السلام وعلیکم
بہتر تو یہ تھا کہ میں کامران الطافی صاحب کے کالم کے تبصرے میں یہ تحریر
درج کرتا مگر چونکہ ہماری ویب ڈاٹ کام تبصرے کی جگہ پر چند لائنوں سے زیادہ
تحریر کی سہولت نہیں فراہم کرتی اسلیے اپنے تبصرے کو کالم کی شکل دینے پر
مجبور ہوں جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
باقی اپنے چہرے سے میں کیسے نقاب اتار دوں کیا ویسے جیسے لال مسجد کے فرار
حاصل کرنے والا مولانا عبدالعزیز برقعے سمیت جان بچا کر نکلنے کے دوران
پکڑے گئے عورتوں کی طرح اور نقاب اتارے ٹیلی ویژن پر سب نے ان کو دیکھ لیا
میں نے کوئی فرار کے لیے نا کوئی برقعہ پہنا ہے جس کے نقاب کو ہٹانے کی
ضرورت پیش آئے۔
ہماری ویب ڈاٹ کام پر کامران الطافی صاحب حیرت انگیز طور پر ایک کالم پیش
کرتے ہیں اور وہ اپنے کالم بنام “ فرقان صاحب چہرے سے نقاب اتار دو“ میں
اپنے رائے کا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ موصوف (یعنی فرقان خان) فرقہ
پرستی کی جانب مائل ہوگئے ہیں ۔۔۔(اور آگے استفسار فرماتے ہیں کہ ) ۔۔ کیا
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام متحدہ کے ذمہ دار جس میں گورنر سندھ ۔ ڈاکٹر
عشرت العباد بھائی، ناظم کراچی، تمام کارکنان، اور الطاف بھائی اس دن کو
منانے کے سبب جہنمی ہوگئے۔
جناب کامران صاحب سے ایک سوال ہے کہ اگر الطاف بھائی، ایم کیو ایم کے ذمہ
داران اور کارکنان اگر ہولی کے دن ہندوں کے مندروں میں جاکر ان کو ناصرف
ہولی کی مبارک باد دیتے ہیں بلکہ ان کی خوشیاں میں کچھ دیر کے لیے شامل بھی
ہوجاتے ہیں تو کیا وہ معاز اللہ ہندو ہوجاتے ہیں آپ کے فارمولے کے حساب سے
اور اسی طرح کرسمس کے مواقع پر اور اسی طرح سکھوں کے دنوں پر خوشیاں منانے
سے کوئی کیا کرسمس یا سکھ ہوجاتا ہے؟ کامران صاحب اگر اس سوال کے جواب میں
آپ کہیں “نہیں “ تو اسی طرح بارہ ربیع الاول یا دس محرم الحرام کے مواقع پر
بھی ایسا نہیں ہے۔ امید ہے آپ کی سمجھ میں بات آگئی ہوگی وگرنہ آپ اپنا کام
کرتے رہیں اور میں الحمداللہ اپنا کام اللہ کے حکم سے کرتا رہوں گا اور
مجھے آپ جیسے کسی سے کوئی سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے الحمداللہ۔ |