وزرائے اعظم کی ملاقات اور سفارتی پیش رفت!!!

کفر ٹوٹا آخر کار خدا خدا کر کے اور نریندر مودی نے میاں نواز شریف سے ملاقات کی درخواست کی جسے طولاً کراہاً میاں صاحب نے فراخدلی کے ساتھ قبول کیا اور پاک بھارت وزرائے اعظم نے روس کے شہر اوفا میں ملاقات کی ۔کہنے کو تو یہ ملاقات پاکستان اور بھارت کے مابین ممکنہ بڑھتی ہوئی سرد مہری اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تھی مگردرحقیقت یہ اس تناظر میں اہم تھی کہ مودی سرکار اپنے گذشتہ اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کے دباؤ میں تھی جو کہ بھارت سرکار کی رواداری اور ہمسائیگی کے رویہ پر ایک سوالیہ نشان تھا ، اس ملاقات کا لب لباب یہی ہے کہ مودی سرکار نے اپنی پرانی رنگ بازی کا انداز نہیں بدلا جو کہ گذشتہ کئی سالوں سے بھارت کی روایت چلی آرہی ہے ۔ملاقات کے دوران بھارتی وز یراعظم نے انتہائی کم ظرفی اور بے دلی کے ساتھ پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملایااور ایک نادان شخص کی طرح اپنے قدموں پہ جمے رہے جبکہ دو قدم بھی آگے بڑھ کر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملنا گوارہ نہ کیاکیونکہ جب تک ایک چیز تربیت اور عادت ہی میں نہ ہو کوئی انسان اچھے عمل کا مظاہرہ نہیں کر سکتایہی وجہ ہے کہ مشترکہ ا علامیہ میں بھی بھارت سرکار نے اپنے تحفظات اور مسائل کو علی الاعلان یکطرفہ طور پر ہی بیان کیاہے مگرمبصرین اور دانشوران کے مطابق ہماری طرف سے مسلسل خاموشی مناسب نہ تھی۔ ہمارے وزیراعظم شاید اس سوچ میں تھے کہ بھارت تو اپنی تنگ نظری اور کم ظرفی نہیں چھوڑ سکتا لیکن کم ازکم پاکستان کا مسلمان وزیراعظم اپنی تربیت اور اچھی عادت کو کیوں ترک کرے ۔ مشترکہ اعلامیہ سے اتنا تو ہوا کہ پاکستان اور بھارت خطے میں امن و خوشحالی کے لیے مل جل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، اسی وجہ سے دہشت گردی سمیت تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کیلئے نئی دہلی میں دونوں ممالک کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزرز کی ملاقات جلد ہوگی اور ڈی جی باڈر سیکیورٹی فورس، ڈی جی پاکستان رینجرز،کا جلد از جلد اجلاس بلایا جائے گا جو مل جل کر سرحدی تنازعات کو حل کریں گے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو ۱۵ دن میں رہا کر دیں گے اس کے علاوہ مذہبی زیارتوں کے ویزوں اور سفر کو آسان بنایا جائے گا ۔ممبئی حملہ کیس میں آوازوں کے نمونے اور شہادتوں کے تبادلے کئے جائیں گے ۔یعنی ہمیشہ کی طرح بھارت نے ثابت کیا کہ وہ صرف اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرنا چاہتا ہے جبکہ ہمارے وزراء کو نہ جانے کون سی مصلحتیں اپنے حقوق کے لیے آوازہ بلند کرنے سے روکتی ہیں یاشاید اس دھرتی کے مفادات کی راہ میں کئی سوچیں رکھتے ہیں اسی کا سبب ہے کہ اس ا علامیہ میں کشمیر تنازعہ اورپاکستان میں بھارتی مداخلت سمیت پانی جیسے گھمبیر مسائل کے علاوہ دیگر مسائل جو تناؤ کا باعث ہیں ان کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا ۔یہاں تک کہ اس ا علامیہ کے پانچ نکات کو چپ چاپ تسلیم کر لیا گیا جن میں سرفہرست یہ تھا کہ ممبئی حملوں کے مجرموں کے خلاف کاروائی کرو ۔۔!ایسا کیوں کیا گیا جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت مودی سرکار پاکستان کے خلاف مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور لگاتار مداخلت کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا میں منفی طور پر زیر بحث ہے اور بی بی سی کی جانب سے پاکستان میں ’’را ‘‘ کی مداخلت اور دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے الزامات کی خبر بھی سرگرم ہے ۔بھارتی وزیراعظم کا بنگلہ دیش میں مداخلت کا برملا اعتراف بھی قابل مذمت و مواخذہ ہے ۔ان سب باتوں کے باوجود بھی ہم بھارت کے بڑھے ہوئے گندھے ہاتھ کو تھامتے ہیں تو ’’بھی‘‘ ان ہی کی سنتے ہیں۔۔ آخرکیوں ؟جبکہ ہرکس وناکس آگاہ ہے کہ مودی سرکار اپنی غیر ملکی رابطہ کاری اور اقوام عالم میں روایتی مفاد پرستوں سے دوستی پانے کیوجہ سے ایسا کر رہا ہے مگر پاکستان کے لیے عموماً اور مسلمانوں کے لیے خصوصاً اس کے دل میں کوئی نرم گوشہ موجود نہیں ہے ۔اس کا کھلا ثبوت بھارتی میڈیا اور اس کے تجزیہ نگاروں کے بیانات ہیں جو یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ آج بھارت کی ’’جیت ‘‘ اور اس کے مؤقف کی’’ تائید‘‘ ہوگئی ہے ۔اس ملاقات کو بھارت نے یوں پیش کیا جیسا کہ واقعتا بھارت پاکستان کا صریحاً دشمن ہے مگر اس ملاقات میں یہ وعدہ کر رہا ہے کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گا ۔بعضوں نے تو یہ کہا ہے کہ اگر یہ ملاقات نہ کرتے تو پاکستان کی اقوام عالم میں ساکھ خراب ہوتی اس میں کوئی شک نہیں کہ عاجزی اختیار کرنے میں کوئی برائی نہیں اورایسی ملاقاتیں مسائل کا حل ہوا کرتی ہیں اگر دونوں فریقین باہم مخلص ہوں۔

آپ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھ لیں پاکستان نے بھارت کے ساتھ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ ہی پر خلوص ہاتھ بڑھایا مگر بھارت نے ہمیشہ منافقانہ روش کو برقرار رکھا اور موقع ملتے ہی وعدہ خلافی کی ۔جس کا بھارت اب اقرار بھی کر چکا ہے۔ اب یقین تو نہیں لیکن مسلمان کو مایوس ہونے سے منع کیا گیا ہے اب پتہ نہیں کہ موجودہ ملاقات سے ہماری توقعات پوری ہونگی جبکہ ہم اپنے مؤقف کو بیان کرنے سے بھی ہچکچا رہے ہیں ۔اب میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ حقوق دیتا نہیں کوئی کاسۂ گدائی میں ۔۔اپنے حق کے لیے لڑنا پڑتا ہے ،ملکی سیاست میں لڑنا تو ہماری قیادت کو خوب آتا ہے بس ملکی حق کے لیے لڑنا نہیں آتا ۔وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو یا مسئلہ کشمیر ہو۔اوراس کا فائدہ ایک بارپھر بھارت نے اٹھا لیا ہے ۔اور پاکستان کے حل طلب مسائل کو مذاکرات کا نام دیکر اپنی منافقت اور ریاکاری کا ثبوت دے دیا ہے ویسے سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ یہ کس کی غلطی ہے؟ ہمارے جائز مطالبات کا اس ایجنڈے کا حصہ نہ ہونا اور بھارت کو ہمیں ایک بار پھر مؤرد الزام ٹھہرانے کا موقع دینااور نریندر مودی کے ساتھ صحافیوں کے وفد کا جانا اور لمحہ بہ لمحہ اپنی جیت کا الیکٹرانک میڈیا پر اعتراف کرناجبکہ میاں صاحب کے ساتھ کسی بھی صحافی کا نہ ہونااوربھارت کا سفارتی فتح کا جشن منانا بلا شبہ آج پھر وزارت خارجہ اور خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان ہے۔

مستقبل قریب میں اس ملاقات کے نتائج بھی سامنے آجائیں گے کیونکہ میاں صاحب نے نریندر مودی کو اگلے سال پاکستان آنے کی دعوت دی ہے جو انھوں نے قبول کر لی ہے اور بااثر حلقے پر امید ہیں کہ پاک بھارت دوستانہ روابط کو فروغ ملے گا ،کیابھارت سرکار اپنی پرانی روش کو بھول کر صلح کا علم بلند کرے گا یا پاکستان کو ایک بار پھر پچھتاوے کا سامنے کرنا ہوگا اس کا فیصلے آنے والا وقت کرے گا تاحال یہ بات خوش آئین ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کی’’ مستقل رکنیت‘‘ مل گئی ہے جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ خطے میں اب دونوں ممالک کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے اور اب بھارت کو سارک ممالک کے سامنے اپنے اعمال اور مضموم حرکات کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا اور پاکستان کے لیے ایک اہم موقع ہے کہ وہ اپنی آواز اقوام عالم میں بلند کر سکتا ہے اور اپنے حقوق کی جنگ مناسب طریقے سے لڑ سکتا ہے بلاشبہ پاک بھارت مسائل میں ایک اہم مسئلہ بھارت سرکار کی ریشہ دوانیاں ، نفرت آمیز اور اشتعال انگیز کاروائیاں ہیں مگر۔۔ اگر ہماری قیادت سمجھے تو ۔۔ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ جس ملک کے پاس ایٹمی توانائی موجود ہو اور دنیا کی سب سے ز یادہ بہادر ،جانفروش اورپاک وطن سے محبت کرنے والی ا فواج موجود ہوں اسے ناجائز اور ناحق طور پر عاجزی اختیار کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔سچ ہے کہ بہادری ہی قوموں کو عزت عطا کرتی ہے ،بزدلی سے اگر کوئی قوم عزت پا سکتی تو بہادر کبھی شہید نہ ہوتے ۔عیار لوگ صرف کمزور ارادے اور بزدل حکمرانوں کو للکارتے ہیں مگر ہماری جرات و بہادری کی آئینہ دار سپاہ جب ان کے ذہن میں آتی ہے تو بالآخر پسپا ہو جاتے ہیں جیسے بھارت نے ہمیشہ کیا ہے اس لیے اگر پاکستان کے جھنڈے کو اقوام عالم میں بلند رکھنا ہے تو عزت ،وقار اور جرات سے کام لینا ہوگاتاکہ اس سے افواج پاکستان اور پاکستانی تشخص کامقام بلند رہے ۔
Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 127 Articles with 103106 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.