کون کررہاہے پھانسی پرسیاست؟
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEW DELHI)
یعقوب میمن کی سپریم کورٹ میں8
نظرثانی کی درخواست مستردکئے جانے سے قبل ہی بی جے پی سرکار پھانسی کا
پھنداتیارکرچکی ہے۔فیصلہ بعدمیں آیالیکن ڈیتھ وارنٹ پہلے ہی جاری
کردیاگیا۔میمن نے اس ڈیتھ وارنٹ کوبنیادبناکرسپریم کورٹ میں سزائے موت
کوچیلنج کیاہے۔دیکھنایہ ہے کہ کیاعدالت سرکاری فیصلہ سناتی ہے یاجمہوریت
اورعدالتی نظام میں عوام کااعتمادباقی رکھتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی قابل توجہ
ہے کہ یعقوب میمن کوجس الزام کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی ہے وہی الزام
اس کے ہندوپارٹنر پھول چندرپرہے لیکن وہ ضمانت پررہاہے۔ عدالت اس پرنوٹس
لیتی ہے یانہیں۔اب تو291افرادجن میں خودبی جے پی کے سنیئرلیڈررام جیٹھ
ملانی اورشتروگھن سنہاشامل ہیں،نیزمعروف وکیل پرشانت بھوشن ،کانگریسی
لیڈرراج ببراورمنی شنکرایئر،سپریم کورٹ کے سابق جج بیدی جیسی معروف شخصیات
بھی شامل ہیں،نے صدرجمہوریہ سے سزائے موت کوعمرقیدمیں بدلنے کی درخواست کی
ہے ،جسٹس کاٹجونے تویہاں تک کہہ دیاہے کہ یعقوب میمن کوسزائے موت کافیصلہ
انصاف کامذاق ہے۔ لیکن اب انتظاراس بات کاہے کہ اویسی،اعظم خان اورابوعاصم
اعظمی کوملک دشمن قراردینے والے انصاف دشمن عناصران اہم شخصیات کے خلاف
کیاقدم اٹھائیں گے۔اس کے علاوہ راکے سابق افسرنے بھی یعقوب کی سزائے موت کی
مخالفت کی تھی،کیاانہیں غداروطن قراردیاجائے گا؟۔ہندومہاسبھانے اویسی کے
سرپردس لاکھ روپئے کے انعام کااعلان کیاہے،آخران دوسواکیانوے افراداورجسٹس
کاٹجوکے خلاف وہ کیاایکشن لیں گے ؟۔
حیرت ناک بات تویہ ہے بھلرکوپنجاب جیل منتقل کردیاگیاہے جہاں خبروں کے
مطابق جیل میں بی جے پی کی اتحادی جماعت اکالی دل اس کی خوب خوب ضیافت بھی
کررہی ہے۔اس کے علاوہ راجیوگاندھی کے قاتلوں کی حمایت میں تمل ناڈوکی جے
للیتاحکومت نے تجویزمنظورکی اوروہ ان قاتلوں کورہاکرنے کوبھی بے تاب ہے
لیکن آخرجے للیتااورپرکاش سنگھ بادل حکومت کوکوئی دہشت گردکیوں نہیں
کہتا،کیادہشت گردوں کی حمایت کے لئے ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلناچاہئے۔
یعقو ب کی پھانسی کے فیصلہ اوراس پرحکومت کی دلچسپی کامنظراورپس
منظرسبرامنیم سوامی کے بیان سے سمجھاجاسکتاہے،جنہوں نے کل کہاہے کہ اب تک
170افرادمیں سے صرف پندرہ مسلمانوں کوہی پھانسی دی گئی ہے لہٰذایعقوب کی
سزائے موت ضروری ہے،سبرامنیم سوامی گویااس بات کااعتراف کررہے ہیں کہ ملک
دشمن عناصرمیں غیرمسلم مجرموں کی تعداد زیادہ ہے؟۔سوامی جی کیااویسی سے الگ
کوئی بات کررہے ہیں؟۔مہاتماگاندھی،راجیوگاندھی،اندراگاندھی کے قتل،سمجھوتہ
ایکسپریس،مالیگاؤں بم بلاسٹ،گجرات فسادات جیسے واقعات کے لئے مجرم کون ہیں
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔چلئے دیرسے ہی سہی سوامی جی نے اعتراف کرلیاہے
کہ دہشت گردعناصرمیں ان کی قوم کافیصدکتناہے؟۔اس سے یہ تصویربہت حدتک صاف
ہوگئی ہے کہ پھانسی پرسیاست کون کررہاہے اورکیوں کی جاری ہے؟۔
جمہوری حکومتوں میں عدلیہ کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ دستورکی محافظ ہوتی ہے۔
جمہوریت کوناپنے کاایک اہم پیمانہ یہ ہے کہ عدالتوں کارویہ سیاست سے الگ رہ
کرکتنامنصفانہ ہے۔اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ عدلیہ انتظامیہ اورحکومت کے
اثرسے بالکل آزادہو۔ یہ سوال قابل توجہ ضرور ہے کہ قطارمیں لگے دوسرے مذاہب
کے مجرمین کی سزائے موت میں تبدیلی اوران سے چشم پوشی کیاانصاف کاخون نہیں
ہے؟۔نٹھاری کیس میں عدالت کاجذبہ رحم کیوں جاگ گیا؟۔پارلیمنٹ پرحملہ اوربم
دھماکے جس طرح سنگین جرائم ہیں،اسی طرح وزیراعظم اوروزیراعلیٰ جوآئینی
عہدوں پرفائزہوتے ہیں،ان کاقتل بھی اس سے کم نہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ سے قبل تک یہ بات کہی جارہی تھی کہ ابھی تک عدالتوں
کابھگواکرن نہیں ہوسکاہے گرچہ اس کی کوششیں کالجیم سسٹم کوتحلیل کرکے
عدالتی تقرری کمیشن قائم کرنے کے ساتھ ہی شروع ہوچکی ہے۔یہ بتانے کی ضرورت
نہیں ہے کہ اب اس کمیشن کے ذریعہ کون لوگ عدلیہ پہونچائے جائیں گے۔ سوال
یہاں کسی کوپھانسی دینے کانہیں ہے بلکہ اگرکسی نے جرم کیاہوتواسلام خودقصاص
کاحکم دیتاہے اوراس کاواضح حکم ہے کہ’ جان کے بدلے جان‘آنکھ کے بدلے
آنکھ،یہاں تک کہ دانت کے بدلہ دانت بھی۔اوراگرکوئی نظام حکومت یاعدالتی
سسٹم اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتاتواسلام کی نظرمیں وہ ظالم ہے۔اسلام کے
فطری اصولوں کے مطابق جرم جس نوعیت کاہو،سزابھی ویسی ہی ہونی چاہئے
۔اورہرمجرم کوسزادیناانصاف کاعین تقاضابھی ہے تاکہ کسی کوپھریہ جرم کرنے کی
ہمت ہی نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں اسلامی اصول پرسختی سے عمل ہوتاہے
وہاں جرائم کے اعدادوشماربہت کم ہیں ۔لیکن عالمی تنظیموں کے انصاف
کادوہراپیمانہ اس وقت سامنے آتاہے جب کسی مسلم ملک میں سزائے موت ہوتی ہے
تواقوام متحدہ ،بین الاقوامی حقوق انسانی کونسل سمیت تنظیمیں اس سزاکی
مخالفت کرتی ہیں۔اوراسے بربریت سے تعبیرکرتی ہیں لیکن جب یہی کچھ بنگلہ دیش
میں ہوتاہے،مصرکی عدالت، انصاف پسندمرسی اوراخوان المسلمین کے رہنماؤں
کوسزائے موت سناتی ہے،ہندوستان میں افضل گروکوپھانسی کے پھندوں
پرلٹکایاجاتاہے توانسانی ہمدردی کادم بھرنے والی یہ تنظیمیں کہاں چلی جاتی
ہیں،ان کاپیمانہ کیوں بدل جاتاہے؟۔ہمارایہ بھی مانناہے کہ جرم کی سزامجرم
کوضرورملنی چاہئے لیکن انصاف کے محافظوں سے یہ امیدبھی کی جاتی ہے کہ وہ
دوہرامعیارنہ اپنائیں۔حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایاہے کہ جن
مجرموں کو عمرقیدکی سزاسنائی گئی ہے،کچھ شرطوں کے ساتھ ریاستی حکومتیں
انہیں آزادکرسکتی ہیں۔اندازہ لگایاجاناکوئی مشکل نہیں ہے کہ اب کون لوگ
رہاکئے جائیں گے؟۔
اس کے علاوہ راجیوگاندھی کے قاتل اوربھلرکی سزائے موت عدالت نے اس لئے
تبدیل کردی ہے کہ موت کے انتظارمیں انہیں طویل وقت تک ذہنی کوفت اورمصیبت
میں مبتلارہناپڑاہے۔سوال یہ ہے کہ عدالت کایہ قانون مسلم مجرموں کے سامنے
کہاں چلاجاتاہے ، پھرممبئی بم دھماکہ جس کاردعمل تھا(اورواضح ہوکہ ایکشن
کا،ری ایکشن جائزہے،جیساکہ اس وقت کے وزیراعلیٰ اورابھی کے وزیراعظم
نریندرمودی نے گجرات فسادات کاجوازگودھراکے مبینہ واقعہ کاردعمل قراردے
کرڈھونڈھ نکالاتھاتوپھروہ سکھ فسادات پرجھوٹے آنسوکیوں بہارہے ہیں؟۔)یعنی
ممبئی فسادات جن پرسری کرشناکمیشن نے واضح رپورٹ دی ہے ،جس کے مطابق مجرم
قراردیئے گئے افرادآج آزادگھوم رہے ہیں،اس رپورٹ پرعدالت عظمیٰ نے نوٹس
کیوں نہیں لیا،مسلم جماعتوں کوچاہئے کہ وہ عدالت میں اس پرنوٹس لینے کے لئے
درخواست دائرکریں۔
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم آنجہانی راجیوگاندھی کے تین قاتل استھن، مرگن
اور پیراریولن کی سزائے موت کو عمرقیدمیں یہ کہہ کرتبدیل کردیا کہ انہیں
موت کے انتظارمیں کافی مصیبت جھیلنی پڑی ہے ۔یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے کہ
افضل کو پھانسی ثبوت اورحقائق کی بنیادپرنہیں،ملک کے اجتماعی ضمیرکومطمئن
کرنے کے لئے دی گئی ۔جب کہ عدلیہ سے یہ امیدکی جا تی ہے کہ وہ ضمیرکی بنیاد
پر نہیں، ثبوتوں کی بنیادپرفیصلہ کرے۔کہیں یعقوب میمن کوبھی پھانسی آرایس
ایس کے جذبہ کی تسکین کے لئے تونہیں دی جارہی ہے۔اگریہی ضمیر کومطمئن
کرناسزاکے لئے پیمانہ ہے توبابری مسجدکی شہادت کے بعدپورے ہندوستان میں
خونریزی کے درندوں،گجرات فسادات کے قصورواروں،مہاراشٹرمیں مسلمانوں کی منظم
نسل کشی کے مجرموں کوپھانسی پرچڑھاکرملک کی سیکولراکثریت کااجتماعی
ضمیرمطمئن ضرورہوجائے گا۔پھرکیاراجیوگاندھی قتل کیس میں مجرموں کی سزائے
موت کوتبدیل کرکے سابق وزیراعظم کی روح مطمئن ہوئی ہے یابے قرار،اس پربھی
عدالت کوپھرسے غورکرناچاہئے۔
اگرسزائے مو ت پربھی سیاست ہونے لگے،جیساکہ ہورہی ہے اورپھانسی کے پھندوں
تک سیاست کی رسائی ہوجائے تو اس سے بڑھ کرباعث شرم بات اورکیاہوسکتی
ہے۔یہاں مجرموں سے کوئی ہمدردی مقصودہے اورنہ کسی طرح کی طرفداری،اگرکسی نے
کوئی جرم کیاہے توسزاضرورملنی چاہئے یہاں یہ آئینہ دکھانامقصدہے کہ ایک طرف
دوسرے مجرموں کی سزا،موت کے انتظارمیں طویل ذہنی کوفت کودلیل بناکربدل دی
جاتی ہے۔لیکن مسلم مجرموں کے معاملہ میں اس کایہ پیمانہ بدل جاتاہے ۔آخریہ
فرق کیوں؟۔اس کے علاوہ 244مجرم پھانسی کے انتظارمیں ہیں لیکن ان سب
کودرکنارکرکے آخریعقوب کوہی پھانسی کی جلدی کیوں؟۔
یہ بھی کتنی حیرت ناک بات ہے کہ سیکولرزم کادم بھرنے والی پارٹیوں کوسانپ
سونگھ گیاہے ،آئین کی دہائی دینے والے لیڈران آج کہاں ہیں،دراصل کانگریس کے
ہاتھ توخوداس جرم میں رنگے ہوئے ہیں، بی جے پی سے آگے بڑھ جانے اورالیکشن
میں فائدہ اٹھانے کیلئے (کانگریس کی اتحادی پارٹی نیشنل کانفرنس اس
کااعتراف کرچکی ہے)افضل گروکے معاملہ میں جس طرح غیراخلاقی رویہ
اپنایاتھا،وہ کم مضحکہ خیزنہیں تھا۔یہی نہیں جمہوریت کی روح پرحملہ کرنے
والے اور وزیراعظم راجیوگاندھی کے قاتلوں کی سزائے موت کی مخالفت کرنے
پرسابقہ کانگریسی حکومت نے جے للیتاکے خلاف دیش دورہی کامقدمہ انتخابی
مفادکے لئے داخل نہیں کیا۔اسی طرح حیرت اس پربھی ہوتی ہے کہ عدالت عالیہ نے
بھی جے للیتاکے خلاف دہشت گردوں کی ہمدردی پراس نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔
سیاست یاسیاست میں پھانسی کوسنجیدگی سے لیناضروری ہے ،سزائے موت کوسیاسی
موضوع نہ بننے دیاجائے۔ہمارامطالبہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کے قاتلوں
کوپھانسی کے پھندوں تک پہونچاکرہی ملک کااجتماعی ضمیرمطمئن ہوگا،عدالت
کاوقاربحال ہوسکے گا۔قابل توجہ پہلویہ بھی ہے کہ کانگریس اورراجدجدیوجیسی
نام نہادسیکولرپارٹیاں بھی اس مسئلہ پرخاموش ہیں،ان کاسیکولرزم آخرکہاں
چلاگیاہے،خیرکانگریس کے پاس اعتراض کامنہ بھی نہیں ہے،اس کے دامن پراس سے
بھی بھدے داغ لگے ہیں۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ بہارمیں اسمبلی انتخابات قریب ہیں،بی جے پی انتخابی
فائدہ اٹھانے کے لئے یہ سب کررہی ہے جس طرح کانگریس حکومت نے ساری گھنونی
حرکتیں کرڈالی تھیں،نیزبی جے پی پربدعنوانی کابھوت پڑگیاہے،ویاپم،للت
گیٹ،آبی گھوٹالہ،ڈگری تنازعہ ان تمام بدعنوانیوں پرپردہ ڈالنے اورملک کاذہن
دوسری طرف منتقل کرنے کے لئے یہ سب کیاجارہاہے،کیونکہ گھوٹالوں اورگھپلوں
پرکانگریس حکومت کوبھرمنہ کوسنے والے نریندرمودی کے پاس اب ان الزامات
کاکوئی جواب نہیں ہے ۔بی جے پی لیڈرصحیح کہہ رہے ہیں کہ پھانسی پرسیاست
ہورہی ہے ،ان کی بات صدفیصددرست ہے کہ حکومت انتخابی فائدہ اٹھانے کے لئے
سزائے موت دیناچاہتی ہے ،ملک کی سلامتی کے ساتھ بھی بھونڈامذاق کررہی ہے
اورسزائے موت پربھی اس کادوہراکرداراورفرقہ پرستی پرمبنی ایجنڈابے نقاب
ہوچکاہے۔ |
|