سکون

دنیا کی ہر قوم کا بھلے اپنے اطوار،کلچر ز ،مذاہب،خطے،رہائش ، سٹیٹس اور سٹینڈرڈ کو مد نظر رکھ کر زندگی گزارنے کا الگ الگ طریقہ ہو لیکن سب انسانوں میں کامن بات یہ ہے کہ انہیں چوبیس گھنٹوں میں کم از کم پانچ سے سات گھنٹے سکون چاہئے اور سکون ہر انسان کو صرف نیند مہیا کرتی ہے،دن بھر کام کرنے والے رات میں اور رات گئے کام کرنے والے انسان دن میں چند گھنٹے آنکھیں موند کر پر سکون ہو جاتے ہیں لیکن اگر ایک گھر میں ایک یا زائد بچے ہوں تو ہر انسان کی نیند میں خلل پڑتا ہے موضوع انسان نہیں بلکہ والدین اور کئی بچوں کو رات گئے نیند نہ آنا اور والدین کا رد عمل ہے،اکثر والدین اس وقت پریشانی سے دوچار ہوتے جب بچے رات گئے تک سوتے نہیں انہیں لاکھ لوریاں ، گیت یا کچھ بھی سنائیں ہزاروں جتن کرنے کے بعد بھی انہیں نیند نہیں آتی پل پل کروٹ بدلتے ہیں اور ان لمحات میں والدین شدید الجھن اور شش و پنج کا شکار ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنی نیند ،سکون اور تھکاوٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس وقت تک جاگتے رہتے ہیں جب تک ان کا بچہ نیند کی آغوش میں نہ چلا جائے،والدین کے فرائض میں صرف بچوں کی غذا ،تعلیم و تربیت، آسائشیں ہی نہیں بلکہ بچوں کی پرسکون نیند بھی فرائض میں شامل ہے۔ماہرین کا کہنا ہے اکثر بچوں کی جسمانی نِشو نما نیند کے مسائل پیدا کرتی ہے علاوہ ازیں دیگر کئی وجوہات مثلاً اگر والدین کسی مسئلے سے پریشان ہیں تو ایک خاص عمر کے بچے محسوس کرتے اور والدین کی گفتگو ،حرکات و سکنات اور رد عمل کو ذہن میں بٹھا لینے سے الجھن اور تذبذب کا شکار ہونے کے باعث نیند سے محروم رہتے ہیں،چھ ماہ کے بچے کو نیند نہ آنا والدین کی عدم توجہ نہیں بلکہ دیگر وجوہات ہوتی ہیں مثلاً پیٹ میں درد یا کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہونا، تین سالہ بچے کی نیند کو بے بی کے نیند نہ آنے سے منسلک نہیں کیا جا سکتااور ایک آٹھ یا نو سالہ پرائمری سکول کے بچے کا رات گئے جاگتے رہنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً ہوم ورک یا والدین میں کشیدگی وغیرہ ،بچوں کا دیر تک جاگنا یا مقررہ وقت پر نیند نہ آنا کوئی بیماری نہیں کہ ادویہ کا سہارا لیا جائے بلکہ والدین کی توجہ ہی بچوں کی نیند میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔بچوں کی نیند پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے والدین کے لئے سب سے اہم اور مشکل ترین امتحان بچوں سے علیحدگی ہوتا ہے دنیا کا کوئی ماں باپ نہیں چاہتا کہ اسکے معصوم بچے ان کی آنکھوں سے ایک لمحے کیلئے بھی اوجھل ہوں لیکن بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا واحد حل یا ذریعہ چند گھنٹوں کی علیحدگی ضروری ہے اور چند گھنٹوں کی اس دوری کی ابتدا دل تھام کر اپنے گھر کی چار دیواری سے ہوتی ہے بچوں کی ایک خاص عمر میں پہنچنے کے بعد والدین سے علیحدگی اہم ہے اس پر عمل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ جب تک والدین چند گھنٹے اپنے بچوں سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے ان کے اندر خود مختاری اور خود اعتمادی پیدا نہیں ہو گی یہ عمل رات کے چند گھنٹوں کا ہوتا ہے انہیں چند گھنٹوں میں بچے اپنے ذہن کو اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ ہم اکیلے نہیں بلکہ ہمارے والدین ہمارے ساتھ ہیں اور یہ دوری یا علیحدگی محض چند گھنٹوں کی ہے،والدین کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ بچوں کو دیگر معاملات کے علاوہ اس بات پر بھی آمادہ کریں کہ رات کو بھلے ہم علیحدہ ہونگے لیکن صبح دوبارہ ملاقات ہو گی اور یوں ایک روٹین بن جاتی ہے۔ہر انسان رات کے کسی پہر کچھ سیکنڈ کیلئے آنکھیں کھولتا ہے غنودگی کے عالم میں پلک جھپکتے دوبارہ نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے لیکن کئی بچے اکثر رات کو ایک بار جاگنے کے بعد دوبارہ نہیں سوتے یا نیم غنودگی میں رات گزر جاتی ہے لیکن ان کاجاگنا والدین کیلئے کسی پریشانی سے کم نہیں ہوتا بے سکونی اس وقت بڑھتی ہے جب کوئی معصوم بتا نہ سکے کہ اسے کیا تکلیف ہے مغربی ممالک میں دن رات ہوسپیٹل اور کلینکس کھلے رہتے ہیں اور بالخصوص بچوں کے معاملات میں تمام عملہ تندہی اور چابک دستی سے اپنا فرض ادا کرتا ہے لیکن کئی ممالک میں بچوں کی اموات غیر ذمہ دار عملے یا ڈاکٹر ز کی لاپرواہی سے ہوتی ہیں،ماہرین کا کہنا ہے اگر والدین بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی باور کروانا شروع کردیں تو ایک عمر تک پہنچنے پر کئی معاملات سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے،بچے اکثر رات کو خواب میں خوف زدہ بھی ہو جانے پر جاگ اٹھتے ہیں دیکھا جائے تو ایک بالغ انسان بھی کبھی خواب میں اتنا خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کئی گھنٹے تک دماغ سے خواب کا نظارہ زائل نہیں ہوتا تو ایک معصوم کے ذہن سے کسی خوف کو نکالنا بہت مشکل ہے،تاہم والدین کا اولین فرض ہے کسی بھی حالت میں روتے ہوئے بچے کو اکیلا نہ رہنے دیا جائے انہیں دلاسا اور تسلی دی جائے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اس وقت تک ان کے قریب رہا جائے جب تک وہ گہری نیند کی آغوش میں نہ چلے جائیں، بچوں کو نیند نہ آنے کی دیگر ممکنہ وجوہات یہ بھی ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہے، والدین میں جاری کشیدگی یا علیحدگی ہو چکی ہو،کسی نئے مقام یا نئی رہائش، کسی اجنبی کے گھریا گھر کا کوئی فرد شدید بیماری میں مبتلا ہے یا کسی قسم کا خوف طاری ہو جائے اس قسم کے معاملات میں اکثر بچوں کو یا تو نیند نہیں آتی اور اگر سو جائیں تو ذہن میں کھلبلی مچی رہنے کے سبب رات کو کئی بار جاگ جاتے ہیں علاوہ ازیں کئی بچوں میں نیند کی محرومی کا سبب والدین کی ناتجربہ کاری ، غیر منصفانہ رویہ اور تربیت بھی بچوں کی نیند اور صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے زندگی کے پہلے سال میں ہر بچہ دنیا دیکھتا ،محسوس کرتا اور سیکھنے کی کوشش کرتا ہے ، اپنی آنکھوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے اور ہر شے کوچھونے و پہچاننے کی کوشش کرتا ہے اور یہ ہی وہ لمحات ہوتے ہیں جہاں والدین کو دلجمعی اور خاص توجہ مرکوز کرکے انکی پرورش کرنی چاہئے،بچوں کی ہر نئی ترقی پر والدین کو خوش ہونا چاہئے خیر مقدم کرنا چاہئے ان لمحات میں والدین کا فرض ہوتا ہے کہ بچوں کو چوٹ لگنے سے بچائیں اور ہر خطرے سے آگاہ کرتا رہیں،بچے والدین کی زبان ، حرکات اور اشاروں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں انہیں مزید مستحکم بنایا جائے عمر کے ساتھ ساتھ جیسے کہ آغاز میں تحریر کیا ہے کہ سٹیٹس اور سٹینڈرڈ پر منحصر ہے کہ بچہ کس مقام پر پرورش پا رہا ہے بچوں کو علیحدہ بیڈ اور کمرہ مہیا کیا جائے اور ذہن نشین کروایا جائے کہ یہ آپ کا بیڈ اور کمرہ ہے آپ یہاں سوئیں گے ،بچے والدین کی بات کو ذہن میں بٹھا لیتے ہیں اور مطمئن ہو کر سو جاتے ہیں ،اہم بات یہ ہے کہ بچہ اپنے بیڈ میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے اگر رات کے کسی پہر جاگ جائے تو تھپکی دے کر سلانے کی کوشش کی جائے نہ کہ اپنے بیڈ پر سلایا جائے بیڈٹرانسفر سے بچے میں استحکام پیدا نہیں ہوتا اور عادت بنا لیتا ہے کہ نیند نہ آنے کی صورت میں والدین کے ساتھ سوئے گا،علاوہ ازیں بچوں کے سونے کا وقت مقرر کرنا اشد ضروری ہے،بچوں کا خوف دور کرنے کیلئے انہیں پیار محبت سے سمجھایا جانے کے علاوہ پریکٹیکل بھی اہم ہے محض باتوں یا فضول قسم کے آرگومنٹس دینے کی بجائے ٹھوس الفاظ میں سنجیدگی سے گھر کا کونا کونا دکھا دینالازمی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہم ہیں ناں۔ کئی بچوں کو اپنے پسندیدہ کھلونوں کے ساتھ مثلاً گاڑی، ٹیڈی بئیر یا گڑیا کے ساتھ سونے کی عادت ہوتی ہے ان کے ذہنوں میں ان کھلونوں کے علاوہ کوئی ساتھی نہیں ہوتا وہ ان کھلونوں کو اپنی نظروں اور تخیل میں ایک فینٹازی اور جادو کے روپ میں دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں انہیں اپنے کھلونوں کے ساتھ سونے دیا جائے لیکن باخبر رہیں کہ کوئی ایسی شے ان کے ہاتھ میں نہ آئے جس سے انہیں کسی قسم جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچے۔بیماری کی صورت میں بچوں کو زیادہ توجہ اور اپنائیت کی ضرورت ہوتی ہے انہیں سمجھایا جائے کہ میڈیسن کا استعمال جاری ہے اور کل تک آپ صحت یاب ہو جائیں گے،ان کا دل بہلانے اور ذہن سے بیماری کا بوجھ ہٹانے کیلئے انٹرٹینمنٹ کا سہارا لیا جائے تاکہ وہ کچھ دیر کیلئے اپنی تکلیف بھول جائیں اور سکون سے سو سکیں ایسے حالات میں والدین بچوں کو اپنے ساتھ سلا سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ انہیں سمجھایا جائے جب آپ تندرست ہو جائیں گے تو اپنے کمرے اور اپنے بیڈ پر ہی سوئیں گے۔بچوں کی پرورش آسان کام نہیں کئی والدین کو بڑے بڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے کئی کئی راتیں جاگنا پڑتا ہے لیکن والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی پرورش ایسے کی جائے جس سے دونوں کو مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور پر سکون زندگی گزر سکے۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246223 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.