اس بارموسم گرما نے کراچی کو 2000سے زیادہ لوگوں کی
ناگہانی موت کا ایسا درد ناک تحفہ دیا کہ ہر آنکھ اشک بار ہوئے بغیر نہ رہ
سکی۔ گرمی تو ہر سال ہی آتی ہے لیکن اس بار اس نے اہل کراچی کو ہلا کر رکھ
دیا۔ ایک جانب سورج اپنی آب وتاب دکھا رہا تھا اور شُعلَہ خُو بنا ہوا تھا،
اس نے اہل کراچی کے لیے اپنی تمازت و حدت حد درجہ بڑھا دی تھی جو اہل کراچی
کے لیے عذاب ِجاں بن گئی، اس کی شدت نے لوگوں کے جسم و جاں کو جھلسا کے رکھ
دیا۔ دوسرے جانب کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے ۔الیکٹرک ارادہ
کیے ہوئے تھی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اس نے گرمی کی شدت سے بازی لے جاتے
ہوئے لوڈشیڈنگ کا سالوں پرانہ حساب برابر کردینا ہے۔ تیسری قوت سرکار کی
بھی تھی ، یعنی نواز شریف سرکار اور زرداری سرکار جس کے کپتان 89 سالہ
نوجوان وزیر اعلیٰ سیدقائم علی شاہ ہیں۔دونوں کے وزراءنے ایک دوسرے پر چاند
ماری کا مقابلہ شروع کیے رکھا، عابد شیر علی اور خواجہ آصف جو نواز سرکار
کے بجلی کی فراہمی کے وزیربا تدبیر ہیں کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ
دار زرداری سرکار کو ٹہرارہے تھے، زرداری سرکار کے ذمہ داران کون سا کم
کھاتے ہیں وہ حلق پہاڑ پہاڑ کر کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار
نواز سرکار کو ٹہرارہے تھے۔ یہ تماشہ بھی خوب رہا، شاید اس سے پہلے کبھی نہ
دیکھا ہو، لوگ مرتے رہیں حکومتیں آپس میں لڑتی رہیں، وہ کہتے کہ تم ان
ہلاکتوں کے ذمہ دار ہو ، یہ کہتے کہ نہیں تم اس کے ذمہ دار ہو، گرمی کی شدت
کا ذمہ دار تو کوئی بھی نہیں تھا ، یہ تو آسمانی تحفہ تھا اس کی ذمہ داری
تو کسی پر بھی ڈالی نہیں جاسکتی، گرمی اپنی جگہ ، لوڈ شیڈنگ کا تو کوئی نہ
کوئی ذمہ دار ضرور تھا۔ اس کا تو محاسبہ ہونا چاہیے تھا۔ دونوں سرکاروں کے
وزیروںکے شور مچانے ، واویلا کرنے سے اصل ذمہ دار بچ نکلنے میں کامیاب
ہوگیا۔ وہ ان دونوں کے واویلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بری الزمہ ہوگیا۔
بات کچھ پرانی ضرور ہوگئی لیکن مرنے والوں کے لواحقین کے لیے ان کے پیاروں
کی موت ہر دم تازہ رہے گی۔ وہ گرمی کی شدت، لوڈ شیڈنگ اور وزیروں کے بیانات
کو کبھی بھول نہ سکیں گے۔ مرنے والوں کی تعداد جو اخبارات اور نشریاتی
اداروں نے بیان کی کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے سرد خانوں میں مردوں کو محفوظ رکھنے
کی جگہ ختم ہوچکی تھی، ایدھی اور دیگر اداروں نے میتوں کی تدفین مشینوں کے
ذریعہ کی ، یعنی کرین اور لوڈر کے ذریعہ لمبی ٹرنک (لحد) کھود دی گئی اور
اس میں اوپر سے نیچے کفن پہنی لاشوں کو لائن سے رکھ کر کرین اور لوڈر سے
مٹی ڈال دی گئی۔ یہ منظر کسی جنگ میں شہید ہونے والوں کی تدفین کا نہیں
تھا، کسی آسمانی آفت کے آجانے کے بعد کی حلاکتوں کا نہیں تھا، زلزلہ آجانے
سے بڑی تعداد میں حلاکتوں کا نہیں تھا بلکہ عام حالات میں کراچی کو ایسے دن
دیکھنا نصیب ہوئے۔ انور شعور کے یہ اشعار اس وقت کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں
پاگئے وہ نجات ہر دکھ سے
لاکھ پسماندگان منائیں سوگ
جن سے گرمی نہ ہوسکی برداشت
سرد خا نے پہنچ گئے وہ لوگ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر معمولی واقعہ کے اثرات مستقبل میں کسی
سیاسی جماعت پر پڑیں گے یا نہیں۔حکمراں سیاسی جماعتیں خوش ہیں کہ کراچی میں
گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے باعث دوہزار سے زیادہ حلاکتوں کا سانحہ خاموشی سے
گزرگیا، نہ توشدید احتجاج ہوا،نہ ہی ہڑتال ہوئی، نہ ہی گولی چلی ،نہ ہی آگ
لگی ، نہ بازار بند ہوئے ، تمام کے تمام مرنے والے سرد خانوں سے خاموشی کے
ساتھ مٹی کے سپرد کردیے گئے۔یہ حکمرانوں کی خام خیالی ہے، اس طرح کے واقعات
کا ردعمل چاہے کتنے ہی عرصہ کے بعد کیوں نہ ہوتا ضرور ہے۔لوگ خاموش ہوگئے
اﷲ تو دیکھ رہا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی عوام کے مصیبت اور پریشانی میں کیا
کردار ادا کیا۔ لوگ مرتے رہے اور جن کو مرنے والوں کی تدفین میں نہ سہی
دعائے خیر تو کرنی ہی چاہیے تھی۔ لیکن وہ تو خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہے،
ٹھنڈے محل نما گھروں میں لمبی تان کے سوتے رہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ماضی کی سیاست کا مطالعہ ہمیں یہ بتا تا ہے کہ اس قسم کے غیر معمولی حالات
اور واقعات کے اثرات لوگ قبول کرتے ہیں۔ ان کا اظہار غیر اعلانیہ طور پر
اپنے ووٹ کے ذریعہ کرتے بھی ہیں۔ 2013کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی
کا پنجاب سے سفایا ہوجانا اس وجہ سے نہیں ہوا کہ نون لیگ دودھ میں دھلی
ہوئی تھی، یا وہ عوام سے محبت اوران کی خیر خواہ تھی یا چھوٹے میاں صاحب کی
زرداری کے خلاف بڑکیں کام آگئیں، زرداری کو سٹرکوں پر گھسیٹنے کی بڑکیں
کارگر ہوگئیں، لوڈ شہڈنگ کبھی چھ مہینے میں کبھی دوسال میں ختم کرنے کی
بڑکوں نے عوام کو متاثر کردیا، ہر گز نہیں ، اس کی وجہ پنجاب کے عوام کے
سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی تھی اور بیڈ گورنیس تھی
،زرداری صاحب کی مصالحت کی پالیسی تھی۔ اب کراچی میں جو غیر معمولی واقعات
ہوئے اور اب بھی ہورہے ہیں ان کے اثرات آئندہ ضرور ظاہر ہوں گے، گلو بٹ کو
لاہور کے عوام ہرگز نہیں بھولیں گے، اسلام آباد میں کپتان کے دھرنوں میں
پولیس کی کاروئی کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ بظاہر یہ واقعات ہوچکے،
حالات بھی نارمل ہوچکے لیکن ان کے اثرات رفتہ رفتہ ظاہرہوں گے، کبھی تو
ضمنی انتخابات میں ہی میں عوام اپنے ردِ عمل کا اظہار کردیتے ہیںجیسا کہ
کراچی میں حلقہ246 میں ہوا، کبھی عام انتخابات میں سیاست دانوں کی
زیادتیوں، لاپروائیوں، خاموشیاں، ignorenceکا ایسا بدلہ لیتے ہیںکہ وہ تل
ملا کر رہ جاتے ہیں جیسا کہ 2013کے انتخابات کے نتیجے میں زرداری اور ان کے
ساتھی سندھ کے علاوہ دیگر جگہوں سے اپنے مکمل صفائے پر تل ملا کر رہ گے۔اب
یہی خاموشی، بے اعتنائی ، لاپروائی ، ignorence ہے جس سے میاں صاحب نے
کراچی کے عوام اور کراچی میں ہونے والے غیر معمولی حالت میں اپنی آنکھیں
موندھی ہوئی ہیں، خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وزیر داخلہ کو کراچی کے حالات
سے نمٹنے کے لیے ، وزیر بجلی و پانی کو مخالفین کو للکارنے ، ڈرانے اور
دھمکانے کا ٹھیکا دے دیا ہے ۔یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے غیر معمولی واقعات کے
اثرات مستقبل کی سیاست پر لازمی ہوتے ہیں۔کالم نگار و تجزیہ کار حسن نثار
کی اس بات میں صداقت پوشیدہ ہے کہ ’ہماراالمیہ یہ ہے کہ لوگ انسان بننے سے
پہلے حکمراںبن جاتے ہیں تو ثبوت سامنے ہے کہ یہ نہ دکھ میں عوام کے ساتھ نہ
سکھ میںنہ خوشی میں عوام کے ساتھ نہ غم میں۔ یہ سب نہ عید کی خوشیوں میں
عوام کے ساتھ تھے نہ سیلابی تباہیوں کے غم میں شریک تو ایسے رہنماؤں کا
اچار ڈالنا ہے یا انہیں آلوؤں کے ساتھ پکانا ہے‘۔ ایک اور کالم نگار
پروفیسر سید اسرار بخاری نے اسی صورت حال کی تصویر کشی نظم میں اس طرح کی
دل میں چھپا کر پی پی والے حکومت کا ارماں لے چلے
ن لیگ اپنی شکست و فتح کا سامان کر چلے
میاں صاحب کو معلوم ہے بلکہ یقین ہے کہ کراچی ان کے لیے پنجاب کبھی نہیں بن
سکتا، یہ تو ہمیشہ سے ہی سمندر کی لہروں کے مخالف چلنے کا عادی ہے۔ ایوب
خان نے سر توڑ کوشش کی کہ کراچی کو اپن بنا لیںپر کراچی والے تومتحرمہ
فاطمہ جناح کے دیوانے تھے۔ انہوں نے گلاب کے پھول کے مقابلے میں لالٹین کو
پسند کیا اور اسے بلند کیے رکھا، گلاب کے پھول کی خوشبو انہیں ایک آنکھ نہ
بہائی۔ بھٹوصاحب کا جادو سر چڑھ کر بولا ، پورے ملک میں جئے بھٹو جئے بھٹو
کی سدائیں گونجیں ، انہوں نے کلین سوئیپ کیا لیکن کراچی نے نو ستاروںکو
جگمگایا، شاہ احمد نورانی قبلہ اور ان کی چابی کو جنت کی جابی تصور کرتے
ہوئے انہیں اپنا رہبر بنا لیا۔ اس سے بھی پہلے کی تاریخ اگر یاد ہو تو
کراچی کے رہنما جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمدمرحوم اور پروفیسر محمود
اعظم فارقی مرحوم ہوا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی سیاست میں
الطاف حسین پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، ایم کیو ایم نام کی کوئی چیز دنیا کے
نقشے پر موجود نہ تھی۔ اس وقت بھی کراچی کا اپنا ایک الگ رنگ ، الگ مزاج
اور منفرد سیاسی مزاج تھا۔ الطاف بھائی نے سیاست میں قدم رکھا ،ایم کیو ایم
وجود میں آئی تو انہوں نے کراچی پر ایسا جادو کیا کہ لوگ انہی کہ ہورہے۔
تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس وقت کے موضوع میں اس کی
گنجائش ہے۔ یہ سیاسی جماعت جسے منتخب نمائندوں کی تعداد کے اعتبار سے ملک
کی چوتھی بڑی جماعت کا درجہ حاصل ہے کراچی کی نمائندگی گزشتہ دو دیہائیوں
سے زیادہ عرصہ سے کررہی ہے۔ سیاست کا یہی تو حسن ہے، کسی بھی سیاسی جماعت
پر جس قدر ظلم و زیادتی ہوتی ہے عوام کی ہمدردیاں اس سے اور زیادہ ہوجاتی
ہیں۔ بھٹو صاحب نے ولی خان کو جیل میں ڈالا اور غداری کا مقدمہ چلایا ، کیا
حاصل ہوا؟ ولی خان اپنی طبعی موت اس دنیا سے گئے۔ کیا ان کی جماعت آج موجود
نہیں ، کئی جماعتوں پر پابندیاں لگیں ، پر وہ ختم نہیں ہوئیں، خود میاں
صاحب کی جماعت اور ان کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ میاں
صاحب دوبارہ پاکستان آئیں گے اور سیاست کے افق پر چاہ جائیں گے۔ بے نظیر
بھٹو کی جماعت پر کس قدر ظلم و زیادتی ہوئی، بے نظیر پھر ملکی سیاست میں
چاہ گئیں۔ اس لیے میاں صاحب کو چاہیے کہ کراچی کے حالات اور واقعات پر
سنجیدگی سے توجہ دیں۔نوے کی دیہائی میں بھی ان کے دور اقتدار میں کراچی کی
اس جماعت پر اِسی قسم کے الزامات اور مظالم ہوئے تھے، نتیجہ سب کے سامنے
ہے، نہ انصافیوں کا ازالہ کریں، جو شرپسند ہیں، غلط کام کرنے والے ہیں ان
کے خلاف کاروائی ضرور ہونی چاہیے۔بے گناہوں کے ساتھ زیادتی کسی صور ت نہیں
ہونی چاہیے۔
بات کراچی میں ہونے والی دو ہزار سے زیادہ ہلاکتوں کی ہورہی تھی، گرمی کی
شدت تو ایک وجہ تھی ہی ساتھ ہی لوڈ شیڈنگ نے آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا،
اس آگ کو بجھانے کے لیے جس پیارکی ،محبت کی، ہمدردی کی، توجہ کی، فوری
اقدامات کی مرکزی حکومت کی جانب سے اور سندھ کی حکومت کی جانب سے ضرورت تھی
وہ کہیں نظر نہیں آئی البتہ دونوں جانب کے کپتانوں کے فرنٹ پر کھیلنے والے
کھلاڑی آپس میں ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ دراصل یہی وہ
عمل ہے جس نے کراچی کی سوچ کو دیگر شہروں کی سوچ سے مختلف کردیا ہے۔ کہیں
آگ لگ جائے، بڑا حادثہ ہوجائے، عمارت گر جائے، آندھی آجائے، طوفان آجائے
حکمراں فوری طور پر مدد کرنے اور اس کا مداوا کرنے کے بجائے مخالفین کی
جانب اپنی توپوں کا رخ موڑ دیتے ہیں، یا بیرون ملک سدار جاتے ہیں، کبھی
اپنے علاج کے لیے، کبھی کسی کی مزاج پرسی کے لیے اور کبھی عمرہ کے لیے،ان
کے اس عمل سے عوام کو نقصان ہوتا ہے ۔ کسی کی تکلیف کا بروقت مداوا نہ ہو ،
بعد میں مگر مچھ کے آنسو بہانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس واقعہ کے بعد
مرکزی حکومت اور سندھ کی حکومت نے جس طرح ایک دوسرے کو مورد الزام
ٹہرایااہل کراچی ان باتوں کو بھول نہیں سکیں گے۔ دوہزار افراد چند دنوں میں
لقمہ اجل بن گئے۔ اس کے اثرات مستقبل میں سیاستدانوں پر ضرور پڑیں گے ،
سیاسی لوگوں، سیاسی جماعتوں کو اس بے حسی کا جواب ضرور ملے گا۔ کس صورت میں
ملتا ہے سرِ دست کچھ کہنا قبل از وقت ہے(23جولائی 2015 ) |