معیشت کا چکر

یک قصبے کے ہوٹل میں ایک سیاح داخل ہوا اور مالک سے اسکے ہوٹل کا بہترین کمرہ دکھانے کو کہا ، مالک نے اسے بہترین کمرے کی چابی دی اور کمرہ دیکھنے کی اجازت دے دی ۔ سیاح نے کاونٹر پر ایک سو ڈالر کا نوٹ بطور ایڈونس رکھا اور کمرہ دیکھنے چلا گیا ۔ اس وقت قصبے کا قصاب ہوٹل کے مالک سے گوشت کی رقم لینے آگیا،ہوٹل مالک نے وہی سو ڈالر اٹھا کر قصاب کو دے دیئے کیونکہ اسے امید تھی کہ سیاح کو کمرہ ضرور پسند آجائیگا۔ قصائی نے سو ڈالر لیکر فوراََ اپنے جانور سپلائی کرنے والے کو دے دئیے ، جانور سپلائی والا ایک داکٹر کا مقروض تھا جس سے وہ علاج کروا رہا تھا تو اس نے وہ سو ڈالر ڈاکٹر کو دے دیئے ، وہ داکٹر کافی دنوں سے اسی ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھا اس لئے اس نے یہی نوٹ ہوٹل کے مالک کو ادا کردیا ۔ وہ سو ڈالر کا نوٹ کاونٹر پر ہی پڑا تھا کہ کمرہ پسند کرنے کیلئے سیڑھیاں چڑھ کر گیا ہوا متوقع گاہگ واپس آگیا اور ہوٹل کے مالک کو بتاتا ہے کہ مجھے کمرہ پسند نہیں آیا ، یہ کہہ کر اس نے اپنا سو دالر کا نوٹ اٹھایا اور چلا گیا !! ۔ معاشیات کی اس کہانی میں نہ کسی سے کچھ کمایا اور نہ کسی نے کچھ خرچ کیا لیکن جس قصبے میں سیاح یہ نوٹ لیکر آیا تھا ، اس قصبے کے کتنے ہی لوگ قرضے سے فارغ ہوگئے ۔ معاشیات کی اس کہانی کا حاصل مطالعہ یہ رہا کہ پیسے کو گھماؤ ، نہ کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھ جاؤ کہ اسی میں عوام الناس کی فلاح ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشیات کے مسئلے نے اس قدر اہمیت اختیار کر رکھی ہے کہ آنے والا مورخ جب اس پر نگاہ ڈالے گا تو اسے عصر معاشیات Age of economics کے سوا کسی اور کے نام سے نہیں پکار سکے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی تہذیب ، تمدن ، معاشرت ، سیاست ، قومی مسائل اور بین الاقوامی معاملات سب کی باگ دوڑ معاشیات کے ہاتھ میں ہے ۔ اس وقت دنیا عملاََ جن دو بلاکس Blocksمیں بٹی ہوئی ہے ان میں ، کہنے کو تو خط امتیاز ، نظام حکومت ہے ، یعنی آمریت اور جمہوریت۔ لیکن در حقیقت ان میں بنیادی اختلاف نظامِ معیشت economic orders ہی کا ہے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ افراد ہوں یا اقوام ، روٹی کے مسئلہ نے دونوں کی ناک میں نکیل ڈالی ہوئی ہے اور وہ انہیں جدھر جی چاہے کشاں کشاں لئے پھیر رہاہے۔

پنجابی میں ایک مثل ہے "جس دی کوٹھی وچ دانے اُس دے کملے وی سیانے "جس کے گھر کھانے کو ہو ، اس کے پاگل بھی عقل مند سمجھے جاتے ہیں۔سرمایہ داری کے اس نظام کو سمجھنے کے لئے ہمیں دعوت حضرت نوح علیہ السلام سے شروع کرنا ہوگا کہ دعوت نوح علیہ السلام سے لیکر حضرت محمد ﷺ تک جس قوم میں بھی اﷲ تعالی نے اپنے انبیا اور رسول بھیجے ان کی سب سے پہلے اور بڑی مخالفت سرمایہ داروں کی جانب سے کی گئی کیونکہ اسلام ایک مساوی ، متوازن اور حق کے اس پیغام کے ساتھ اُن پیشواؤں اور سرمایہ داروں کے نظام کو رد کرتا تھا جس میں کسی بھی غریب کو غریب سے غریب بنانے اور امیر کو امیر سے امیر تر بنانے کے خود ساختہ قوانین بنائے جاتے تھے اور سرمایہ کو ایک جگہ رکھ کر اسے عوام الناس کی فلاح کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا تھا ۔ اسلام نے اس روش کا خاتمہ کیا اور صدقات ، خیرات ،زکوۃ کے سنہری ہدایات و قوانین کے ذریعے دولت کو ایک جگہ رکھنے و جمع کرنے بجائے ایسے مستحقین کی جانب سبیل رواں رکھنے کا نسخہ کیمیا دیا۔ رمضان المبارک میں صدقات ، خیرات ، اور زکوۃ کی مد میں کئی مصارف مسلمانوں کیلئے مختص کئے ، گو کہ خیرات و صدقات کسی مخصوص دن یا مہنے کیلئے مختص نہیں ہیں ، لیکن رمضان کے مہینے میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی جو حالت زار ہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، مسلمانوں کی اس عمومی تباہی کا الزام امریکا ،بھارت اور اسرائیل جیسے اسلام دشمن ممالک پر عائد کرکے مطمئن ہوکر بیٹھنے سے سود کی بنیادوں پر قائم ریاستوں سے فلاح انسانی کی امیدیں کم ہی رکھی جاسکتی ہیں۔ ستاون مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے ایک بھی ایسا مربوط منصوبہ سامنے نہیں آسکا جو معاشرے کے اس بگاڑ کے حل کیلئے سنجیدہ کوشش کر سکیں۔حج و عمرے کے موقع پر لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع اور مسلم ممالک کی کانفرنس ہر سال ہوتی ہے لیکن وہاں بھی بد قسمتی سے مسلمانوں یا فلاح انسانی کے اجتماعی مفاد کی کسی کوشش یا عملی جد وجہد کے آثار نہیں ملتے۔

معروف مفسر امام محمد المالکی القرطبی ، تفسیر قرطبی کی جلد ۵ میں فرماتے ہیں کہ"مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں کو رہا کراوئیں ، خواہ وہ قتال کے ذریعے ہو یا مال و دولت خرچ کرنے کے ذریعے ، پھر اس کیلئے مال خرچ کرنا زیادہ واجب ہے کیونکہ اموال ، جانوں سے کمتر نہیں۔"دوسری جگہ تحریر میں فرماتے ہیں ْہمارے علماء کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو رہا کروانا واجب ہے اگرچہ ایک درہم بھی باقی نہ بچے، علامہ ان خویز مند ادر فرماتے ہیں کہ قیدیوں کو چھڑانا واجب ہے۔ اس سلسلے میں کئی آثار منقول ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خود قیدی چھڑائے اور مسلمانوں کو قیدی چھڑوانے کا حکم دیا۔ مسلمان ہمیشہ اسی پر عمل کرتے رہے ہیں اور اس پر سب کا اجماع ہے ۔ بیت المال سے قیدیوں کا فدیہ دیکر ان کو رہا کروانا واجب ہے ۔ اگر بیت المال نہ ہو تو یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ البتہ کچھ لوگ اس فرض کو پورا کرلیں گے تو باقی لوگ گناہ سے بچ جائیں گے۔(تفسیر قرطبی، جلد دوئم)صحیح بخاری شریف میں حدیث نمبر ۴۳۷۳ میں ہے کہ "حضرت ابو موسی اشعری رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور مریض کی عیادت کرو اور قیدی کو رہا کراؤ۔"

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ"قیدیوں کو چھڑانا بڑے واجبات میں سے ہے اور اس سلسلے میں وقف شدہ اور دیگر مال کو خرچ کرنا بہترین نیکیوں میں سے ہے۔(فتاوی ابن تیمیہ ۲۸./۶۳۵)

جیلوں میں ایسے بے شمار قیدی ہیں جو کسی نہ کسی جرم کی پاداش میں سزا پوری کرچکے ہیں یا پوری کرنیکے بعد انھیں بند سلاخوں سے آزادی کے بعد با عزت روزگار کیلئے مسائل کا سامنا درپیش ہوگا۔یہی وہ بھوک و افلاس یا جلد دولت مند کی روش ہے جس نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہوا ہے۔سرمایہ داری کی اس نظام میں ایسے تنگ دستوں سے فائدہ اٹھانا ہی کسی سرمایہ دار کا اصل فائدہ بن جاتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ جیلوں میں رہنے والے اور اس کے بعد رہائی پا جانے والوں کو کن مصائب اور مشکلات کا سامنا ہوگا۔ کتنے ہزاروں قیدی معمولی معمولی جرمانوں کی وجہ سے جیلوں میں پڑے ہونگے ۔ جیلوں میں ان قیدیوں کے خاندانوں کا کیا حال ہوگا۔قیدیوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ بھیڑ بکری کے ریوڑ کی طرح انھیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ کبھی یہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ بکتر بند کے بجائے قیدیوں کے لئے جیل سے کورٹ لانے والی گاڑیوں کو ترجیح دی گئی ہو۔قیدیوں کی اصلاح کیلئے کسی سماجی تنظیم نے حقیقی معنوں میں ان کی تربیت کیلئے جیلوں میں مناسب انتظام کئے ہوں ۔ عدالتوں میں ان کے مقدمات ختم کرانے کیلئے وکیلوں کی خدمات غریبوں کیلئے مختص کیں ہوں ۔ غریب ملزم کے لئے عدالتیں بھی وکیلوں کی مفت خدمات دیتی ہیں لیکن ان کے مقدمات کا جو حشر ہوتا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ان کی خوراک سے بہتر خواراک جانور کو دی جانے والی غذا ہے کیونکہ بھینس دودھ دیتی ہے اور غریب ملزم رشوت نہیں دے سکتا ۔ جرمانے کی سزا کے طور پر ہرجانہ نہیں بھر سکتا ۔ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار اورکیسوں کو کسی نہ کسی وجوہ کی بنا پر التوا میں رکھا جاتا ہے جسکا کوئی نہ فریق ذمے دار ہوتا ہے۔

پاکستان میں ہی ہم سرمایہ داری نظام کے مضمرات کا جائزہ لیں تو ہمیں با آسانی سمجھ میں آجائے گا کہ ہم پر قہر خداوندی کیوں ہے ، ہم پر بھوک و افلاس کا عذاب کیوں مسلط کیا جاچکا ہے۔ہم اگر اپنے سرمائیے کو اُس سیاح کے سوڈالر کے طرح گھمانا شروع کردیں تو معاشرے میں دولت جمع کرنے کی ہوس جہاں کم ہوگی وہاں معاشرتی بگاڑ بھی کم ہوگا جرائم کی شرح میں کمی آئے گی اور معاشرے میں با مقصد فرد کا اضافہ ہوگا جو معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ اپنے جیسے کئی بے سہاروں کا سہارا بن سکے گا ۔ جرائم کی جانب رغبیت کے بجائے ایسے نوجوانوں کی اصلاح کیلئے بھی مثبت کردار ادا کرنے قابل ہوسکے گا جو بھوک و افلاس کی اس جنگ میں اپنے ضمیر کو سودا کرکے رزق کے بہتے سرچشموں پر سرمایہ داروں کے غلام بننے کے بجائے ایک اہم مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بن سکے گا ۔ کوئی شخص ماں کے پیٹ سے مجرم بن کر پیدا نہیں ہوتا ایسے حالات اور ماحول ایسا بنا دیتے ہیں ۔رمضان المبارک اور جشن نزول قرآن کے طور عید الفطر میں ایسے بے گناہ ، بے کس و مجبور قیدیوں اور ان کے خاندانوں کی امداد کیجئے جو مستحق اور ان کی امداد آپ پر فرض ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.