کراچی میں کئی روز سے بجلی غائب
ہے حکمران اور اشرافیہ اپنے اپنے گھروں میں جنریٹروں کی بجلی کے مزے لے رہے
ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حکمران سیاستدان دونوں اس وقت بیان بازی
کی سیاست کررہے ہیں صرف عوام کو بیوقوب بنانے کے لیے یہ سب ٹوپی ڈرامہ
رچایا جارہا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائیگی ان نیب زدہ
حکمرانوں نے خاک کاروائی کرنی ہیں جن کے دور اقتدار میں کرپشن اور لوٹ مار
کازار گرم رہا اور جن کی پالیسیاں یہ ہیں کہ جتنا بڑا لٹیرا اتنا بڑا عہدہ
یہاں جرائم ثابت ہونے پر سزائیں نہیں بلکہ انعامات و اکرام سے نوازا جاتا
ہے جتنا بڑا کسی سیاستدان یا سرکاری ملازم نے فراڈ ،گھپلا اور جرم کیا ہوگا
اتنے ہی بڑے انعام کا مستحق قرار دیکر اسے شاباش دی جاتی ہے اگر نہیں یقین
تو نیب نے جن فراڈیوں ،چوروں ،ٹھگوں ،لٹیروں اور عوام کا خون چوسنے والے
افراد کی لسٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے اس پر صرف ایک نظر ہی دوڑا کردیکھ
لیں کہ قومی خزانہ لوٹنے والے صدر پاکستان سے لیکر تمام اہم عہدوں پر
براجمان رہے اور ابھی تک حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں میں بات کررہا تھا
کراچی میں بجلی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کرنے کے حکومتی بیانات
کی جو حسب سابق اور حسب روایت ہٹ دھرمی کا شکار ہوبات آئی گئی ہوجائیگی
بلکہ جو اس بحران کے ذمہ دار ہونگے ہوسکتا ہیں کہ انہیں بھی غازی بروتھا کے
افسران کی طرح انعامات اور ترقیوں سے نوازا جائے غازی بروتھا کا ذکر آیا ہے
تو اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں اگر انہیں یاد ہوکہ پیپلز پارٹی کے دور
میں بھی ایک بار طویل بریک ڈاؤن ہوا تھا اور اسکی اندرونی کہانی میں نے
بیان کی تھی کہ گیمیں کھیلتے کھیلتے کیسے ایک نااہل اور نکمے جونیئر
انجینئر نے بجلی پیدا کرنے والی ٹربائن مشین بن کردی تھی اسی کہانی کو میں
ایک بار پھر دہرائے دیتا ہوں اسکے بعدشائد بات کچھ واضح ہو سکے کہ کراچی
میں بھی کے الیکٹرک میں بیٹھے ہوئے افسران یا حکومتی عہدیداروں کے خلاف کچھ
بھی نہیں ہوگا سمجھ سب کو آجائیگی کہ کراچی میں بھی کسی کے خلاف کچھ نہیں
ہوگا یہ 24فروری 2013ء کی بات ہے اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت اور وزیر
اعظم سید یوسف رضا گیلانی تھے پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف بھی اسی
روزغازی بروتھا کے قریب اٹک میں اپنے جلسہ عام میں حسب روایت بڑی بڑی چھوڑ
رہے تھے کہ اقتدار ملا تو 2سال میں کرپشن اور توانائی بحران کا خاتمہ
کردینگے اور اس وقت بھی پورا ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا جیسے آج کراچی
سمیت ملک کے بیشتر حصے بجلی کے بغیر ہیں غازی بروتھاپاور ہاؤس میں جان بوجھ
کر پیدا کیا گیا فالٹ جب طویل شکل اختیار کرگیا تو وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی نے بھی اپنی عادت کے مطابق بیان جاری کردیا کہ اس بجلی بحران کے ذمہ
داروں معاف نہیں کیا جائیگا یہ سب کچھ ہوا کیسے تھا اب زرا اسکی تفصیل بھی
ملاحظہ فرمالیں باقی باتیں آکر میں لکھوں گاسب سے پہلے میں اپنے پڑھنے
والوں کو یہ بتا دوں کہ پاور ہاؤس کے یونٹس پانی کے کس لیول تک کام کرسکتے
ہیں انہیں کون چلاتا اور بند کرتا ہے غازی بروتھا پاور ہاؤس کے یونٹس عام
طور پر 2جگہوں سے چلائے اور بند کیئے جاتے ہیں پہلے نمبر پر مین کنٹرول سے
اور دوسرے نمبر پرULCP(Unit Local Control Penal) سے اگر یونٹ کا سلیکٹر
سوئچ ریموٹ پر ہو تو یہ M.C.Rسے چلیں گے اور اگر یہ سلیکٹر سوئچ D.C.S
Local پر ہو تو یہ ULCP سے چلیں گے MCRسے یونٹ سپروائزری یا JEs چلاتے ہیں
اور ULCPسے ٹربائن آپریٹر چلاتا ہے چونکہ اس پاور ہاؤس میں Latest
ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے اس لیے ماسوائے آواز کے باقی ہر چیز Events
پرنٹر میں یونٹ کے ہر قسم کے Behavior کے متعلق پرنٹ ہو رہی ہوتی ہے یہ
واقع24فروری 2013ء کو رات 11بجکر 26منٹ اور 43سیکنڈکا ہے اس وقت یونٹ نمبر
1,3,4اپنی فل کپیسٹی یعنی ہر یونٹ 290 MW لوڈ پر چل رہے تھا اس طرح تینوں
یونٹس کاٹوٹل لوڈ850 میگا واٹ تھا اور ہر یونٹ کا سلیکٹر سوئچ ریموٹ پر تھا
اس وقت Fore Bey کالیول 330.8 میٹرتھا اور یہ یونٹس329.5میٹر ٖFore Bey
لیول تک 290 میگا واٹ لوڈ پر چل سکتے ہیں اس وقت سپروائزری اسفند یار اور
جونیئر انجینئر امیر محمد M.C.R سے یونٹوں کو کنٹرول کررہے تھے کہ امیر
محمد نے کمپیوٹر سے مشترکہ صفحہ نکالا اور تینوں یونٹوں کو بند کرنے کی
کمانڈ دیدی یہ کام اسنے تقریبا چند سیکنڈ زمیں ہی مکمل کرلیا اس وقت ٹربائن
آپریٹر جو کہ یونٹ نمبر 3کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے نے یونٹ کو بند ہوتے دیکھا
تو اس نے فوری طور پر اسفند یار کو ٹیلی فون کرکے پوچھا کہ کیا سسٹم فیل ہو
چکا ہے کیونکہ یونٹس بند ہونے سے چند سیکنڈ کے لیے اندھیرا ہوا تھا اسکے
بعد2ڈیزل جنریٹر خود بخود چل پڑے تھے اس حوالہ سے بھی بتاتا چلوں کہ پاور
ہاؤس میں 2.5میگا واٹ کے 2 ڈیزل جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو سسٹم فیل ہونے کی
صورت میں خود بخود آن ہو جاتے ہیں جس پر اسفند یار نے تسلیم کیا تھا کہ
غلطی سے تینوں یونٹس بند ہو گئے ہیں آپ جلدی سے یونٹ نمبر2 کو Still Stand
کردیں جو رات 11بجکر 12منٹ پر NCCکے کہنے پر بند کیا گیا تھا تاکہ اسے
اسٹار دیں سکیں عام طور پر یہ یونٹس 20سے 25منٹ میں آٹو پر Still Standہوتے
ہیں آپریٹر نے انکے کہنے پر عمل کیا اور یونٹ کو Still Stand کر دیا جسکے
بعد اسفند یار نے مین کنٹرول روم سے یونٹ کو چلا دیا آپریٹر نے اسفند یار
کو ٹیلی فون پر بتایاکہ سسٹم میں وولٹیج اور فریکوئنسی نہیں آرہی تو آپ
یونٹ کو سسٹم سے کس طرح Synchronize کریں گے تو وہ خاموش ہو گیا اور یونٹ
کافی دیر تک S.N.L پرچلتارہا اور پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا ماسوائے
تربیلا کی 3یا4مشینوں کے علاوہ ساراسسٹم فیل ہوگیا ۔سٹیم پاور اسٹیشن کو
چلانے کے لیے 24سے 48گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے اور ہر سٹیم پاور اسٹیشن
کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت آتی ہے اور اس وقت تو سارے ہی سٹیم
پاور اسٹیشن بشمول ہائیڈل اور گیس ٹربائن پاور سٹیشن ٹرپ ہوچکے تھے تو اس
طرح واپڈا کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں
میں 7دن تک بجلی بند رہی جسکے نقصان کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا جونیئر
انجینئر امیر محمدکی اس معمولی سی غلطی کی بدولت حکومت کو اربوں روپے کا
نقصان اٹھانا پڑا اسکے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسکی غلطی تھی انہیں
سزا دی جاتی مگر یہاں پر ہر اعلی واپڈا افسران نے اس غلطی کو چھپانے کے لیے
حکومت کو بیوقوف بنا کر غلط رپورٹ بھیج دی اس وقت غازی بروتھا میں انکوائری
کے نام پر شروع ہونے والے ڈرامہ کی تفصیل بھی واضح کرتا چلوں کی اس بریک
ڈاؤن کے بعد سب سے پہلے تو غازی بروتھا کے چیف انجینئر فیروز دین نے
الیکٹریکل، P&I ,C&I کے ریذیڈنٹ انجینئر مظفر خان کو لوکل انکوائری کا حکم
دیا جس پر REنے ٹربائین آپریٹر ،سپروائزری ،اور 3جونیئر انجینئرز سے 3دن کے
اندر اندر رپورٹ طلب کرلی جبکہ آخری دن تمام افسران کو جنرل مینجر نے
انکوائری کے سلسلہ میں اسلام آباد بلایا ہوا تھا اور وہاں پر ان افسران نے
وہی رٹا رٹایا سبق دھرادیا کہ پانی کا لیول کم ہوگیا تھا جسکی وجہ یونٹس سے
آوازیں آنا شروع ہوگئی تھی اور ہم نے NCCسے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی
مگر انکا نمبر مصروف جارہا تھا اور پھر ہم نے اپنا سسٹم بچانے کے لیے یونٹس
بند کردیے اور GMسے شاباش لیکر واپس آگئے یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ
چیئرمین واپڈا ،ممبر پاور اور جنرل مینجر چند دنوں کے مہمان تھے اور
ریٹائرمنٹ کے قریب تھے حتی کہ حکومت بھی جانے والی تھی اس لیے اتنے بڑے
سکینڈل پر مٹی پاؤ والا فارمولا فٹ کرتے ہوئے اس معاملہ کو نمٹا دیا گیا
اور کوئی ٹیم بھی انکوائری کے لیے غازی بروتھا پاور ہاؤس نہیں گئی اور اس
طرح قوم کے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی
نہ ہوسکی الٹا انہیں شاباش دیکر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ آئندہ مزید اچھے
طریقے سے واپڈا کی تباہی کرسکیں جبکہ یہاں پر مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھوٹ
کو چھپانے کیلیئے چیف انجینئر نے ان 4یونٹس کی باری باری20,20 دن کی اوور
ہالنگ NCCسے منظور کروائی اور عملے نے دن رات خوب گپیں اور قوم کو بیوقوف
بنا کر اوور ٹائم بنایاچونکہ عملے کو علم تھا کہ آوازیں وغیرہ تو آئی نہیں
اس لیے انہوں نے فالتو میں یونٹس کوباری باری کھول دیاجسکے نتیجہ میں
10اگست 2013ء کو 107.5MVAکے 4نمبر یونٹ کا ٹرانسفارمر (Blue Phase) تیل میں
پانی کی موجودگی کی وجہ سے Brustہوگیاجس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔
24فروری کو جس وقت پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا تو اس وقت مین
کنٹرول روم میں ڈیوٹی پر اسفند یار سپروائزری۔ امیر محمد ،عبدالروف اور
لیاقت علی جونیئر انجینئر ز تھے۔ULCPپرٹربائن آپریٹر محمد رفیق، سب انجینئر
ز انور علی ،شوکت جلال ،شہزادہ تیمور ،ریاض علی ،حافط فاروق اورASAs فلک
شیر،اشفاق علی۔ سوئچ یارڈ میں خادم حسین ،اعجازحیدر ۔ٹیل ریگولیٹر پر مقصود
اعوان سب انجینئر ،ASAغلام مجتبی اور ان ٹیک پر سب انجینئر اشفاق احمد تھے
۔جن میں سے اب کچھ ریٹائر ہوچکے ہیں اور باقی کے ترقیاں لیکر موج مستی میں
مصروف ہیں اسی سبق کو اب کراچی میں کے الیکٹرک کے اوپر بھی آزمایا جائیگا
کیونکہ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں -
|