بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امیت
شاہ صاحب لائق صد مبارکباد ہیں کہ انہوں نے سیاستداں ہونے کے باوجود ایک
حقیقت پسندانہ اعتراف کرلیا۔ امیت شاہ کا یہ کہنا کہ ’’اچھے دن ۵ سال میں
نہیں بلکہ۲۵ سال بعد آئیں گے‘‘ کمال فصاحت و بلاغت کا حامل ہے۔ اس پر جس
زاویے سے نگاہ ڈالو ایک نیا معنیٰ و مفہوم نکل آتا ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال
کہ آخر امیت شاہ کو یہ جملہ بولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ چونکہ امیت شاہ
پارٹی کے صدر نشین اور وزیرا عظم کے دستِ راست ہیں اس لئے جماعت اور حکومت
کے مسائل سے پوری طرح واقف ہیں۔ فی الحال اس حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اس
سے وابستہ عوام کی بیجا توقعات ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ توقعات خود بی جے
پی کی ایک کامیاب انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اگر اس طرح کے بلند بانگ
دعوے نہ کئے جاتے اور ملک کے بھولے بھالے رائے دہندگان اس کے جھانسے میں نہ
آتے تو بی جے پی کیلئے واضح اکثریت تو درکنار سب سے بڑی پارٹی بھی بن کر
ابھرنا مشکل ہوجاتا۔ خیر جس طرح شادی سے قبل ہر جائی عاشق آسمان سے تارے
توڑ کر لانے کے اور تاج محل بنوانے کے وعدے کرتا ہے یہی کچھ بی جے پی نے
کیا لیکن پھر شادی کے بعد میاں بیوی دونوں کو دال آٹے کا بھاو معلوم
ہوجاتا ہے۔ اب وہی سب عوام اور بی جے پی کے ساتھ ہورہا ہے۔ سارے سہانے سپنے
ایک ایک کرکے بکھرنے لگے ہیں ۔
امیت شاہ کو اندازہ ہے توقعات کے اس غبارے میں مزید ہوا بھرنے کی گنجائش
نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی ہوا کو بتدریج نکال کر اس کا
دباو کم کیا جائے ورنہ انتظار کے بوجھ سے یہ ازخودپھٹ جائیگا۔ ان کا حالیہ
بیان اس غبارے کوایک بڑے دھماکے کے ساتھ اچانک پھٹ پڑنے سے بچانے کی حکمت
عملی کا حصہ ہو سکتا ہے۔ ایسی کو شش انہوں نے دہلی انتخاب سے قبل بھی کی
تھی اور کالے دھن کو واپس لانے کے بارے میں کھلے عام اعتراف کرلیا تھا کہ
وہ محض ایک سیاسی جملہ(بمعنیٰ ڈھکوسلہ)تھا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا
کہ کالا دھن آسانی سے واپس نہیں آسکتا اور اسے عوام کے کھاتوں میں منتقل
کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ باتیں تو انتخابی مہم کے دوران عوام
کو رجھانے کیلئے کی جاتی ہیں۔ امیت شاہ کی یہ کوشش بار آور ہوئی خوابِ
غفلت میں سوئے ہوئے دہلی کے رائے دہندگان کی نیند ٹوٹی اور انہوں نے عام
آدمی پارٹی کو ایسی غیر معمولی کامیابی سے نوازہ جس کا تصور خود کیجریوال
بھی نہیں کرسکتے تھے ۔ اس میں شک نہیں ہےکہ جس طرح بی جے پی کی حالیہ حکومت
کے قیام میں کانگریسی بدعنوانیوں کا حصہ ہے اسی طرح عآپ کی کامیابی میں
امیت شاہ کے اس بیان نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
دہلی کے بعد بی جے پی کی دوسری اگنی پریکشا بہار میں ہونے والی ہے ۔ اس سے
قبل امیت شاہ نے ایک اور دھماکہ کردیا اور اچھے دنوں کی آمد کو ۲۵ سالوں
کیلئے موقوف فرما دیا ۔اس کا خاطر خواہ فائدہ اگر لالو اور نتیش کمار نے
اٹھا لیا تو یقیناً بہار میں بھی بی جے پی کی وہی حالت ہوسکتی ہے جو دہلی
میں ہوئی ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ امیت شاہ صاحب بہار کیلئے بھی کرن
بیدی کی مانند کسی انوکھے امیدوار میدان میں اتاریں ۔ بہار کے سابق
وزیراعلیٰ جتن مانجھی اب بھی پرامید ہیں کہ انہیں بی جے پی اپنے وزیراعلیٰ
کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرے۔ بصورتِ دیگر وہ پپو یادو کے ساتھ مل کر
لالو اور نتیش کے علاوہ پاسوان اور سشیل کے خلاف کمر بستہ ہونے دھمکی بھی
دے رہے ہیں۔
امیت شاہ صاحب نے حال میں بہار کے اندر پھلنے پھولنے والی ذات برادری کی
سیاست کے پیش نظر ایک اور معرکتہ الآراء بیان دے دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا
کہ بی جے پی نے ملک کو پہلا دیگر پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والا او بی
سی وزیراعظم دیا۔ اس بیان کو پڑھنے کے بعد انتخاب سے قبل والا ایک احمقانہ
بیان یاد آگیا جس میں مودی جی نے بہار کی عوام کو سکندراعظم کو روکنے
کیلئے مبارکباد دی تھی۔ انہیں یقیناً اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ سکندراعظم
مسلمان نہیں تھا اور نہ وہ یہ جانتےہوں گے کہ سکندر اپنی فوج کے ساتھ بہار
تو درکنار پنجاب سے ہی واپس لوٹ گیا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امیت جی کو
پتہ ہی نہ ہو کہ دیوے گوڑا اور چودھری چرن سنگھ بھی وزیراعظم تھے اور ان
برادی کا شمار دیگر پسماندہ ذاتوں میں ہوتا ہے ۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان
کے خیال میں ہندوستان کے پہلے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی ہوں اور دوسرے
نریندر مودی ۔
ویسے مودی جی کو اپنے ساتھ’ سب سے پہلے‘ کا لقب لگانا بہت پسند ہے لیکن پھر
بھی اگر مودی جی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو امیت
شاہ یہ انکشاف فرمادیں کہ ملک کو پہلا بہاری وزیراعظم دینے کا شرف بی جے پی
کو حاصل ہے ۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پروہ اٹل بہاری واجپائی کو پیش
کرسکتے ہیں اور اعلان کرسکتے ہیں کہ اٹل جی کو اپنے بہاری ہونے پر بڑا ناز
تھا ۔ ویسے یہ ایک تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے اٹل بہاری واجپائی کا بہار سے
کیا تعلق تھا ؟ وہ نہ بہار میں پیدا ہوئے اور نہ وہاں شادی کی بلکہ ساری
عمر کنوارے رہےاور ان کی سیاست بھی مدھیہ پردیش و اترپردیش کے درمیان گردش
کرتی رہی۔ لیکن اگر مودی خاندان کے جیالے بیک وقت اتر پردیش (گوجرمل مودی)،
راجستھان (للت مودی) ، گجرات (نریندر مودی) اور بہار(سشیل مودی) کر رہنے
والے ہوسکتے ہیں تو اٹل جی کے شجرے میں بھی بہار کا نکل آنا بعید از قیاس
نہیں ہے۔
امیت شاہ کے اس بیان پر ذرائع ابلاغ میں بڑی لے دے ہوئی لوگوں نے سوال
اٹھائے کہ یہ کیسے اچھے دن ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران کئی بار اور ۱۶ مئی
۲۰۱۴ کو کامیابی کے بعد حتمی طور پر وزیراعظم اعلان فرماتے ہیں کہ ’’اچھے
دن آنے ہی والے ہیں‘‘ اس کے ایک سال بعد یکم جون ۲۰۱۵ کو انکشاف کرتے ہیں
کہ اچھے دن آچکے ہیں حالانکہ اچھے دن اعلان کے محتاج نہیں ہوتے ۔ اس کی
گواہی تو عوام کو خود آگے بڑھ کر دینی چاہئے بشرطیکہ وہ حقیقت میں آچکے
ہوں۔اس لئے کہ خوشحالی دراصل بتانے سمجھانے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز
ہوتی ہے۔ اور اب ۱۴ جولائی کو امیت شاہ فرماتے ہیں کہ اچھے دنوں کےآنے میں
۲۵ سال لگیں گے تو آخر اس تضاد بیانی کی وجہ کیا ہے ؟ جو چیز ڈیڑھ ماہ قبل
آچکی تھی آخر وہ ان ۴۵ دنوں میں ۲۵ سال دور کیونکر چلی گئی اور اگر فاصلہ
اسی طرح بڑھتا رہا تو آئندہ ۴ سالوں میں یہ کھائی کس قدر وسیع ہوجائیگی؟
بی جے پی والے فی الحال اس بات کی تردید میں لگے ہوئے ہیں کہ امیت شاہ نے
سرے اچھے دنوں کا ذکر ہی نہیں کیا۔ وہ امیت شاہ کی تقریر سنا کر سوال کرتے
ہیں کہ اس میں اچھے دنوں کا ذکر کہاں ہے؟ دراصل ہوا یہ کہ امیت شاہ نے شروع
ہی میں اچھے دنوں کی بات کہہ دی اب اگر آپ تقریر کا ابتدائی حصہ ہذف کردیں
تو تقریر سے بھی اچھے دن اسی طرح غائب ہو جاتے ہیں جیسے کہ ملک سے عنقاء
ہیں ۔ ویسے بی جے پی کا کیا کل کو اگر وہ دعویٰ کردے کہ وزیراعظم نے بھی
اچھے دنوں کا ذکر سرے سے کیا ہی نہیں تھا یا اگر کیا بھی تھا تو اس کا مطلب
لوگ سمجھ نہیں پائے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ تو اسے کو ن روک سکتا ہے۔ مودی
جی کےاس ٹویٹر کو لاکھوں بی جے پی والوں نے طغرے بنا کر اپنے گھروں اور
دفاتر میں سجایا ہوا ہے اور مخالفین نے بھی محفوظ کررکھا ہے کہ وقت ضرورت
کام آئے اس لئے صاف انکار مشکل ہے مگر غلط فہمی والا متبادل قرین قیاس ہے۔
عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی شاطر رہنما اپنی ذات سے متعلق کچھ کہتا ہے
بے وقوف لوگ اس کا انطباق اپنے اوپر کرلیتے ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران جب
مودی جی یہ اعلان کرتے تھے کہ اچھے دن آنے والے ہیں تو اس میں انہوں نے یہ
کب کہا تھا کہ اس سے مراد ملک کی عوام کے اچھے دن آنے والے ہیں؟ وہ تو
بیچارے یہ کہنا چاہتےتھے کہ میری پارٹی نے مجھے امیدوار بنا دیا ہےاب اگر
آپ لوگوں نے ہماری پارٹی کو کامیاب کردیا تو میرے اچھے دن آجائیں گے۔
انتخاب میں کامیابی کے بعد بھی انہوں نے یہی کہا کہ نتائج ہمارے حق میں
آچکے ہیں جلد ہی میری حلف برداری ہوجائیگی اور میرے اچھے دن آجائیں گے۔
ایک سال بعد انہوں نے یہی بات کہی کون کہتا ہے اچھے دن نہیں آئے (میرے)
اچھے دن تو کب کے آچکے ہیں۔ان سارے بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے عوام کو
چاہئے کہ وہ رہنماوں پر بگڑنے کے بجائے اپنی سوچ اور فکر کو درست کرے۔
امیت شاہ نے جو کچھ کہا وہ بھی درست ہے۔ مودی جی ۶۵ سال کے ہونے والے ہیں
۲۵ سال بعد اگر حیات نےساتھ دیا تو ان کی عمر ۹۰ سال کی ہوجائیگی اب اس عمر
میں تو وہ وزیراعظم بننے سے رہے اس لئے کون بنے گا؟ اس سوال کے بے شمار
جوابات ہو سکتے ہیں لیکن اگر کوئی شاہ صاحب کے دل سے پوچھے تو ’’میں اور
صرف میں‘‘ کے علاوہ کوئی اور دھڑکن سنائی نہیں دے گی ۔ اس لئے امیت جی نے
بھی اپنے متعلق کہہ دیا کہ (میرے) اچھے دن اس ۵ سال کی مختصر مدت میں تو
نہیں آسکتے اس کیلئے (مجھے) کم ازکم ۲۵ سال انتظار کرنا پڑے گا اس وقت
مودی جی ، راجناتھ جی، جیٹلی جی وغیرہ وغیرہ اڈوانی جی، جوشی جی اور سنہا
جی کی صف میں ہوں گے اور میرے اچھے دن آجائیں گے۔ دراصل ہمارے سیاسی رہنما
اس قدر منکسرالمزاج ہیں کہ وہ اپنی ذات کا ذکر کرنے سے کتراتے ہیں اور
سیدھے سادے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔
شاہ جی نے ہندوستان کے دنیا بھرمیں پہلے مقام پر آنے کو۲۵ سالوں تک بی جے
پی کے پنچایت سے لے کر لوک سبھا تک سارے انتخابات میں کامیابی سے مشروط
کردیا ہے۔ اس کڑی شرط کو دیکھ کر تو یہی کہنا پڑے گا کہ نہ نو من تیل ہوگا
اور نہ رادھا ناچے گی۔ اگر ۲۵ سال کے بعد کوئی امیت شاہ صاحب سے پوچھے گا
کہ ۲۵ سال گزر گئے ہندوستان پہلے مقام پر کیوں نہیں پہنچا تو وہ مسکرا
کرجواب دیں گے اس دورا ن پنچایت سے لے کر لوک سبھا تک ہر انتخاب میں عوام
نے بی جے پی کو کامیاب نہیں کیا ۔ اس لئے اس ناکامی کی ذمہ داری رائے
دہندگان پر ہے۔شاہ جی کے مذکورہ بیان کو ایک اور زاویہ سے بھی دیکھا جاسکتا
ہے ۔ آپ نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’ اگردیش کو دنیا کے
سرووچ استھان (بلندترین) مقام پر بٹھانا(فائز کرنا) ہے جو برطانوی راج سے
قبل عالمی سطح پر ہندوستان کی حیثیت تھی تو پانچ سال کی سرکار کچھ نہیں
کرسکتی۔‘‘
شاہ جی کےاس بیان میں یہ اعتراف پوشیدہ ہے برطانوی استعمار سے قبل ہندوستان
دنیا بھر میں سونے کی چڑیا تھا لیکن شاید امیت جی کو نہیں معلوم کہ اس وقت
ملک پر نہ تو سمراٹ اشوک کی حکومت تھی اور نہ رانا پرتاپ کا اقتدار تھا ۔
انگریزوں سے قبل اس ملک پر مغلیہ سلطنت تھی۔ اسی نے ملک کے طول وعرض کو جوڑ
کر ایک عظیم ہندوستان بنایا تھا جو سونے کی چڑیا کہلاتا تھا ۔ دراصل
ہندوستان کے زوال کیلئے جہاں مغلیہ سلطنت کی کمزوری کا عمل دخل ہے وہیں اس
کے خلاف ہونے والی بغاوتوں اور ریشہ دوانیوں کا بھی حصہ ہے ۔ آج کے دیش
بھکت جنہیں اپنا ہیرو سمجھتے ہیں ان میں سے اکثر نے اس دورِ پرفتن میں
انگریزوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرلی تھی ( اور اب بھی کررہے ہیں) لیکن ووٹ
اور نوٹ کا بہی کھاتہ سنبھالنے والےشاہ جی کو تاریخ کا مطالعہ کرنے کی اور
اس سے عبرت پکڑنے کی فرصت کہاں؟
کانگریس کو بی جے پی سے ایک شکایت یہ بھی ہے کہ وہ ان حکومت کی جاری کردہ
سرکاری اسکیموں کو نیا جامہ پہنا کر ہتھیا لیتی ہے۔ حالانکہ یہ شکایت کی
نہیں خوشی کی بات ہے کہ عوامی فلاح وبہبود کے جو کام کانگریس سرکار کررہی
تھی انہیں کسی اور نام سے سہی نئی سرکار کرتو رہی ہے۔لیکن سیاست میں اگر
مسابقت کے بجائے رقابت کا عنصر شامل ہوجائے تو یہی ہوتا ہے خیر۔ بی جے پی
کا رویہ نیا نہیں ہے وہ تو اس کی ابتداء انتخاب سے پہلے ہی کرچکی ہے۔ اس نے
بھی اپنی جماعت کو نظریہ اور تنظیم کے بجائے کانگریس کی مانند ایک فرد تک
محدود کردیا اور ایک سپر ہائی کمانڈ تشکیل دے دیا جس میں صرف اور صرف ایک
فرد کا طوطی بولتا ہے۔ ’’اچھے دن‘‘ والے نعرے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
لوک سبھاانتخاب سے قبل ۸ جنوری ۲۰۱۴ کو پرواسی بھارتیہ دیوس کے موقع
پردیسی ہندستانیوں سے مخاطب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے انگریزی میں کہا
تھا ’’ جی ہاں فی الحال ہم برے دور سے گزر رہے ہیں لیکن جلد ہی اچھے دن
آنے والے ہیں‘‘۔ دوسرے انہیں لوگوں کے سامنے سابق وزیراعلیٰ گجرات نریندر
مودی نے منموہن سنگھ کے بیان کو ہندی میں دوہرا دیا ’’اچھے دن آنے والے
ہیں‘‘ جو آگے چل کر بی جے پی کی تشہیری مہم کا اہم نعرہ بن گیا۔حکومت سازی
کے بعد بی جے پی نے اس نعرے پر منحصر جشن فتح کا ترانہ بھی بنوایا اس طرح
یہ الفاظ ضرب المثل بن گئے اور اس قدر مقبول ہوئے کہ برطانوی سیاستداں جارج
اسبورن جب ایک تجارتی وفد کے ساتھ ہندوستان آئے تو انہوں نے بھی اسے
استعمال کیا۔ اس مسروقہ نعرے نے جہاں بی جے پی کو اقتدار میں لانے کیلئے
اہم کردار اداکیا وہیں اس کے تعلق سے توقعات میں بھی بے شمار اضافہ کردیا
جن پر اب مایوسی کی اوس پڑ رہی ہے۔ اس نعرے کو لے بی جے پی کی حالت ’’پکڑو
تو کاٹتا ہے اور چھوڑو تو بھاگتا ہے ‘‘کی سی ہو گئی ہے۔ یہ کاٹنے اور
بھاگنے والی مخلوق دراصل وہ رائے دہندگان ہیں جن لوگوں نے اچھے دنوں کی
امید میں کمل کے نشان پر مہر ثبت کردی تھی ۔ |