نصیر احمد ناصرؔ کی ’ہائیکو‘:’ایک مطالعہ ‘
(Dr Abdul Karim, Muzzafarabad)
نصیر احمد ناصر اردو نظم کا
معتبر نام ہیں۔میں ان سے کبھی نہیں ملا ۔ان کا نام ستیہ پال آنند کی ’کتھا
چارجنموں کی ‘ میں جب میرپور آزا دکشمیر کے حوالے سے آیا تو پھر میں نے ان
کے بارہ میں کھوج شروع کی (کیونکہ ہم تحقیق کے لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے)۔
ان کا فون نمبرپروفیسر غازی علم الدین کے ذریعے سے ملاتو پھر ان سے تقریباً
ایک سال قبل فون پر تفصیلی بات ہوئی ۔۴۰منٹ کی اس کال میں نصیراحمد ناصر ،ان
کے فن،ان کے ادبی میگزین ’تسطیر‘ ،ان کی نظم نگاری اور ادبی اکھاڑ پچھاڑ پر
کھل کر بات ہوئی ۔اس گفتگو سے میں نے ان کے بارے میں کچھ باتیں اخذ کیں۔
۶۱سالہ نصیر گجرات میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک کی تعلیم
کھاریاں میں حاصل کی ۔وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں اور ہم نظم سے
نالاں ۔تاہم میرے اصرار پر انھوں نے کمال محبت سے اپنے شعری مجموعے بذریعہ
ڈاک ارسال کر دیے ۔ ناصر کے چھے شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں سے
پانچ نظم کے ہیں ۔ان کا شعری سفر چار عشروں پر محیط ہے۔تاہم تصنیفی سفردو
عشروں کا ہے۔ان کے شعری مجموعوں میں عرابچی،پانی میں گم خواب،تیسرے قدم کا
خمیازہ ،زرد پتوں کی شال ،ظرفاب اور ملبے سے ملی چیزیں شامل ہیں ۔نصیر مشکل
چند شاعر ہیں اس لیے ان کی شاعری میں مشکل تراکیب و تلمیحات ملتی ہیں ۔تاہم
میں نے جب بھی کسی لفظ و ترکیب کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے کمال
مہربانی سے وضاحت کردی ۔
’زرد پتوں کی شال‘نصیر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو۱۹۹۳ء میں شائع ہوا
اور۲۰۱۳ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن سامنے آیا۔اس شعری مجموعے میں ۱۹۸۰ء
سے۱۹۹۰ء تک یعنی گیارہ سال کے دوران لکھے گئے ہائیکوہیں ۔اس کا پیش لفظ
ممتاز محقق ،نقاد اور انشائیہ نگارڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے۔جس پر
دسمبر۱۹۹۸ء تحریر ہے ۔ہائیکو جاپانی صنف سخن ہے۔وزیر آغانے ہائیکو اور
خاموشی کو مترادف الفاظ قرار دیا ہے۔ہائیکو معنی کی تلاش کا عمل نہیں بلکہ
شے کو مٹھی میں بند کرنے کا وظیفہ ہے۔یہ دھڑکتے ہوئے دل سے مشابہت رکھتی
ہے۔اس کا پہلا مصرعہ سمٹتا ہے، دوسرا پھیلتا ہے، تیسرا پھر سمٹ جاتا
ہے۔بالکل جیسے دل سمٹتا ،پھیلتا اور پھر سمٹتا ہے۔یہ ہائیکو نصیر احمد ناصر
نے سعودی عرب قیام کے دوران لکھے ۔جہاں چاروں طرف ریت کا سمندر ہے اور جہاں
ریت کا سمندر ختم ہوا ہے وہاں سے پانی کا سمندر شروع ہو گیا ہے۔فطرت اور
انسانی فطرت کا ملاپ نصیر احمد ناصر کے ہائیکو کاایک امتیازی وصف ہے ۔ اس
کتاب کا ایک اور امتیازبینابسو اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ ویسے کیا ہی اچھا
ہوتا کہ نصیر اپنی مادری زبان میں بھی ترجمہ شامل کر دیتے ۔نصیر کی ہائیکو
کے موضوعات متنوع ہیں ۔ان کے کچھ ہائیکو بہت گہرائی رکھتے ہیں ۔جیسے
اس کو کھویا ہے ،خود کو پایا ہے
ایک لمحے کی آشنائی میں
کتنی عمروں کا دکھا اٹھایا ہے
ان تین مصرعوں میں ایک زندگی کا کرب ہے ۔ایک روگ ہے ۔تاہم اس کا حاصل مجھے
پہلا مصرعہ لگتا ہے اور نیوکلیس دوسرا مصرع ہے ۔پہلے مصرعے میں متضاد الفاظ
کے استعمال سے قاری کو کنفیوز کیا گیا ہے ۔جس کو آپ چاہتے ہیں اس کو کھو کر
بھی آپ بہت کچھ پا لیتے ہیں ۔اور ساری زندگی کا دکھ وہی ایک لمحہ تو ہوتا
ہے۔جس میں ہم کسی کے ہو جاتے ہیں ۔وہی ایک لمحہ زندگی کا حاصل بھی ہے۔نصیر
احمد ناصر زندگی کی حقیقتوں ،تلخیوں ،نفرتوں ،محبتوں سے آشنا ہیں کیونکہ وہ
گرم و سرد دیکھ چکے ہیں اور اب ان کو انگلی سے پکڑ کر ان کا پوتا چلاتا
ہے۔ان کا یہ ہائیکو
زندگی اسیروں کی
ساحلوں کی تنہائی
خاموش جزیروں کی
ایک فرد نہیں بلکہ ایک قوم کا المیہ بھی بیان کرتا ہے ۔اسیروں کی زندگی
کشمیر سے برما اور فلسطین تک اس المیے کو سامنے لاتا ہے۔جن کا کوئی پرسان
حال نہیں ۔ان کے دن ،ان کی راتیں ،ان کی صبحیں اور ان کی شامیں کیسے گزرتی
ہیں: یہ کوئی ویران ساحلوں،خاموش جزیروں پر جا کر محسوس کر لے یا ان خانمہ
بربادوں سے پوچھے۔ہائیکو میں فلسفے بیان کرنا خاصا مشکل کام ہے ۔لیکن نصیر
نے یہ کٹھن کام بھی انجام دیا ہے۔جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
وقت کے سمندر میں
جسم کے جزیرے پر
روح کا بسیرا ہے
وقت واقعی سمندر ہے اور ہمارا جسم اس سمندر میں ا یک جزیرہ ہے(ویسے جزیرے
کی سمندر میں حیثیت ہی کیا ہے) اور اس جزیرے پر ہماری روح کا بسیر ا ہے۔جسے
کوئی نہیں جانتا ۔نہ اس کاانت ہے اور نہ کوئی جان سکا۔اس طرح جدائی کے کرب
کو بھی انھوں نے اگر بیان کیا ہے تو بعض ہائیکو ایسے ہیں کہ جو روح میں ایک
چین،سرور اور سکون لاتے ہیں ۔ان کے لفظوں کے ساتھ ہی ایک سرور روح میں
اترتا ہے
رات کے کنارے پر
صبح مسکراتی ہے
آخری ستارے پر
اسی طرح انسانی زندگی میں خوابوں کو اچھوتے اورمنفرد اندازمیں بیان کیا
ہے۔انسانی زندگی خوابوں کے بغیر ویران اور بنجر ہے۔زندگی میں آگے بڑھنے کے
لیے ضروری ہے کہ خواب دیکھے جائیں اور پھر ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈی
جائے۔انھوں نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے
شہر یاروں سے کہو
ٹوٹ جاتے ہیں مگر
خواب مرتے تو نہیں
ایک سچائی کو کتنی آسانی سے بیان کر دیا ہے کہ خواب ٹوٹتے ہیں مرتے نہیں
۔اسی طرح کا ایک انداز یوں بھی ہے کہ کچھ لوگ حالات کے ہاتھوں پتھر دل ہو
جاتے ہیں اور اندر ہی اندر ٹوٹتے ہیں اور ان کے آنسو کہیں اور گرتے رہتے
ہیں ۔وہ رونے کو بزدلی گردانتے ہیں اور اکثر تنہائیوں میں روتے ہیں کہ ان
کے نزدیک بہادری یہ ہے کہ آنسو نہ بہائیں اور اس میں ایک حقیقت یہ بھی
پوشیدہ ہے کہ ہم اپنوں سے دور جا کر روتے ہیں ۔محبوب سے دوری ،فراق
،ہجر،بچھڑنے کو ہر شاعرنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔کچھ کو محبوب کی یاد
ہی کا سہارا بہت ہوتا ہے ۔کوئی محبوب سے تنہائی میں باتیں کرتا ہے اور کوئی
اسے یاد کر کے تنہائیوں میں روتا ہے۔کیونکہ اس کے بغیر دل آنگن سونا ہوتا
ہے اور کچھ عشاق کا تزکیہ محبوب کی یاد میں رونا بھی تو ہے۔اس لیے کہتے ہیں
رات ٹوٹ کر برسا
دل کے سونے آنگن میں
تیری یاد کا بادل
نصیر نے محبوب اور محب کے تعلق کو انوکھے استعاروں اور تشبیہات سے بیان کیا
ہے ۔محبوب کو سمندر اور اپنے آپ کو جزیرے سے تشبیہ دی ہے ۔دونوں کا دکھ
مشترک ہے ۔ جزیرہ سمندر میں اکیلا ہوتا ہے۔اس کے چاروں طرف سمندر ہوتا
ہے۔اکثر ہم پانی پاس ہو کر بھی پیاسے رہتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے محبوب کے
ہوتے ہوئے بھی وصال ممکن نہیں لگتا۔دونوں تنہا تو رہتے ہیں لیکن جس طرح ایک
دن سمندر جزیرے کی تنہائی دور کر دیتا ہے اس طرح محبوب کا وصال بھی ممکن ہو
جاتا ہے۔سمندر اور جزیرے کی دوری دائمی نہیں ۔بے نام جزیرے ابھرتے اور مٹتے
رہتے ہیں ۔سمندر انھیں اپنی آغوش میں لیتا رہتا ہے اسی طرح محبوب کی محبت
کے سمندر میں جدائی کا جزیرہ غرق ہو سکتا ہے۔
نصیر نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا
ہے۔ان سب کا شعور ہم کو بھی ہوتا ہے ۔ہم اس انداز میں بیان کرتے پر قدرت اس
لیے بھی نہیں رکھتے کہ ہم شاعر نہیں ۔اسی طرح ہائیکو میں انسان یا فرد کی
تنہائی کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ہم کسی فرد کے ساتھ عشروں رہتے ہیں لیکن
پھر بھی ہم کو تنہائی اچھی لگتی ہے۔یعنی اصل ہم آہنگی ذہنی ہے جسمانی نہیں
۔اسی لیے کسی کے ساتھ ہم سالوں رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ہم کو یہ اچھا لگتا ہے
کہ کاش تنہا ہوں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک فرد ناپسندیدہ بیوی یا عورت
ناپسندیدہ خاوند کے ساتھ رہ رہے ہوں ۔
مسلسل ساتھ رہنے سے
طبیعت اوب جائے تو
جدائی اچھی لگتی ہے۔
موسم سرما کے چاند، یخ بستہ ہونٹوں اور آخری بوسے جو تثلیث بنتی ہے اس کو
وہی سمجھ سکتے ہیں جو محبت کے کرب سے گزرے ہیں اورپھرہمیشہ کے لیے جدا
ہوگئے ہوں ۔محبت مسلسل دکھ،کرب اور نا آسودہ خواہش کا نام ہی تو ہے ۔اس
جذبے میں گزرا ایک لمحہ بعض دفعہ ساری زندگی کا حاصل قرار پاتا ہے۔
موسم سرما میں چاند
ہونٹ یخ بستہ ہوئے
آخری بوسے کے بعد
انسان دو موسموں میں ہمیشہ رہتا ہے، اندر کاموسم اور باہر کا موسم ۔باہر کے
موسم کا اثر اندر کے موسموں پر پڑتا ہے اور اندر کے موسموں کا اثر باہر کے
موسموں پر لیکن کچھ روحیں باہر کے موسم کو اندر نہیں آنے دیتیں۔ وہ کرب کی
اس کیفیت سے گزرتی ہیں کہ ان کے لیے تنہائی تریاق بن جاتی ہے ۔یہ بھی ایک
کیفیت کا نام ہے کہ بارش کا برسنا کچھ روحوں کو آنکھوں کے برسنے کے مترادف
محسوس ہوتا ہے جیسے یہ انداز کہ
تنہائی کا ساز
رونے جیسی لگتی ہے
بارش کی آواز
دکھ اور غم کی کیفیت میں ہمیں ویسے بھی ہنستے چہرے اچھے نہیں لگتے۔نصیر کے
ہاں کہیں علامتی انداز بھی ہے جیسے یہ ہائیکو کہ
دور کہیں اک پھول
کھلتا ہے پر دیکھے کون
آنکھیں مٹی دھول
پھول مرادوں کا بھی ہو سکتا ہے اور آنکھوں میں مٹی دھول موسموں کے علاوہ
عمروں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری بصارت عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی ہے ۔موتیا
اترنا ،ککرے پڑنا ،پانی آنا،دھندلا جانا، کبھی قریب کبھی دور دکھائی نہ
دینا ۔ہم خواب دیکھتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ دریچے بند ہوتے چلے جاتے ہیں
۔خواب تو نہیں مرتے۔اسی لیے جس خواب کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں کبھی کبھی وہ
ہمیں ایک امید موہوم دے جاتا ہے لیکن ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا
افسانہ تھا ‘ کے مصداق ہم زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہوتے
ہیں۔
نصیر احمد ناصر کا معاشی شعور بھی ان کی ہائیکو میں جھلکتا ہے ۔یہ ملک
بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور اس ملک کے باشندوں کی معقول تعداد زراعت کے
پیشے سے وابستہ ہے۔جاگیردارانہ سماج میں کسان ساری زندگی خون پسینہ ایک
کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے نہیں بنا پاتا ۔وہ جس کی
محنت پر عالیشان محلات کھڑے ہوتے ہیں ،اس کی اولاد اکثر بھوکی ہی سو جاتی
ہے۔اس کے بچے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں یا ہجرت کر سکتے ہیں ۔ان کی قسمت میں
گندم کی فصلیں کھڑا کرنا ہے۔جس کو دیکھ کر جاگیر دار خوشی سے پھولے نہ
سمائے ۔جاگیردار کے بچے کسان کے خون پسینے کی کمائی پر کنگ
ایڈورڈیاہاورڈجیسی جامعات میں تعلیم پائیں گے اور اس ملک پر حکمرانی کریں
گے ۔اس کے کرب کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو پاکستانیوں کی غربت کو سمجھتا ہے
۔جس کا اس سماج سے گہرا تعلق ہے کہ
گندم کی کھڑی فصلیں
کیوں بھوک سے روتی ہیں
کھیتوں میں پلی نسلیں
شاید کچھ کے مقدر میں ایسا ہی لکھا ہوتا ہے ورنہ شاعر مشرق بھی یوں نہ کہتے
کہ
سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالا
ہم چلتے چلتے آخری ہائیکو تک آپہنچے اور ہمارے خواب بھی ۔یہ ہائیکو ایک فرد
کا خواب بھی ہے اور ایک قوم کا بھی ۔اگر قوم اور مشرقی پاکستان کے تناظر
میں سوچیں تو ایک خواب نے اس ملک کو جنم دیا۔ اسی کیفیت میں ہم نے کئی سال
گزارے اور ایک دن یہ قوم اسی نظریے کے ساتھ خلیج بنگال میں ڈوب کر نکلی تو
بنگالی تھی اور ملک بنگلہ دیش۔ زندگی کا بڑا حصہ ہم اس خواب کے پیچھے
بھاگتے گزار دیتے ہیں جو کبھی پورا ہو ہی نہیں سکتا لیکن وہ ایک Catalystکا
کام ضرور دے جاتا ہے۔ہم ایسے ہی زندہ رہتے ہیں ۔ایک نشے کی کیفیت میں زندگی
کے ماہ و سال گزارتے ہیں اور ایک دن ریشم کے کیڑے کی طرح ریشم کے اندر یعنی
اپنے خوابوں کے ساتھ مر جاتے ہیں ۔اس ہائیکو میں کتنا درد ہے، اسے پڑھ کر
محسوس کریں ۔
خواب میں پیدا ہوئے
خواب میں زندہ رہے
خواب میں ہی مر گئے
کون کہتا ہے کہ ہائیکو کے ذریعے اپنے افکار ،جذبات ،تخیلات کا ابلاغ ممکن
نہیں ۔نصیر احمد ناصر کے ہائیکو کے اس مجموعے کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انھوں
نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ۔انھوں نے مؤثر انداز سے ان تین مصرعوں کی
نظم سے ابلاغ کا کام لیا ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں ۔یہ لازمی نہیں کہ
تمام ہائیکوپراثر ہوں۔ ہرنالہ پر درد اورپر اثر تو نہیں ہوتا تاہم کچھ نالے
بہرحال درد کی وہ کیفیت رکھتے ہیں جن پر کچھ روحیں کان دھرتی ہیں ۔تاہم
حیرت اس بات پر ہے کہ نصیر احمد ناصر نے ۲۰سال بعد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن
لایا لیکن اس میں اضافے نہیں کیے ۔غزل کی تنگ دامنی سے بھاگ کر نصیر احمد
ناصر نے نظم کے وسیع دامن میں پناہ لی لیکن پھنس گئے ہائیکو میں۔ اس سے یہ
بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ پابندیوں کو شاعری کا حسن تسلیم کرتے ہیں ۔ ورنہ
وہ اس کا دوسرا ایڈیشن کبھی نہ لاتے۔ |
|