حضرت عمر رضی اللہ عنہ

حضرت سعد بن ابن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں خوب اونچی آواز سے گفتگو کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور پردے میں چلی گئیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ آپ کے دندانِ مبارک کو تبسم ریز رکھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس تھیں کہ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے میں چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! آپ زیادہ حق دار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ عورتوں نے جواب دیا ہاں! آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں سخت گیر اور سخت دل ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب! اس بات کو چھوڑو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

الحديث رقم 57 بخاری ، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1347، الحديث رقم : 3480، و في کتاب بدء الخلق، باب صفة أبليس و جنوده، 3 / 1199، الحديث رقم : 3120،
مسلم ، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1863، الحديث رقم : 2396،
نسائی فی السنن الکبری، 5 / 41، الحديث رقم : 8130،
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیک وسلم کو صحیح سلامت واپس لائے تو میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجا لو ورنہ نہیں۔ اس نے دف بجانا شروع کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے وہ بجاتی رہی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر بھی وہ دف بجاتی رہی۔ لیکن اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے کیونکہ میں موجود تھا اور یہ دف بجا رہی تھی پھر ابوبکر، علی اور عثمان (یکے بعد دیگرے) آئے۔ تب بھی یہ بجاتی رہی لیکن جب تم آئے تو اس نے دف بجانا بند کر دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

حديث رقم 58 :
ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 620، الحديث رقم : 3690،
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اتنے میں ہم نے شور و غل اور بچوں کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ آؤ دیکھو! میں گئی اور ٹھوڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان سے دیکھنے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارا جی نہیں بھرا؟ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک میری کیا قدر و منزلت ہے؟ لہٰذا میں نے عرض کیا : ’’نہیں‘‘ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور انہیں دیکھتے ہی سب لوگ بھاگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ شیاطین جن و انس عمر کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر میں لوٹ آئی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 621، الحديث رقم : 3691، نسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 309، الحديث رقم : 8957،
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381259 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.