ہندو پاک تعلقات کا نیا دور یا۰۰۰؟
(Dr M A Rasheed Junaid, India)
ہندو پاک کے درمیان کشیدہ
صورتحال کا اختتام کب ہو گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن اتنا
ضرور ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے بات چیت کے مراحل اس سے قبل بھی ہوتے
رہے ہیں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔آئندہ سال یعنی 2016میں
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی ، اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر اعظم میاں
نواز شریف کی دعوت قبول کرتے ہوئے سارک کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔
دونوں ممالک کے وزارائے اعظم کی ملاقات روس کے شہر اوفا میں منعقد سنگھائی
کوآپریشن آرگنائزیشن کی کانفرنس کے دوران ہوئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے
درمیان بہتر اور خوشگوار تعلقات کیلئے عالمی سطح پر نظریں مرکوز ہوتی ہیں
لیکن میڈیاکبھی نہیں چاہتا کہ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم
ہوں۔
دونوں ممالک کی حکومتوں کو اندرونی حالات سے نمٹنے کے لئے اور عوام کی
تائید و حمایت حاصل کرنے کے لئے ہندو پاک کے تعلقات چاہے وہ خوشگوار موڑ کی
جانب پہل ہو یا کشیدگی کی جانب رواں دواں اہم موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں۔
دونوں ممالک میں جب جب اندرونی حالات خراب ہوتے ہیں سرحد پر حالات بھی
بگڑتے دکھائی دیتے ہیں اور جب سرحد پر حالات خراب ہوتے ہیں تو اندرونی
حالات سنبھل جاتے ہیں ۔ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے بعد سے
دونوں ممالک کے درمیان حالات انتہائی خراب ہوگئے یہاں تک کہ دونوں ممالک کے
درمیان جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ آزادی ہند اور قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے
ہندوستانی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 1953ء میں دونوں ممالک کے درمیان
بہتر تعلقات قائم کرنے کے لئے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس وقت پاکستان میں
محمد علی وزیر اعظم تھے۔ اس کے بعد جواہر لعل نہرو نے 1960ء میں صدر ایوب
علی خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کا دورہ کیا جہاں دونوں ممالک کے درمیان
دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ
ہوا جسے سندھ طاس معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔1971ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان
سے مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کی علحدگی ہوئی اس موقع پر ہندو پاک کے
درمیان جنگ نے دونوں ممالک کے درمیان حالات کشیدہ کردیئے۔ جنگ آزادی بنگلہ
دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کی محرک کشمیر کی تحریک آزادی
رہی ہے ۔ 1971ء کی جنگ کے بعد 1972ء میں ہماچل پردیش کے شہر شملہ میں ہند و
پاک کے درمیان معاہدہ ہوا جسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے اس وقت ہندوستان کی
وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بنگلہ
دیش کی آزدای کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے اور کشمیر
کا مسئلہ زور پکڑتا گیا۔ جواہر لعل نہرو کے بعد انکے پوترے یعنی ہندوستانی
وزیر اعظم راجیو گاندھی نے جنوری 1988میں پاکستان کا دورہ کیا اس وقت
پاکستان کے صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو تھیں۔بے نظیر
بھٹو نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر راجیو گاندھی کا استقبال کیا۔پھر گیارہ سال
بعد یعنی فبروری 1999ء میں ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے
پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ دورہ کافی اہمیت کا حامل تھا ۔ لاہور اعلامیہ ایک
دو طرفہ معاہدہ ہے جو کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 21؍ فبروری 1999ء
کو طئے پایا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف تھے۔ دونوں
وزرائے اعظم نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ لاہور میں تاریخی
مذاکرات کے بعد طے پایا تھا۔ لاہور اعلامیہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے
کیونکہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ جو کہ دونوں
ممالک کے درمیان تعلقات میں بڑی پیشرفت ہوئی کیونکہ اس معاہدے کی اہمیت مئی
1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے تناظر میں نہایت واضح تھی۔ لیکن مئی 1999ء میں
شروع ہونے والے کارگل جنگ نے امن کے اس عمل کو شدید دھچکا پہنچایا اور یہ
لاہور اعلامیہ غیر مؤثر ہوکر رہ گیا۔
ماضی میں اٹل بہاری واجپائی کا دورۂ پاکستان، اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا
کیونکہ 11اور 13؍ مئی 1998ء کو ہندوستان نے ایٹمی تھیاروں کے تجربات کئے
اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا، ہندوستانی حکومت
کی جانب سے ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان نے بھی اسی سال 28؍ مئی کو چھ
ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات چاغی کے مقام پر کئے۔ دونوں ممالک کی جانب سے
ایٹمی تجربات نے خطے کے حالات کوانتہائی کشیدہ کردیا اور یہاں ایٹمی خطرات
کے بادل منڈلانے لگے۔ 23؍ ستمبر1998ء کو دونوں ممالک کی حکومتوں کے مابین
ایک معاہدہ طے پایا جس کی بنیاد پر خطے میں امن و آمان اور سیکوریٹی کے
حالات کو بہتر بنانا اور باہمی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔ یہی معاہدہ
لاہور اعلامیہ کا سبب بنا اور19؍ فبروری 1999ء کو ہندوستانی وزیر اعظم اٹل
بہاری واجپائی نے دہلی سے لاہور کا تاریخی سفر بس سروس کے ذریعہ کرکے لاہور
پہنچے اور یہاں پر قیام کیا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے ساتھ کئی اہم شخصیات
جن میں دیو آنند ، ستیش گجرال، جاوید اختر، کلدیب نیئر، کپل دیو، شتروگن
سنہااور دیگر وغیرہ شامل تھے۔پاکستانی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے
خود واھگہ کی سرحد پر استقبال کیا۔ اس تاریخی دورہ کے موقع پر ایک کانفرنس
کا انعقاد عمل میں آیا جسے بین الاقوامی سطح پر گرمجوشی سے خراج تحسین پیش
کیا گیا۔ اور یہ دورہ ہندو پاک کے باہمی تعلقات میں اہم ترین اور خوشگوار
ترین تصور کیا جارہا تھا۔ ہندو پاک کے عوام اور عالمی سطح پر واجپائی اور
نواز شریف کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر مثبت ردّعمل کا اظہار کیا گیا
لیکن بعض سیاسی قائدین و جماعتوں اور میڈیا نے دونوں ممالک کے درمیان بہتر
اور خوشگوار تعلقات کو پسند نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ ہند وپاک کے درمیان
کئی سطح پر بات چیت کی پہل ہوتی رہی لیکن ہمیشہ الکٹرانک میڈیا کے بعض
چینلس اور نمائندے مزید اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اب جبکہ
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی
ملاقات روس کے شہر اوفا میں ہوئی اور ہندوستانی وزیر اعظم نے پاکستان کے
دورہ کی دعوت قبول کی ۔ اس کے بعد ہندو پاک کے بعض سیاسی قائدین اور میڈیا
کی جانب سے غیر ضروری بیانات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ اگر 2016میں سارک
کانفرنس کے موقع پر ہندوستانی وزیر اعظم اور پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان
مثبت نتائج پر بات چیت کا عمل ہوتا ہے تو اس کے خلاف بھی کئی گوشوں سے
مخالفت ہوگی۔ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں نواز شریف کی شرکت اور
پھر دونوں کی جانب سے ماؤں کے لئے تحفے بھجوائے جانے کو خوش آئند اقدام
تصور کیا جارہا تھا۔ لیکن پاکستانی ہائی کمشنر متعینہ نئی دہلی کی کشمیری
قائدین سے ملاقات کو ہند وپاک کے درمیان مذاکرات کے عمل کو روک دیا۔
ہندوستانی حکومت نے اس مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے شدید ناراضگی کا اظہار کیااور
خارجہ سکریٹریز کے درمیان ہونے والی بات چیت کو ضرب پہنچائی۔اب اگر وزیر
اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم محمد نواز شریف اگر دونوں ممالک
کے درمیان خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں اور مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں تومثبت
معاہدات کے ذریعہ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ ہو کہ دہشت گردی کا مسئلہ ہر دو پر قابو پانے کے لئے مصلحت
سے کام لینا اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔ جس طرح
سرحدپر اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ کا تبادلہ عمل میں آتا رہا ہے اور
دونوں ممالک کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد ایک دوسرے پر الزامات
عائد کئے جاتے رہے ہیں اس سے بھی عوام پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ہندوستانی عوام پاکستانی عوام کے خلاف سوچتے ہیں تو پاکستانی عوام بھی
ہندوستانی عوام کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ جب عوام کے ذہنوں میں پڑوسی
ملک کے خلاف زہر بھر دیاجائے تو اس سے منفی اثرات مرتب ہونا لازمی بات ہے۔
اگر دونوں ممالک خوشگوار تعلقات کی بحالی پر ایقان رکھتے ہوئے بات چیت کا
عمل جاری رکھتے ہیں تو اس سے کروڑوں روپیے کا دفاعی بجٹ بچ سکتا ہے۔ نریندر
مودی چوتھے وزیر اعظم ہونگے جو پڑوسی ملک پاکستان کا دورہ کریں گے اور اگر
ان دونوں ممالک کے قائدین کے درمیان بات چیت مثبت نتائج پر پہنچ پاتی ہے تو
یہ تاریخی حیثیت کی حامل ہوگی کیونکہ اٹل بہاری واجپائی کے دورہ کوعالمی
سطح پر سراہا گیا تھا لیکن ہندو پاک بعض عناصر کی وجہ سے دونوں ممالک کے
درمیان تعلقات پھر کشیدہ ہوگئے۔ 1999ء میں کارگل جنگ، 2001ء میں ہندوستانی
پارلیمنٹ پر حملہ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملہ ، 26؍
نومبر2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کی کارروائیوں نے ہندوستانی حکومت اور
عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہندو پاک کے درمیان خوشگوار تعلقات کو
دہشت گرد پسند نہیں کرتے۔ اب دیکھنا ہے کہ ماضی کی تلخیوں اور دہشت گردانہ
کارروائیوں کو فراموش کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خوشگوار موڑ
اختیار کرتے ہیں یا نہیں۔ ہندوستانی حکومت کو مطلوب پاکستانی ملزمین اور
علحدہ کشمیر کے سلسلہ میں پاکستانی حکومت کا موقف بات چیت کا اہم موضوع رہے
گا ۔ دیکھنا ہے کہ اس سلسلہ میں دونوں ممالک کی حکومتیں کیا نظریہ پیش کرتے
ہیں۰۰۰ |
|