منصور خوشتر کی شاعری پر ایک نظر

 سلیم انصاری
منصور خوشتر کی شاعری کی کچھ غزلیں رسائل و جرائد کے حوالے سے میرے مطالعے میں پہلے ہی آچکی ہیں اب جبکہ ان کی کئی ساری غزلیں مجھے ایک ساتھ پڑھنے کو ملیں تو ان کی شاعری کے بارے میں مجموعی رائے قائم کرنے موقع بھی مجھے ملا ہے۔ منصور خوشتر دربھنگہ کے نوجوان شاعر ہیں ،پڑھے لکھے انسان ہیں ، پیشے سے فزیو تھریپسٹ ہیں اور ایک فعال صحافی بھی ہیں ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ایوان ِ ادب میں محتاجِ تعارف نہیں ہیں ،سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز جیسے ادبی جریدے کے مدیر ہیں اسکے علاوہ ایک ہفتہ وار اخبار دربھنگہ ٹائمز کی ادارت بھی ان کے ذمہ ہیں ،اس اعتبار سے دیکھیں تو انکی شخصیت کئی خانوں اور کئی دشاؤں میں منعکس ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

مجھے منصور خوشتر کی شاعری پڑھ کر یہ اندازہ ہوا کہ وہ ایک باخبر انسان ہیں اور انکے سینے میں سوز وگداز سے بھرا ہوا ایک دردمند دل ہے جو عشق و محبت کے کھٹے میٹھے تجربا ت کو بھی اپنی تخلیقی سوچ کا حصہ بناتا ہے اور معاشرے میں ایک عام انسان کے مسائل و مصائب کو محسوس کرنے پر بھی قادر ہے۔انکے یہاں نہ تو ترقی پسندوں کی طرح گھن گرج ہے اور نہ ہی جدیدیوں کی طرح انتشار،خوف ،شکست ،تنہائی اور خود فریبی کا احساس۔ میرے نزدیک انکے یہاں شاعری وارداتِ قلبی اور نجی محسوسات کا اظہار ہے اور شاید یہی خصوصیت کسی بھی شاعری کو اچھی اور سچی شاعری کا درجہ عطا کرتی ہے۔

ایک اور خصوصیت جو مجھے منصور خوشتر کی شاعری میں نظر آتی ہے وہ انکی سادگی اور بے ساختگی ہے ،انکے یہاں ایک سیدھا سچا براہ راست لہجہ ہے جو شعر کو ترسیل کے المیے کا شکار نہیں ہونے دیتااور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو قاری کو شعر سے جوڑے رکھتا ہے۔انکے یہاں موضوعات بھی انسانی زندگی کے گردوپیش رقص کرتے نظر آتے ہیں چند اشعار ملاحظہ کریں
مشکلیں جاں پہ کیا کیا اٹھاتے رہے
پر محبت بھی ہم ہی نبھاتے رہے

لاکھ کرتے رہے تم دل آزاریاں
ہم قصیدہ تمہارا ہی گاتے رہے

غم نہیں اسکا محبت میں نہیں کچھ پا سکا
مطمئن اس پر ہوں میں نے کچھ گنوایا بھی نہیں

اک وفا تیری تو سب کچھ نہیں میرے محبوب
شوق سے بڑھ کے ہے ناموس مری جاں اپنا

مان لوں بات تری بھول بھی جاؤں تجھ کو
اسکی تدبیر بتاؤ کوئی ایسی صورت

محبت کرنے والوں کا یہاں اک اپنا مذہب ہے
وہ راہِ عشق میں سود و زیاں دیکھا نہیں کرتے

ہے پوشیدہ یہاں بھی اپنی ہی عزت کا اک پہلو
کسی سے بد سلوکی کا تری چرچا نہیں کرتے

محولہ بالا اشعار میں منصور خوشتر کی شاعری میں عشق و محبت کے مختلف شیڈس کے اظہار کی خوبصورت کوشش کی گئی ہے روٹھنا،منانا،بھولنا ،بے رخی ،بے وفائی ،بے بسی اور بے چارگی کے احساسات سے نئے شعری منظر نامے کی ترتیب میں کامیاب ٹہرتے ہیں شاعر کے یہ اشعار اسکے علاوہ بہت سے ایسے اشعار منصور خوشتر کی غزلوں سے پیش کئے جا سکتے ہیں جن میں واردات ِ عشق و حسن کو پیش کیا گیا ہے،اس بات سے قطعِ نظر کہ انکے یہاں استعاراتی اور علاماتی نظام نیز فکری پیچیدگیوں کے کتنے عناصر موجود ہیں میں ایک بار پھریہی کہوں گا کہ انکی شاعری میں ایک سیدھا سچا لہجہ ہے اور رمزو کنایہ سے پاک ہے جو ہمارے بعض ناقدین ، شعرو ادب کے نزدیک سہل اور سپاٹ لہجہ ہو سکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی صنعت، شعری میں ایک انفرادیت ہی ہے۔

منصور خوشتر ایک نوجوان شاعر ہیں اور انکے سامنے ایک طویل تخلیقی سفر درپیش ہے لہٰذا انکی شاعری کے بہت سارے رنگ ابھی پوشیدہ ہیں اور منکشف ہونے کے انتظار میں ہیں جو وقت کے ساتھ یقینی طور پہ ایک نئے تخلیقی منطر نامے کے ساتھ جلوہ گر ہوں گے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ زیرِ نظر شعری مجموعے میں محض ایسے اشعار ہی نہیں ہیں جو شاعر کی وارداتِ قلبی اور خوش رنگ جذبات کے مظہر ہیں بلکہ انکے یہاں ایسے اشعار کی بھی کمی نہیں جو عصری تقاضوں اور عام انسانی زندگی کے مسائل و مصائب اور شاعر کی فکر اور مشاہدات کے مروجہ تناظر میں شاعر کے باخبر ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
اب پرندے ہو گئے ہیں ہوشیار
بھاگتے ہیں دور دانہ دام سے

بھیج دی ہے بادلوں کو بھی خبر
گھر ہے مٹی کا بناتے رات دن

مہربانی ہے نئی تہذیب کی
کر گئی کتنا ہمیں ننگی ہوا

کچھ روشنی کا قرض بھی اب میری گردن پہ نہیں
دل ہے اسیرِ تیرگی و بے بسی آوارگی

سلیقے سے جو کرتا دشمنی بھی
ستمگر اب کوئی ایسا کہاں ہے

دائرے میں ہوں گھرا تہذیب کے
اس کے باہر میں تو جا سکتا نہیں

سیکڑوں قتل کئے جس نے وہی منصف ہے
شہر کا تیرے ہے دستور نرالا کیسا

تب کہیں جا کے ملا ہے مجھے منزل کا سراغ
رہنما شوق کو جب اپنے بنایا میں نے

ان اشعار میں منصور خوشتر کے یہاں وسعتِ فکر ، اور نئی سوچ کی قوس قزح کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عام انسان کے مسائل و مصائب ، نئی نسل کی نا امیدی ،مایوسی ، خوف ،تشکیک ،تنہائی ،بے یقینی اور بے زمینی کے کرب کا خوبصورت اظہار ہیں یہ اشعار،اسکے علاوہ بکھرتی توٹتی تہذیبی قدروں کے ٓھساسات کو بھی منصور خوشتر نے اپنی تخلیقی سوچ کا حصہ بنایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انکی سوچ کا کینوس وسیع ہے ،اور انکے آئندہ تخلیقی سفر میں انکی فکر کا دائری مزید پھیلاؤ اختیار کرے گا ۔

منصور خوشتر کی غزلوں سے گزرتے ہوئے مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ اس شاعر کے یہاں بہت تخلیقی امکانات ہیں ۔ا ﷲکرے زور قلم اور زیادہ۔
Mansoor Khushter
About the Author: Mansoor Khushter Read More Articles by Mansoor Khushter: 12 Articles with 12270 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.