میں کیسے مان لوں

کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہن کھے ہیں دستانے

آج جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آئی ہے اس نے اس ملک میں تہلکہ سا مچا دیا ہے جس چینل کو لگائیں تجزیہ کار و کالم نگار اسی جنگ میں مصروف عمل آتے ہیں کہ بھائی حکومت ٹھیک ہے عمران غلط کچھ حضرات اپنی راۓ الگ نظر آتے ہیں اسی شش و پنج میں تھا کہ میرے ذہن ہر دستک دی دستک سنی تو یہ تھی کہ جناب پہلے دیکھ لو کہ یہ عدلیہ ہے کونسی؟ کیا اس کی انٹگرٹی پو سوال تو نہیں ہیں؟ کیا یہ باکردار ہے؟

انہیں سوالات کی کھوج میں تھا کہ مجھے چند دن پہلے ایان علی کا کیس یاد آ گیا کہ کس طرح یہ ساری عدلیہ اس بندی کے آگے بے بس تھی کیا نا تھا اس کے خلاف ثبوت بھی تھے ہر شے کا وجود تھا پھر کیا کر سکی یہ عدلیہ۔ اس سے نظر ہٹی تو میری نظر پڑی پاکستان پیپلز پارٹی کہ پانچ سالہ دور حکومت پر جب کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے گیے صرف جمہوریت کہ نام پر صرف اس نام پر کہ ہم مفاہمت کی سیاست کر رہے ہیں اس عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو تو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ یوسف رضا گیلانی کو صرف کٹھرے میں کھڑا کیا ۔ صاحب کیا یہ سب انصاف کہ تقاضے پورے ہوۓ تھے کیا یہی سلوک عام آدمی ساتھ ہوتا ہے جیسا ان جاگیر داروں کہ ساتھ ہوتا ہے-

غالباً 2010 کا واقعہ ہے کہ ایک ڈاکٹر نے ایک غریب آدمی کو پیسے دیے کہ یہ لو آپ سود پہ لوگوں کو کیوں کہ میں یہاں لوگوں کو جانتا نہیں ہوں اس آدمی نے ایسا ہی کر دیا بھوک اور فاقوں سے مجبور بھی تھا اور کچھ نا سمجھ بھی تھا۔ اب اس آدمی نے چیک سائن کروا کہ رکھ لیے ہوۓ تھے اور مقرہ مدت پر پیسے واپس نہ کرنے پر کیس کر دیا اور کیس کیا تھا کہ جی اس نے پیسے لے کر پراپرٹی کا کام کیا تھا اور اب کھا گیا پیسے ۔۔۔۔ اس اندھی عدلیہ نے اتنا گوارہ نہ کیا کہ دیکھ ہی لے کہ ایسا ہی ہے کیا جو ایف آئی آر میں ہے وہ ٹھیک درج ہے؟

اس رپورٹ پر کچھ اعتراضات میرے بھی ہیں جو کہ اس کو ماننے سے روکتے ہیں۔ چونکہ کمیشن عدلیہ سے ہی تشکیل پایا ہے ایک اس عدلیہ کا کردار جو کہ امیر کے لیے اور فقیر کے لیے الگ الگ ہے۔

دوسرا یہ کمیشن بے ضابطگی اور دھاندلی میں فرق کرنے سے قاصر نظر آتی ہے تیسرا یہ کمیشن اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ مقناطیسی سیاہی استعمال کیوں نہیں کی گیی جبکہ ارادہ تھا۔ چوتھا یہ کمیشن اس بات کو واضح کرنے میں ناکام اور بےبس نظر آتی ہے کہ جو ووٹ تصدیق شدہ نہیں ہیں انکو نام کیا دیں۔
معزز جج صاحبان لکھتے ہیں کہ نادرا کے غیر تصدیق شدہ ووٹوں کو درست بھی نہیں قرار دیا گیا تو بھئی آپ کیا کہتے ہیں انکو؟ پانچواں یہ کہ کیا ایک آدمی جو 46 ووٹ اکیلے ہی کاسٹ کر لیتا ہے یہ دھاندلی نہیں تو کیا ہے؟ چھٹا یہ کہ عدلیہ اس بات پر عمران خان کو عدالت بولا لیتی ہے کہ جناب آپنے ہمیں معزز نہیں کہا آئیں یہاں جواب دیں۔۔ جبکہ آصف علی زرداری تو بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ الیکشن آر اوز کا تھا میاں صاحبان کے معزز وزراء اس بات کو دبے دبے لفظوں میں کہتے نظر آتے ہیں کہ کراچی میں مینڈیت چوری ہوا۔ جماعت اسلامی کا بھی یہی حال ہے مولانا تو اس معاملے میں قابل ذکر ہیں کیوں انکو طلب نہیں کیا گیا؟ یہ بھی الزامات کی بوچھاڑ میں مصروف تھے۔ ساتواں یہ کہ کیا کمیشن کو اس چیز کا علم نہیں ہے کہ الیکشن کمیشن اور نادرا اور دیگر اداروں کے بیانات میں فرق ہے۔

حضور یہ وہ سوالات ہیں جو ناچاہتے ہوۓ بھی ذہن میں آرہے ہیں۔ ان کا وجود اور عدلیہ کے ماضی کے رویے اور فیصلے اس رپورٹ پر من وعن یقین سے روک رہی ہے ان سوالات کی روشنی میں کیسے مان لوں کہ گناہ بھی ہوا گناہگار بھی نہیں

Abdul Hadi
About the Author: Abdul Hadi Read More Articles by Abdul Hadi: 5 Articles with 11554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.