جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ۔کیا سبق ملا؟
(Dr. Rais Samdani, Karachi)
پاکستان تحریک انصاف کے کپتان
عمران خان، عوامی تحریک کے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے 126 دن کے دھرنوں،
احتجاجوں،واویلا مچانے،متعدد جانوں کے ہلاک ہوجانے، بے شمار زخمی ہوجانے
والوں کے نتیجے میں نواز حکومت آخر کار2013 کے عام انتخابات میں مبینہ
دھاندلی کے لزامات کی تحقیقات کے لیے سہ رکنی جوڈیشل کمیشن بنانے پر آمادہ
ہوئی اور دونوں جماعتوں کے مابیں ایک ایگریمنٹ دستخط کیا گیا ، جس کے نتیجے
میں جو ڈیشل کمیشن تشکیل پایا۔ کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب
جسٹس ناصر الملک خود تھے۔ کمیشن کو تین بنیادی سوالوں پر تحقیق کرنے اور
اپنی رائے دینے کے لیے کہا گیا تھا۔وہ تین سوالات یہ تھے۔
(1) کیا 2013کے عام انتخابات غیر جانبدارنہ، منصفانہ ، دیانتدارانہ اور
قانون کے تقاضوں کے مطابق ہوئے؟
(2) کیا کوئی الیکشن 2013 کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے منظم
دھاندلی یا سازش کے ذریعے اثر انداز ہوا؟
(3) کیا الیکشن 2013کے نتائج مجموعی طور پر عوامی مینڈیٹ کا درست اور حقیقی
اظہار کرتے ہیں ؟
جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان سوالات کے جوابات کے لیے تفصیلی تحقیق
کی۔ کیونکہ الزامات اور تحقیقات کرانے کے لیے تحریک انصاف ہی پیش پیش تھی
چنانچہ کمیشن نے تحریک انصاف کو اپنے موقف کا مکمل دفعہ کرنے کا پورا پورا
موقع فراہم کیا۔ کپتان نے کمیشن اور اس کے جملہ اراکین پر مکمل اعتماد کا
اظہار کیا اورکمیشن کے کاروائی میں بھر پور قانونی دفعہ کیا۔ معروف وکیل
جناب عبد الحفیظ پیر زادہ کپتان کی جانب سے وکیل تھے جن کی شہرت نامور وکیل
اور سیاستداں کی بھی ہے۔حفیظ پیرزادہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار
علی بھٹوکے دست راست اور قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ کپتان کے وکیل نے بھر
پور انداز سے مکمل قانونی نکات اور ثبوتوں کی روشنی میں اپنی بات کو جائز
قرار دینے کی بھر پور کوشش کی، کمیشن کی مکمل کاروائی کے دوران کپتان از
خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ کاروائی کے دوران موجود ہوتے ، کاروائی کے اختتام
پر کمرہ عدالت سے باہر نکل کر میڈیا سے مخاطب ہونا، الزامات کو دہرانہ ان
کا معمول تھا۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر کمیشن کی کاروائی پر انگلی نہیں
اٹھائی جو ایک اچھی بات تھی۔ طویل عدالتی کاروئی کے بعد کمیشن نے اپنی
رپورٹ حکومت ِ وقت کو پیش کردی۔ کیونکہ رپورٹ میں کپتان کے الزامات کو رد
کردیا گیا تھا، ایک اعتبار سے کمیشن کی رپورٹ حکومت کے حق میں تھی ،یہ نواز
شریف کی فتح بھی تھی جب کپتان کی شکت ۔ اس کا فوری ردِ عمل یہ ہوا کہ نواز
شریف اولین فرصت میں تمام سرگرمیوں ، ملکی حالات، سیلاب کی تباکاریوں کو
بالائے طاق رکھ کر ٹیلی ویژ ن اسکرین پر آئے اوراپنی فتح کا اعلان کیا۔
ملکی تاریخ میں شاید کسی بھی کمیشن کی یہ پہلے رپورٹ ہوگی جس کو حکومت کو
پیش کرنے کے فوری بعد اس کے مندرجات کو ٹیلی ویژن پر عام کیا گیا۔ ورنہ تو
کمیشنوں کی رپورٹیں سردخانے کی نظر ہوجایا کرتی ہیں۔ ایک اعتبار سے اچھی
بات ہے لیکن یہ زیادہ بہتر تھا کہ نواز شریف صاحب اس رپورٹ کو ٹیلی وژن کے
بجائے ملک کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کرتے یاصرف قومی اسمبلی ہی
میں شرکت کرتے اور وہاں اس رپورٹ کے مندرجات کی تفصیل بیان فرمادیتے تو
زیادہ اچھا ہوتا۔ منتخب ایوان اس رپورٹ کے عام کرنے کے لیے جو بھی تجویز
دیتا وہ مناسب ہوتا۔ تقریر کیونکہ لکھی ہوئی تھی اور یہ راز فاش ہوچکا کہ
یہ الفاظ ، جملے جناب نواز شریف کے نہیں تھے بلکہ سابق صحافی و کالم
نگاراور اب وفاقی مشیر عرفان صدیقی کی سوچ ، فکر اور تدبر سے ڈھلی ہوئی
تقریر تھی۔ یہ کوئی بری بات نہیں اکثر حکومتی ذمہ داران تقریریں لکھوا یا
ہی کرتے ہیں۔ادیبوں، دانشوروں، صحافیوں ، کالم نگاروں کا کام سیاست کرنا تو
ہے ہیں چنانچہ وہ سیاسی میدان کے شہسواروں مشیر با تدبیر ہی بنتے ہیں اور
وقت پڑنے پر ایسی ایسی تقریریں لکھ کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کی واہ واہ
ہوجاتی ہے۔نواز شریف کے مشیر محترم نے بہت ہی جچی تلی، وقت اور حالات کی
نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے الفاط کی صف بندی اور جملوں کی جمع بندی اس
خوبصورت طریقے سے کی کہ بات آسانی سے سمجھ میں آگئی، مخالفین کوئی ’فی‘
نہیں نکال سکے۔ اس صورت حال کو پروفیسر سید اسرار بخاری نے اپنے ایک شعر
میں اس طرح بیان کیا
نواز کا تدبر ہو عرفان کی زبان ہو
اب خان، خدا جانے کس طرح کہاہو
وزیر اعظم نواز شریف نے اس رپورٹ کے جوابات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اپنی
تقریر میں فرمایا کہ کمیشن نے ان تین سوالوں کے جو جوابات دیے ہیں وہ یہ
ہیں۔
(۱)الیکشن کمیشن کی حد تک رپورٹ میں بتائی گئی کوتاہیوں سے قطع نظر، ریکارڈ
پر موجود تمام شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے 2013کے عام انتخابات مجموعی
اعتبار سے منصفانہ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق منعقد کیے گئے۔
(2)نہ تو انکوائری کمیشن کی کاروائی میں شامل پارٹیوں نے کسی ایسے پلان یا
سازش کے بارے میں کوئی ثبوت پیش کیے اور نہ ہی کمیشن کے سامنے رکھے گئے
مواد سے ایسی کوئی بات سامنے آئی ہے جس سے دھاندلی کے کسی پلان یا سازش کی
نشاندہی ہو۔ اسی طرح مبینہ دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف عائد کردہ
الزامات بھی ثابت نہیں کیے جاسکے۔
(3)جب الیکشن 2013 کواُ ن کے مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن
کی چند کوتاہیوں کے باوجود ، انکوائری کمیشن کے سامنے موجود شواہد کو مدِ
نظر رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ نتائج عوام کے مینڈیٹ کا حقیقی اظہار
نہیں تھے۔
یقینا نون لیگ کے لیے یہ لمحات خوشی کے ہیں، مسرت کے ہیں، جشن منانے کے ہیں
لیکن سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی، سیاست نام ہی اتارچڑھا ؤکا
ہے، کم از کم پاکستان کی سیاست تو اسی قسم کی ہے کہ آج ایک جماعت عروج پر
تو کل دوسری جماعت ۔دھرنوں، احتجاج اور انتخابات پر الزامات کے حوالے سے
کپتان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ نواز حکومت
اب گئی کہ تب گئی لیکن پھر کوئی ایسا معرکہ ہوجاتا کہ نواز حکومت سنبھل
جاتی اور مخالف سیاسی گروہ نیچے جاتا دکھا ئی دیتا۔نواز شریف کا استعطفیٰ،
تیسرے امپائر کی انگلی اٹھنے کے اشارے تک سامنے آنے لگے تھے۔ جب تک کمیشن
کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی تھی کپتان کی بڑکیاں عروج پر تھیں رپورٹ
آجانے کے بعد کپتان اور اس کی ٹیم بیک فٹ پر چلی گئی ۔ کمیشن کی رپورٹ نے
سر دست تحریک انصاف کی بولتی بند کردی۔ کپتان کے وہ ساتھی جو میڈیا پر آکر
فلسفیانہ اندازتکلم اختیار کرتے ہوئے حکومت اور دیگر جماعتوں کو آڑے ہاتھو
لیا کرتے تھے اب میڈیا پر آنے سے کترارہے ہیں کچھ آتے ہیں تو ادھر ادھر کی
باتوں سے گزارا کرتے ہیں۔
اس موقع پر جو بات نواز شریف کی خوش آیند ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنے رفقاء
کو تلقین کی ہے کہ’ وہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر تحمل اور بردباری کا
مظاہرہ کریں، فیصلے کو کسی کے خلاف طعنہ زنی اور نیچا دکھانے کے لیے
استعمال نہیں کرنا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ ہماری نظر قومی اداروں اور
جمہوری استحکام پر ہونی چاہیے ، انہوں نے اپنی میڈیا ٹیم سے کہا کہ ان ہی
خطوط پر وہ ٹاک شوز میں اپنی بات اجاگر کریں، فیصلے کو سیاسی اختلافات یا
پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اﷲ کا شکر ادا کریں کہ یہ
ہمارے لیے بڑا اعزاز ہے‘۔ اس طرز عمل کو اختیار کرنے پر نواز شریف قابل
مبارک باد ہیں ، ورنہ ان کے وزیروں نے تو ایسے بھنگڑے ملک میں ڈالنا تھے،
ایسی ایسی گفتگو کرنا تھی کہ طویل عرصہ تک خوشی کا جشن ہی چلتا رہتا ۔ ایسا
دانشمندانہ فیصلہ کرکے انہوں نے اپنے بعض بد زبان وزرا کی امیدوں پر پانی
پھیر دیا۔ ہمارے پانی وبجلی کے وزیر شیر ِ نواز شریف جو عابد بھی ہیں سینہ
پھلاکر، منہ کو بگاڑ کر للکارتے دیکھا ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ تحریک
انصاف جھوٹی ہے ان کا کپتان جھوٹا ہے،جھوٹوں کا منہ کالا ہوا،اسی محکمے کے
بڑے وزیر جو پانی بجلی کے ساتھ ساتھ دفاع کا قلم دان بھی رکھتے ہیں بقول
کالم نگار عطا ء الحق قاسمی اس موقع پر پی ٹی آئی کو کچھ اس طرح للکارتے’
شرم کرو ، حیا کرو، غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے ‘۔وزیر اعظم نے وزیروں پر ہی
نہیں بلکہ بعض لکھاریوں کی خواہشات پر بھی پانی پھیر دیا جو آس لگائے بیٹھے
تھے کہ اس جشن پر اپنے قلم کو کپتان کے خلاف ایسا چلائیں گے کہ ُاسے چھٹی
کا دودھ یاد آجائے گا۔ بعض بعض لکھاری اب اپنے سابقہ کالموں سے اقتباسات
نقل کررہے ہیں کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ کپتان کے پیچھے کوئی سازش ہے، اس
کے دھرنوں کو کوئی فنڈنگ کررہا ہے، قادری صاحب کا ایجنڈا کچھ اور ہے وغیرہ
وغیرہ۔ سیاست میں الزامات کے سوا کچھ اور ہوتا ہی کیا ہے۔ وزیر تو صرف بیان
بازی ہی کرتے ہیں لکھاری تو بند کمرہ میں ایسی ایسی ٹیبل اسٹوری تیار کرکے
منظر عام پر لے آتے ہیں کہ جس کا کوئی سر نہ پیر۔ یہاں تک کہ غدار وطن قرار
دے ڈالتے ہیں۔دشمن ملک سے ایسا تعلق جوڑتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ
رپوڑٹر بھی اسی سیاست داں کے ساتھ ہی تھا۔ معاف کردینا بڑائی ہے، اس
سے آدمی کا قد بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا۔
وزیر اعظم نے قابل تعریف عمل کیا اور اس پر اپنے ساتھیوں کو بھی عمل کرنے
کی ہدایت کی تو دوسری جانب اس تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا موجب بننے والے
عمران خان نے بھی تدبر کا ثبوت دیا، کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں فیصلہ منظور ہے ۔ کیونکہ کمیشن کے آغاز ہی پر تحریک
انصاف کا موقف تھا کہ کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا وہ ہمیں منظور ہوگا‘۔ یہ
ان کا فوری ردِ عمل تھا جسے مثبت کہا جانا چاہیے۔ کمیشن کی رپورٹ کے تفصیلی
مطالعہ کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں اپنے موقف کا اظہار اس طرح کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ’ معافی مجھے نہیں میاں صاحب کو مانگنی چاہیے لیکن ہمیں
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم، اسمبلی قبول لیکن انتخابات میں دھاندلی ہوئی،
الیکشن کمیشن مستعفی ہو، کمیشن نے انتہائی محنت سے کاروائی چلائی مگر کام
ادھورا چھوڑدیا جس سے میرے خدشات بڑھے ہیں، میرے سوال وہیں کے وہیں رہ
گئے‘۔ کپتان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نئے پاکستان کی
طرف پہلا قدم ہے‘۔ویسے اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ وہ کمیشن
کی رپورٹ کو من وعن تسلیم کر لیں اورالزامات جو انہوں نے مختلف سیاسی لوگوں
پر لگائے اوروہ عدالت میں ان کا ثبوت پیش کرنے سے وہ قاصر رہے ان کی معزرت
اور معافی مانگنے میں شرم محسوس نہ کریں۔ 35پنکچر کے بارے میں تو وہ پہلے
ہی کہہ چکے ہیں کہ یہ انہوں نے یوں ہی سیاسی مصلحت کے تحت الزام لگا دیا
تھا، اسی طرح سابق چیف جسٹس افتخار چوہدھری اور جسٹس رمدے کے خلاف انہوں نے
جو باتیں کیں تھیں ، جو الزامات انہوں نے ان پر لگائے تھے ان کے بارے میں
انہوں کمیشن کو کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ انصاف کا تقاضہ اور سیاسی تدبر
کا مظاہرہ کرتے ہوئے کپتان کو ان سے بھی معزرت کر لینی چاہیے۔ کپتان نے
اپنے ساتھیوں کو اس حوالے سے کیا مشورہ دیا اس کا علم نہ ہوسکام یہی وجہ ہے
کہ وہ اپنے اپنے طور پر اپنا نقطہ نظر بیان کررہے ہیں۔ لیکن ان کے لہجے میں
نرمی آگئی ہے، بات کرتے ہیں تو خاموشی کے ساتھ، ایک نے کہا جن کا تعلق
کراچی سے ہے کہ دھاندلی تو ہوئی پر ہم کمیشن میں اپنا موقف درست انداز سے
پیش نہیں کرسکے ، ججیز کو کنوینس نہیں کرسکے۔
عمران خان اور نواز شریف کے مابین ہونے والی طویل سیاسی کشمکش جس میں علامہ
ڈاکٹر طاہر القادری بھی شامل باجا ہوئے مہینوں چلنے والی سیاسی رسہ کشی تھی
جس نے پاکستانی عوام کے اعصاب پر شدید دباؤ ڈالا ، ذہنی انتشار میں مبتلا
کیا، انہیں گزند پہچائی اور اذیت میں مبتلا کیا اپنے منطقی انجام کو پہنچی،
جس کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ یہ طویل سیا سی عمل
ہمیں کیا سبق دیتا ہے یا ہم اس فضول سیاسی رشہ کشی سے کچھ سبق سیکھیں گے یا
نہیں۔ سیاست دانوں کو سنجیدگی کے ساتھ، تدبر کے ساتھ، پاکستانی عوام کی
خاطر آئندہ کسی بھی ایسے سیاسی ایشو کو بلندی پر لے جانے سے پہلے اس کے
تمام تر پہلوؤں پر اچھی طرح سوچ بچار کرلینا چاہیے۔ مخالفت برائے مخالفت
کوئی اچھی چیز نہیں۔ اﷲ کرے ہمارے سیاست دان ہوش کے ناخن لیں، ملک اور قوم
کی فکر کریں، ذاتی مفادات کی سیاست سے بعض رہیں۔ مخالفت میں اتنے آگے نہ
نکل جائیں کہ واپسی مشکل ہوجائے۔ھَزِیمَت اٹھانا پڑے، شرمندگی سے دوچار
ہونا پڑے، نگاہیں نیچی ہوجائیں، گفتگو میں الفاظ ساتھ چھوڑ دیں، کہنا کچھ
چاہیں زبان سے کچھ
نکل جائے۔ المختصر اعتدال کا راستہ بہت سے پریشانیوں سے بچائے رکھتا ہے۔
سیاست کرنی ہے ضرور کریں لیکن سیاست میں شرافت، ادب، لحاظ، ملک و قوم کا
مفاد مقدم ہو۔ یعنی سب سے پہلے پاکستان اور اس کے عوام پھر کوئی اوربات ۔ (
28جولائی2015) |
|