سیلاب ہر سال آتے ہیں لیکن۔۔۔!!!

ہمیشہ کی طرح اس سال بھی مون سون نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور کرپٹ حکمرانوں جیسی آفتوں میں گھرے ہوئے وطن عزیز کے باسی ایک اور آفت کی زد میں آ چکے ہیں۔ سیلاب کوئی نئی آفت نہیں ہے۔ جسے یہ کہہ کر ٹال دیا جائے کہ" رب کو یہی منظور تھا"۔رب نے انسان کو عقل جیسی بیش قیمت نعمت عطا کی ہے۔ یہ انسان رب کی عطا کردہ اسی نعمت کی بدولت زمین سے ہزاروں میل دور خلا تک پہنچ چکا ہے۔ اسی عقل نے انسان کو سمندروں کی تہہ تک رسائی بخشی ہے۔ہزاروں پوشیدہ امراض کی تشخیص اور اُن کا علاج انسان کے عقلمند ہونے کا واضع ثبوت ہے۔ ہواؤں میں اُڑنا اور پانی کے سینے چیرنا بھی انسان کے عقلمند ہونے کی نشانی ہے۔آج اگر سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کی ہے تو وہ رب کی عطا کردہ عقل ہی سے کی ہے۔ یہ درست ہے کہ بارشوں ، سیلابوں، زلزوں اور دیگر آسمانی آفتوں کا مقابلہ کر نا مشکل کام ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔مگر ان ممکنات کو بروئے کار لانے کے لیے بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔جاپان کی ہی مثال لے لیجیے وہاں سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ لیکن تباہی سب سے کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بہتر حکمت عملی ہی ہے۔ وہ اپنے مکان ہی اس طرح ڈیزائن کر تے ہیں کہ ان پر زلزلے کا اثر بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ اور یوں وہ ایک بہت بڑی قدرتی آفت کی تباہی سے بچ جاتے ہیں۔

سیلاب جیسی قدرتی آفت سے بچنا بھی مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ سیلاب تب ہی آتے ہیں جب بارشوں کا پانی دریاؤں اور ندی نالوں کی گنجائش سے بڑھ جاتا ہے۔ پانی کی یہی زیادتی سیلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ یہ سیلابی ریلے اپنے تیز اور طاقتور بہاؤ کے سامنے آنے والی ہر شے کوبہا کر لے جاتے ہے۔بارشوں کا پانی سیلاب کی شکل اختیار ہی نہ کر پائے اس کے لیے ضروری ہے پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھایا جا ئے۔اور اس کا واحد حل ڈیم ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس ڈیم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے سیاسی لیڈر دریاؤں پر ڈیم بنانے کی کھلی مخالفت کر تے ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ مند ڈیم "کالا باغ ڈیم" ہے اور سب سے زیادہ مخالفت اسی ڈیم کی ہو رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کالا باغ ڈیم بن جانے سے ملک ٹوٹ جائے گا تو کسی کا نعرہ ہے کہ کالا باغ ڈیم اُن کی لاشوں پر ہی بن سکتا ہے۔ جن کو اپنی لاشیں پیش کرنے کا شوق ہے اُن کی یہ خواہش پوری کر دی جائے تو اس میں ہرج ہی کیا ہے۔تا کہ چند لوگوں کی قربانی سے پورا ملک سکھی ہو جائے۔

ہمارے حکمرانوں کی پہلی ترجیح ہمیشہ سے ہی ایسے کام رہے ہیں جن کی بدولت اُن کی اپنی ذات کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔ایسے کاموں میں وہ کام شامل ہیں جو سال یا دو سال کے اندر مکمل ہو جائیں تاکہ عوام کے سامنے وہ اپنی کارکردگی ظاہر کر سکیں۔ چھوٹے سے چھوٹا ڈیم بھی ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے ۔اس کی تکمیل کے لیے کم از کام سات آٹھ سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔جبکہ کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ وہ کسی ایسے کام کو ہاتھ ڈالے جو اُس کی حکومت کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد مکمل ہو۔ کیونکہ عوام کی نظر میں جب تک کوئی پراجیکٹ مکمل ہو کر اپنا کام شروع نہیں کر دیتا اس وقت تک وہ حکومت کی کارکردگی میں شامل نہیں ہوتا ۔ اور جو پراجیکٹ کسی حکومت کی کارکردگی کو ظاہر نہ کرسکے وہ پراجیکٹ اُس حکومت کے لیے بے سودہی ہوتا ہے۔ بلا شبہ زرداری حکومت نے اس ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا تھا ۔ صابق صدر آصف علی زرداری کی پہلی ترجیح دولت کمانا ، دوسری ترجیح دولت کمانا اور تیسری ترجیح بھی دولت کمانا ہی تھا۔جبکہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کی حکومت کے مقابلے میں کام تو کر رہی ہے لیکن اُن کے کام وہی ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔سڑکیں ، پل اور میٹرو وغیرہ۔سڑکیں کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے شعبے میں جو حکومت کی توجہ کے منتظر ہیں۔

سیلاب یا کسی بھی آفت کے آتے ہی حکومت حرکت میں آ جاتی ہے۔ ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے فضائی جائزہ لیا جاتا ہے۔بے بس متاثرہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر فوٹو سیشن کیا جاتا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں وزراء کی آمد سے پہلے عارضی ریلیف کیمپ لگائے جاتے ہیں جنہیں دورہ ختم ہوتے ہی لپیٹ دیا جاتا ہے۔ تباہ شدہ مکانات کے مکینوں کے لیے بڑے فخر سے فی گھر پانچ لاکھ کی امداد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ کوئی ان کو یہ بتائے کہ اس دور میں پانچ لاکھ سے مکان تو کیا ایک باتھ روم بھی نہیں بن سکتا ۔ جن کے گھر تباہ ہو جائیں ، جن کے مویشی بہہ جائیں، جن کی فصلوں کا نشان مٹ جائے، جو گھر سے بے گھر ہو جائیں ان کے لیے پانچ لاکھ کیا اہمیت رکھتا ہے۔تو گویا حکمرانوں کے لیے ایک غریب کے گھر کی قیمت ان کے کتوں کے لیے بنائے جانے والے ڈربوں سے بھی کم ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بارشیں ہر سال برستی ہیں۔ دریا، ندی، نالے ہر سال بپھرتے ہیں۔ سیلاب ہر سال آتے ہیں۔ مکان ہر سال گرتے ہیں۔ مکین ہر سال بے گھر ہوتے ہیں۔فصلیں ہر سال تباہ ہوتی ہیں۔قیمتی جانیں ہر سال ضائع ہوتی ہیں۔لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ان کے پاس سیلاب سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے کہ وہ سیلاب آنے سے پہلے کوئی حکمت عملی اپنا سکیں ۔ تاکہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پایا جا سکے۔بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے دریاؤں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ اور یہ ذخیرہ شدہ پانی سال کے باقی مہینوں میں خشک سالی کے دوران استعمال کیا جا سکے۔لیکن شاید شریفوں کی حکومت اس بات سے لا علم ہے کہ ڈیموں کی تعمیر میں بھی لوہا استعمال ہوتا ہے۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 109774 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.