بارشوں اور سیلاب سے جنت نظیر وادیوں میں تباہی

حافظ صاحب دارالحکومت سے باہر نکلیں عوام مدد کے منتظر ہیں

مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے ملک کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے ، اب تک کے اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ نقصان چترال اور گلگت بلتستان میں ہوا ہے۔ گلگت بلتستان کی جنت نظیر وادیوں کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق تقریبا تمام ہی اضلاع کی درجنوں چھوٹی بڑی سڑکیں اورپل تباہوئے یا شدید نقصان پہنچا ہے ،درجنوں دیہات کے سیکڑوں مکانات ،مساجد ، مویشی خانے اور ہزاروں ایکڑز پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں ۔شدید بارشوں، ندی نالوں میں طغیانی اور سیلاب سے ہزاروں خاندان متاثر ہوئے ہیں ۔

صوبائی وزیر اطلاعات حاجی ابراہیم ثنائی کے مطابق 16جولائی سے جاری بارشوں سے پورا خطہ متاثر ہوا ہے لیکن ضلع گانچھے،استور،سکردو،چلاس اور غذر میں بہت زیادہ نقصانات ہوئے سیکڑوں گاؤں سے مواصلاتی اورزمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے ۔ضلع گانچھے میں بجلی کے تمام ٹربائنز کلی یا جزوی تباہ ہوئے اور اس وقت پورے ضلع میں بجلی منقطع ہے ۔واٹر سپلائی کا نظام تباہ ہونے سے پانی کی شدید قلت ہے ،جبکہ درجنوں علاقوں میں گندم کا شدید بحران بحران پیدا ہواہے ۔گانچھے کی ’’وادی خوشی‘‘ میں12غیر ملکی سیاح پھنس گئے ہیں کو نکالنے کے لئے حکومت ضروریہ اقدام کر رہی ہے اوروزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کی ہدایت پر میں خود اپریشن کی نگرانی کر رہاہوں،حالات کافی خراب ہیں وفاقی حکومت اور امدادی اداروں کے شدید تعاون کی ضرورت ہے ۔ضلع سکردوکے متعدد علاے شدید متاثر ہوئے جن میں ، گلتری ، کھرمنگ ، نر ، غوڑ اور دیگر علاقے شامل ہیں ۔شگر میں کے گاؤں وزیر پور میں گلیشئیر سے بنی جھیل ٹوٹنے سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا ہے ۔ فورس کمانڈر اور چیف سیکریٹری نے علاقے کا دورہ کرکے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے ، بعض مقامات پر پھنسے سیاحوں کو ریسکیو کیاگیا ۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء عبدالرحمان ثاقب کے مطابق ضلع استور میں 16جولائی سے بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور دور دراز علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں جن میں وادی گریز(قمری منی مرگ ) ،وادی ضلع بالا(رٹو)،میر ملک اور دیگر علاقے شامل ہیں ۔ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کی ہدایت پر حکومتی ادارے، مسلح افواج اور لوگوں کے تعاون سے فی الحال ریسکیو اور ریلیف میں مصروف ہے اور ریسکیو و ریلیف میں لوگوں نے بھی مسلح افواج کے ساتھ اہم کردار اداکیا جو قال تحسین ہے ۔ان علاقوں میں غذائی اجناس اور ادویات کی بھی قلت ہے ۔ بعض علاقوں میں بجلی گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں بجلی کا بحران ہے ۔ عبدالرحمان ثاقب کے مطابق ریسکیو (بچاؤ) اور ریلیف(امداد) کے بعد ریہبلٹیشن (بحالی ) کا عمل شروع کرے گی ،اس وقت لوگوں سخت امداد کی ضرورت ہے۔ہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فوری امداد جاری کی جائے تاکہ لوگوں کی جانیں بچائی جاسکیں ۔

ڈپٹی کمشنر دیامر عثمان احمد کے مطابق ضلع دیامرڈوڈشال ،تھک ،نیاٹ ، بونر، تھور اور دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ،واٹر سپلائی شدید متاثر ہے جبکہ تھور ناے کے بعض علاقوں سے رابطہ بھی منقطع ہے ۔ حکومت مقامی لوگوں کی مدد سے بچاؤ اور امداد میں مصروف ہے ۔ہم تمام حکومتی وسائل کو استعمال کر رہے ہیں۔ میڈیا کے مطابق ضلع ہنزہ نگر کی وادی ہسپر کا رابطہ منقطع ہے اور 200سء زائد گھرنانے شدید مشکلات میں ہیں ، اس وادی کی 16کلومیٹر مین سڑکیں اور پل مکمل تباہ ہے ۔ضلع غذر میں بھی بعض مقامات پر تباہی ہوئی ہے ۔بارشوں سے ضلع گانچھے میں باپ بیٹا جان بحق ہوگئے ہیں ۔سکردو گلگت شاہراہ سمیت 9بڑی سڑکیں تباہی کی وجہ سے بند ہیں ،جبکہ درجنوں رابطہ سڑکیں اور پل بھی تباہی کا شکار ہیں ۔سیکڑوں مکانات ، ہزاروں ایکڑ ز پر کھڑی فصلیں اور باغات تباہ ہوئے ہیں ۔بڑی تعداد میں میوشی بھی ہلاک ہوئے ہیں ۔درجنوں علاقوں سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے اصل نقصانات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کے مطابق ہم فوری طور پر پورے صوبے میں امیرجنسی نافذ کردی ہے اور ہنگامی امداد کے لئے 5کروڑ روپے جاری کردئے ہیں اور ہنگامی بنیادوں پر11چھوٹی سڑکوں کو بحال کردیا ہے ۔انتظامیہ کو سختی سے ہدایت کی گئی ہے کہ متاثرین کے بچاؤ اور امداد کے لئے تمام سرکاری وسائل استعمال میں لائیں اور تمام کام کی میں خود نگرانی کر رہاہوں ۔متاثرین کو معاوضہ دیا جائے گا۔

گلگت بلتستان کی حسین جنت نظیر وادیوں میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی در اصل مسلم لیگ (ن) کی نومنتخب حکومت کیلئے امتحان ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ قدرتی آفات اور حادثات کے دوران ترقی پذیر ممالک میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی ’’ریسکیوِ (بچاؤ)، ریلیف(امداد) اور ری ہیبلٹیشن( بحالی) ‘‘پر عمل کرے ۔ فوری طور پر تمام منتخب نمائندے اور وزراء اپنے اپنے حلقوں کا رخ کریں اور متاثرین کے مدد کے لیے تمام ضروری وسائل استعمال میں لائیں جبکہ وزیر اعلی ٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن گلگت شہر میں ہنی مون پریڈ ختم کرکے تمام متاثرہ علاقوں کا ہنگامی دورہ اور ہنگامی امداد کیلئے اقدام کریں،جبکہ لیگی کارکن ،رہنماء اور ووٹرز وزیراعلیٰ کا وقت نمائشی تقریبات ، سیلفیوں اور گروپ فوٹوز میں ضائع کرنے کی بجائے اب انہیں کام کا موقع دیں۔ویسے بھی وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کو چاہئے کہ وہ ہفتے میں کم سے کم دو دن دیگر اضلاع میں گزاریں ،جبکہ سکردو میں اپنا سب آفس قائم کریں،یہ کام پہلے ہونا چائے تھا اگر نہیں ہوا ہے تواب کیا جائے ،حکومت کے قیام کو ایک ماہ ہونے والا ہے ،اب بعض شعبوں میں تبدیلی نظر آنی چاہئے ۔وزیر اعلیٰ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کیلئے تمام وسائل استعمال ، کوشش اور عمل سے یہ ثابت کریں کہ واقعی تبدیلی آئی ہے ۔اپنے شعبہ اطلاعات کو فعال اور میڈیا کے لئے بروقت رابطوں اور اطلاعات کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔

موجودہ ــ’’رین بحران‘‘ میں صرف رین ایمرجنسی کا نفاذ ہی مسائل کا حل نہیں بلکہ اس کے ساتھ پوری مشینری کو حرکت میں لانا ہوگا اور فیلڈ میں جاکر وزیر اعلیٰ ،وزراء ،منتخب نمائدے اور سیاسی و مذہبی قیادت لوگوں کی مدد کریں اوروفاقی اداروں اور حکومت سے ہرممکن مدد حاصل کی جائے۔ رابطہ سڑکوں اور پلوں کے متاثر ہونے کی وجہ سے جن علاقوں میں غذائی اجناس اور ادویات کی قلت ہے وہاں بروقت اجناس اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔اس مشکل وقت پر وفاقی حکومت اور فلاحی اداروں کو کو چاہیے کہ وہ متاثرین کی امداد کیلئے ہنگامی بنیادوں پر صوبائی حکومت کی مدد کرے کیونکہ جس بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اس کے تدارک کیلئے وسائل صوبائی حکومت کے پاس موجود نہیں ہیں۔ تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کو چاہیے کہ وہ سیاست سے بالا تر ہو کر حکومت کے ساتھ تعاون کریں جبکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تنہا پرواز کرنے کے بجائے مشاورت سے بچاؤ ، امداد اور بحالی کے لئے حکمت عملی طے کریں ۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے 100دن کے لیے جو ہدف مقرر کیا ہے اس میں اب بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی امداد ور بحالی کو اولین ترجیع دینا ہوگی ۔ اعداد شمار صرف کاغذی ہیر پھیر نہیں حقیقی بنیادوں پر ہونے چاہیں، ماضی کا تلخ تجربہ ہے کہ حکومتوں نے اعلانات تو کیے لیکن عملدرآمدآج تک نہیں ہوا،پیپلزپارٹی کی مہدی شاہ حکومت اور مسلم لیگ(ن ) کی موجودہ حکومت کو خطے کی حقیقی نمائندہ قرار دیا جارہاہے ہے ۔ پیپلزپارٹی کے سید مہدی شاہ اور ان کے ساتھیوں نے اس نمائندگی کا حق ادا نہیں کیا اور عوام نے انہیں بدترین شکست سے دوچار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو بہترین کامیابی سے ہمکنار کیا۔

موجودہ صورتحال میں بلدیاتی نمائندوں کی عدم موجودگی کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہوگا تاہم اس کے تدارک کیلئے مقامی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے کر متاثرین کی بہتر انداز میں مدد کی جاسکتی ہے ۔ گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات 2009میں ہونے تھے لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے ملک کے دیگر حصوں کی طرح اس خطے کو پہلی بار بلدیاتی انتخابات سے محروم رکھا۔ 2009سے 2013ء تک وعدے اور اعلانات تو کئے گئے مگر بلدیاتی انتخابات سے گریز کیاگیا۔موجودہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کو اپنی اولین ترجیحات کو شامل رکھے اور اکتوبر 2015سے قبل خطے میں بلدیاتی انتخابات یقینی بنایاجائے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے قانونی تقاضے فوری پورے کئے جائیں ۔دیگر صوبوں کے بلدیاتی نظاموں کا جائزہ لیکر م،ناسب قانو سازی کی جاسکتی ہے ۔اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو 3ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرانا کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے، ویسے بھی بلوچستان ، خیبر پختونخوا کے بعد اب سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق سندھ اور پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات رواں برس 20ستمبر تک کرانے ہیں،اس لئے گلگت بلتستان حکومت اعلیٰ عدلیہ کے حکم کاسانتظار کرنے کی بجائے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کروا کر نچلی سطح تک اختیارات اور فنڈز کی منتقلی کو یقینی بنائے تاکہ عوامی مسائل کسی حدتک ان کی دہلیز پرحل ہوسکیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106792 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.