ڈیموں کی تعمیر سے متعلق لوگوں میں شعورعام ہو جائے
تو عین ممکن ہے کہ مفاد پر ست اس پر سیا ست نہیں کرسکیں گے
قدرت کی عطاکردہ عقل سے انسان نے ایسے کارنامے سرانجام دیے ہیں کہ وہ خود
بھی اکثر ان پر دنگ رہ جاتا ہے ایسا ہی ایک کارنامہ ڈیموں کی تعمیر ہے قو
می ضروریات کے پیش نظر پانی ذخیر ہ کرنے کا یہ مناسب بندو بست بجلی کی
ضرورت بھی پور ا کرتا ہے اور ساتھ میں زرعی شعبہ میں بھی بہت مفید ہے ڈیم
بنا نے کی تاریخ بہت پرانی ہے بیشتر ممالک نے ڈیم بنا کر تر قی حاصل کی امر
یکہ کی مثال لی جائے تو یہاں 1930ء کی دہائی میں بننے والے ہوور ڈیم نے ملک
کی معیشت میں مضبوطی کے لیے اہم کردار ادا کیا تھایہ ایسا ڈیم ہے جس نے
سیلاب کا سبب بننے والے دریا پر کنٹرول حاصل کیا اور امر یکہ کی جنوب مغربی
ریاستوں کے لیے بجلی کی پیداوار شروع کردی ہوور ڈیم کی او نچائی بہت زیادہ
ہے یہ ڈیم فن تعمیر کے حوالے سے انجیئرنگ کے شعبہ کا ایک شاہگار مانا جاتا
ہے کہا جاتاہے کہ اس ڈیم کی تعمیر میں بہت زیادہ کنکریٹ استعمال ہواتھا یہ
اتنا زیادہ میٹریل تھا کہ اس سے ایک طویل سڑک تعمیر کی جاسکتی ہے اس قدر
پچیدہ اور مشکل ڈیم بھی اپنے مقررہ وقت سے دو سال قبل تیار ہو گیا تھا
۔ڈیمز ممالک کے لیے اقتصادی طورپر بہت مفید ہوتے ہیں یہ بہت خوشحالی کا
ضامن قرار دیتے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق2040 ء تک دنیا بھر میں بجلی کے
استعمال میں 50فیصد سے زائد اضافے کی توقع ہے بجلی کے حصول کے لیے جہاں
دیگر کار آمد ذریعوں سے مدد لی جار ہی ہے وہاں سب سے سستا اور موثر ذریعہ
پن بجلی ہی کو سمجھا جارہا ہے ڈیموں کے ذریعے پیداہونے والی بجلی نہ صرف
سستی ہوتی ہے بلکہ یہ زیادہ مقدار میں بھی حاصل کی جاسکتی ہے وائس آف امر
یکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پن بجلی پیداکرنے اوراس کااستعمال کرنے والے
ممالک میں ویت نام اورلاؤ س مثالی ہیں یہ ممالک ڈیموں سے نہ صرف بجلی
پیداکررہے ہیں بلکہ کئی ممالک کو برآمد بھی کررہے ہیں وہا ں ڈیمز صنعت کا
درجہ اختیار کرچکے ہیں چین ، امر یکہ ، بھارت ، برازیل اور بہت سے دوسرے
ممالک ڈیموں کی تعمیر پر بھر پور توجہ کیے ہوئے ہیں یہ ڈیم ہی ہیں جو ان
ممالک کی معیشت میں اضافے اور بجلی کی پیداوار میں اپنا کردار ادا کررہے
ہیں جب کسی ملک کو بجلی اور پانی کی پیداوار کے سلسلے میں ایمر جنسی کا
سامنا ہوتو پھر ڈیم بنا نے کے حوالے سے جلدی اختیار کرنی چاہیے پانی ہر ملک
و قوم کے لیے زندگی کی علامت ہے اور ڈیم پانی ذخیر ہ کرنے اور اس بنیادی
ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اہم ہیں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہر ملک کو ڈیم
کی ضرور ت ہوتی ہے اس پانی سے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ کاشتکار ی کے کام
میں بھی لایا جاتا ہے پاکستان میں ڈیموں کی بر وقت تکمیل نہ ہونے سے مسائل
میں اضافہ ہورہا ہے اگر پاکستان میں پانی کے مسئلے کو فور ی طورپر حل نہ
کیا گیا تو مستقبل میں پاکستا ن کے بڑے مسائل میں سر فہرست پانی کامسئلہ ہی
ہوگا ہمار ی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اہم معاملات کو بھی سیاست ، بحث ،
مباحثہ اورتنا زعات کی نظر کر دیا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قومی منصوبے فرد
واحد کے لیے نہیں ہوتے بلکہ ان سے پور ی قوم کو فائدہ ہوتا ہے بہت سے ایسے
ڈیم ہیں جن کی تعمیر پر کسی کو اعتراض نہیں ہے مگر پھر بھی ان کی تعمیر میں
بھی سستی اور غفلت سے کا م لیا گیا حکومت کو چاہیے کہ تمام صوبوں کے تکنیکی
ماہر ین کی ایک ایسی ٹیم تشکیل دے جو ہر صوبے میں جہاں ممکن ہو چھوٹے بڑے
ڈیم بنا نے کے متعلق مشورے بھی فراہم کرے اور اس حوالے سے مو جو د رکاوٹوں
کو دورکرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرے عام پاکستانیوں کو ڈیموں کی اہمیت
اور افادیت سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ بجلی اور
پانی کی محرومی زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرکے ہی دورکی جاسکتی ہے ۔اس وقت
دنیا کے کئی ممالک پانی کی کمی کا شکار ہیں اور بھارت خود بھی اس کمی کا
شکار ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ملکوں کا پانی روکا جائے
اور پاکستان تو موسمی تغیر و تبدل کابھی شکار ہے ویسے بھی جغرافیائی طورپر
پاکستان کا زیادہ تر علاقہ صحرائی اور نیم صحرائی ہے ہمار ا پانی کا زیادہ
تر انحصار گلیشئرز کی بر ف پگھلنے سے دریاؤں کے پانی پر ہے تو یہ کسی طرح
بین الاقوامی اخلاقیات کے مطابق نہیں کہ کسی ملک کا پانی روکا جائے اور وہ
بھی جب معاہدہ موجو د لیکن بھارت پورے دھڑلے سے ایسا کررہاہے سندھ ، جہلم
اور چناب پر نہ صرف ڈیم بنارہاہے بلکہ پانی کا رخ موڑ کر اسے اپنے ملک کی
زراعت میں استعمال کررہاہے جبکہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے وہ ایسا کرنے کا
مجاز نہیں ہے۔ پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن پراعتراضات کرتے ہوئے
بھارت سے دریاؤں پر ڈیمو ں کا ریکارڈ مانگ لیا ہے پاکستان انڈس واٹر کمشز
کا کہنا ہے کہ بھارت نے پہلے کی طرح اس بار پھر بارشوں اور سیلابوں کے پانی
کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی تنازعات حل کرنے
کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پا یا تھا جس کے تحت دریا ئے راوی اور ستلج کے
پانی کا اختیار بھارت کو دے دیا گیا تھا جبکہ دریا ئے چناب اور جہلم پر
پاکستان کے حق کو تسلیم کیا گیا گزشتہ چند سالوں سے بھارت پاکستان میں پانی
کا بحران پیدا کرنے کے لیے دریا ئے چناب اور جہلم پر آبی ذخائر تعمیر کرنے
کے منصوبے بنا رہا ہے پاکستان کئی باران منصوبوں پر اعتراضات کر چکا ہے
لیکن بھارت پاکستانی اعتراضات کو کبھی خاطر میں نہیں لایا وہ بڑی تیزی سے
کشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا ہے ۔پاکستا ن نے بھارت سے کئی بارمطالبہ کیا ہے
کہ کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کی جائے تاکہ پاکستان میں پانی کا
بحران جنم نہ لے پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا
خلاف ورزی ہے لیکن بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے ایسا کر نے پر راضی
نہیں ہورہا۔پاکستان زرعی ملک ہے اس کی زراعت کا بڑا انحصار دریائے جہلم ،
دریا ئے چنا ب پر ہے ۔بھارت کو آبی ذخائر تعمیر کر لینے سے ان دریا ؤں پر
مکمل کنٹرول حاصل ہو جائے گا اوروہ جب چاہے گا پاکستان کا پانی روک کرہمارے
لئے مسائل پیدا کردے گا۔ بھارت ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں
پانی کا بحر ان پیداکررہاہے تاکہ پاکستان کی زراعت کو تباہ کیا جاسکے پانی
کے بحر ان کے باعث پہلے ہی پاکستان شدید مسائل کا شکارہے اس کی لاکھو ں
ایکڑ زمین بنجر ہو رہی ہے جس سے اس کی زراعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے
پاکستانی صوبوں کے درمیان پانی کے مسئلے پر پہلے ہی تنا زعات مو جو د ہیں
اگر بھا رتی ڈیموں کے باعث پانی میں مزید کمی ہوتی ہے تو ان تنازعات میں
مزید اضافہ ہو جائے گا ۔شریر بھارت کی بھی یہی سازش ہے کہ پاکستانی صوبوں
کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہو جس سے ملکی سا لمیت اور یک جہتی کو نقصان
پہنچے اگر اس نتیجے میں پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے اس
کا صنعتی شعبہ بھی شد ید متاثر ہوگا بجلی کا بحران شدید سے شدید تر ہو تا
چلا جائے گا۔ اس طرح پاکستان معاشی لحاظ سے اتنا کمزور ملک ہو جائے گا کہ
وہ کسی بھی میدان میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکے گا ان حالا ت کے تناظر
میں حکومت پاکستا ن کو اس مسئلے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے اور فوری طور
پر عالمی عدالت سے رجو ع کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر نی چاہیے اور
بھارت پر بھر پور دباؤ ڈالا جائے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی کے مسائل پیدا
نہ کرے ۔پاکستا ن میں آب پاشی اور بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بہت سے
نئے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق لوگوں میں شعورو آگہی
عام ہو جائے تو عین ممکن ہے کہ مفاد پر ست لوگ اس حوالے سے سیا ست نہیں
کرسکیں گے سند ھ کو دیکھا جائے تو یہا ں کبھی سیلاب آتے ہیں اور کبھی تھر
پار میں قحط کا سامنا ہوتا ہے یہ سب آبی بد انتظامی اور پانی کامو ثر
استعمال نہ ہونے کی وجہ سے ہے مو جو دہ حکومت اور سپہ سالار جنرل راحیل
شریف سے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ڈیمو ں کی افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے
اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ ملک بھر تمام صوبوں میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی
تعمیر کو یقینی بنایا جا سکے۔ |