شروع کر
رکھی تھی۔ایوب خان نے اپوزیشن سے مذا کرات کیلئے گول میز کانفرنس کا انعقاد
کیا تو اپوزیشن نے شیخ مجیب الرحمان کی رہائی کا مطالبہ کر دیا۔ان
سیاستدانوں کو علم تھا کہ شیخ مجیب الرحمان وطن کے غدار ہیں لیکن اس کے
باوجود بھی وہ شیخ مجیب الرحمان کی رہائی پر مصر رہے ۔وہ ایوب مخالفت میں
ملکی مخا لفت تک جا پہنچے جس کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑا ۔سیاسی
جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے ایوب خان کو وہ مقدمہ واپس لیناپڑا اور شیخ مجیب
الرحمان کو رہا کرنا پڑا تھا جس کی قیمت پاکستان کو چکانی پڑی ۔رہائی کے
بعد شیخ مجیب الرحمان کی مقبولیت ساتویں آ ٔسمان کو چھونے لگی اور اسے
بنگلہ دیش کے قیام کا ہدف بالکل واضح اورصاف نظر آنے لگا ۔ہمارے سیاستدانوں
کی کوتاہ نگاہی کی داد دینی پڑے گی کہ یہ ذاتی مفادات کی خا طر ملکی مفادات
سے نظریں چرا لیتے ہیں۔انھیں حکومت مخالف تحریک کا کوئی بھی موقعہ
ملناچائیے وہ اس موقعہ کو ضائع نہیں جانے دیں گئے بھلے ہی اس سے ملکی
یکجہتی پارہ پارہ ہو جائے۔شیخ مجیب الڑحمان کے معاملے میں بھی انھوں نے یہی
کیا تھا۔وہ حکومت مخا لفت میں اتنی دور نکل گئے کہ انھیں یہ سوچنے کی بھی
فرصت نہ مل سکی کہ شیخ مجیب الرحمان ملک کا غدار ہے۔حب الوطنی اور غداری
میں کوئی تو لکیر کھینچی جانی چائیے لیکن ہمارے سیاستدان ایسی کسی بھی لکیر
پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اقتدار کے حصول کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کیلئے
تیار ہو جاتے ہیں-
بھارتی وزیرِ اعظم نریدنر مودی کی زبان سے اس کا اقرار ایک ایساجرم ہے جس
پر عالمی عدالت میں اس پر مقدمہ چلایا جانا چائیے۔کسی بھی آزاد او کود
مختار ملک میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمائت کرنا اقوامِ متحدہ کے چارٹر
کی کھلی خلاف ورزی ہے جس پر بھارت کا ایک ملزم اور جارح کی صور ت میں دنیا
کے سامنے ننگا کیا جانا ضروری ہے لیکن ہماری ملکی قیادت اس کیلئے تیار نہیں
ہے۔یہ تو ہماری فوج ہے جو کہ بھارت کو نا پسندیدہ ملک سمجھتی ہے وگرنہ
ہماری سیاسی قیادت تو بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے تاب رہتی ہے
۔در اصل ہماری سیاسی قیادت کے کچھ کاروباری مفادات بھارت سے جڑے ہوئے ہیں
جس کی وجہ سے وہ بھارت کے خلاف کھل کر میدان میں نہیں نکلتے۔وہ دلی طور پر
بھارت سے خائف بھی ہیں اور ان سے متاثر بھی ہیں تبھی تو انھیں ساڑھیوں کے
تحائف بھیجتے ہیں اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حلف وفا داری کی
تقریب میں شرکت بھی کرتے ہیں تاکہ بھاری قیادت کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ
ہمیں تو آپ کی سپر میسی قبول ہے یہ تو ہماری عسکری قیادت ہے جو تعلقات کو
معمول پر لانے میں روڑے اٹکاتی ہے ۔سوال یہ نہیں ہے کہ بھارت کے ساتھ
تجارتی مراسم ہونے چائیں کہ نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے
ہمیں دو لخت کیا تھا اور جو اس بات کا کھلا اعتراف بھی کرتا ہے تو کیا پھر
بھی اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھاوا دینا چائیے ؟ بھارت کے جسم پر
بنگلہ دیش کے قیام،علیحدگی پسندوں کی حو صلہ افزائی،ان کی فنڈنگ،کشمیریوں
پر ظلم و ستم ،دھشت گردی کی کاروائیوں کے دھبے ہیں جس نے پاکستا ن کے ہر
شہری کے سینے میں بھارت کے خلاف ایک طوفان برپا کیا ہوا ہے جس کا ادراک
ہماری حکومت کو بھی ہے لیکن وہ خاموش رہتی ہے۔جنرل پرویز مشرف اور جنرل
راحیل شریف نے جس طرح بھارتی حکومت کو للکارا ہے اس سے پاکستانی عوام کو
یقین ہو گیا ہے کہ بھارت د ھشت گردی کا سرغنہ ہے اور پاکستان کی یکجہتی اور
استحکام کا سب سے بڑا دشمن ہے لہذا ایسے سرغنے کو سبق سکھایا جانا ضروی ہے
۔ پاکستان چین کی مدد سے جس معاشی خو شخالی کا خواب دیکھ رہاہے بھارت اس
میں بھی اپنی سازشوں سے بازنہیں آ رہا ۔اس کی حتی الوسع کوشش ہے کہ اس
راہداری کو کسی طرح سے ناکام بنا دیا جائے تا کہ بھارتی تجارت کے اہداف کو
نقصان پہنچنے کا کوئی احتمال باقی نہ رہے۔ پاکستان ترقی اور خوشخالی کی جن
نئی منزلوں کا را ہی بن رہا ہے اسے اس سے کوئی نہیں روک سکتا لہذا بھارت کی
بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہے۔ |
|