سنو ! یہ آواز کیسی ہے ؟
(Anwar Ayub Raja, London)
یہ وقت کس قدر کٹھور اور سنگ دل
ہے ، کاش وقت کے بطن سے احساس نے جنم لیا ہوتا تو اسے احساس رکھنے والوں کا
احساس ہوتا!
کیا وقت بانجھ ہے؟
کیا وقت کی کھیتی سے کبھی کچھ نہیں اگا ؟
وقت شوخ حسینہ بھی ہے اور بد مست حسن بھی ، وقت شراب شیراز بھی ہے اور زہر
کا پیالہ بھی یہ ہوا کا جھونکا بھی ہے اور امید کی کرن بھی ، یہ ظالم بھی
ہے اور مظلوم بھی ، یہ رقص کرتی جوانی بھی ہے اور بکھرے لفظوں کی اک کہانی
بھی !
یہ جب چاہتا ہے با آواز بلند کہتا ہے "انا الحق" اور سب کچھ رک جاتا ہے!
کافر بھی وقت ہے ، مسلم بھی وقت، کہیں ٹن ٹن ٹن کرتے بیلوں کے گلے میں
بندھے "ٹلے" اس کی زبان بن جاتے ہیں اور کہیں اس کی آواز توپوں کے دہانوں
سے نکلتی ہے . غور سے سنو ! کیا تمہیں اس کی آواز آ رہی ہے ؟ جلدی سنو بھاگ
جائے گا وقت. بڑا تیز رفتار ہے ، روشنی اور آواز کی رفتار سے بھی تیز ، سپر
سونک ہے ، نہیں اس سے بھی تیز!
رفتار تو دیکھو اس کی ، یہ رفتار کے پیمانے سے ماپا بھی نہیں جا سکتا مگر
یہ ابھاگا ہے!
کیوں؟
یہ بد رنگ اور بد صورت ہے . یہ وہ بد نصیب دلہن ہے جس نے جب اپنا وجود
جھلسایا تو اپنے سہاگ اور ساری بارات کو شعلوں کی نظر کر دیا . وقت ایک
انتقام ہے جو تاریخ بنتا جا رہا ہے ، ہم سب کا دشمن وقت جو ہمارے قابو میں
نہیں !
بین کرتی ڈائن ہے یہ وقت ! کون کہتا ہے وقت ہمیں بدل دیتا ہے ! وقت خود
بدلتا ہے اور کبھی نظریں نہیں ملاتا ، کم ظرف ، اوچھا، بے ضمیر وقت !
ہائے یہ ظالم وقت نہیں رکتا بس نہیں رکتا ، ہائے یہ بے وفا وقت ! بین کرتے
ہوئے اس عورت نے جب اپنے گھر میں ٹھنڈا چولہا دیکھا تو وہ یہی بولی تھی،
وقت بڑا ظالم ہے !
کیا اسے وقت کی آواز آئی تھی؟ شائد نہیں ، اگر آ جاتی تو یہ کبھی نہ کہتی !
یہ وقت نہ جانے کتنی جوانیاں کھا گیا !
نا جانے کتنے موسم ، کتنی رنگینیاں ، کتنے ساون ، کتنے بادل اور کتنی
مسکراہٹیں اس وقت نے اپنی مشین کیآہنی دانتوں میں کچل کے رکھ دیں اور ایک
بار بھی اس کی آنکھ سے کسی کے غم میں ایک آنسو بھی نہ بہا کیونکہ یہ بانجھ
ہے، اس کی کوکھ سے احساس کی اولاد نے جنم ہی نہیں لیا .
وقت ایک میٹھا اور سحر انگیز زہر ہے جس کا نشہ مخمور کرتا ہے اور پھر کچل
دیتا ہے ، اپنے آہنی دانتوں میں دبوچتا ہے ، آہستہ آہستہ کچلتا ہے اور فنا
کر دیتا ہے . اس سے کوئی جیت پایا ہے کبھی ؟
کوئی نہیں ، کوئی بھی تو نہیں!
بس آہستہ آہستہ سب ان آہنی دانتوں میں پھنسنے والے ہیں ، میں بھی ! بس کچھ
دیر ہے لیکن وہ آ رہا ہے میری جانب ، مجھے آواز آ رہی ہے !
کر کر کر کر کر !!
ابھی میرا وقت نہیں آیا .، ابھی کچھ دیر ہے ، ابھی لفظوں کی مہندی سے میں
نے اس وقت کی اجاڑ اور نرم ہتھیلی پر کچھ اور نقش بنانے ہیں ، مجھے اس کی
مانگ سجانی ہے ، مجھے اس کو سچ اور جھوٹ کے لباس بھی پہنانے ہیں اور اس کے
چنچل سے بدن کی پوجا کرنی ہے ، میں سنکھ بجاؤں گا ، میں شہنائی سے اس کے
کانوں میں رس گھولوں گا ، میں پاپوش بن کر اس کے قدموں کو چوموں گا مگر پھر
آہنی دانتوں میں ایک دن کچلا جاؤں گا .
بس وقت آنے کی دیر ہے !
بس وقت بدلنے کی دیر ہے !
یہی سنا ہے اور یہی سنتے رہیں گے کہ وقت سب کو ایک موقع دیتا ہے ، ایک موقع
، وہ ایک موقع ملتا ہے مگر اس موقعے کے ملنے کے بعد ہی آہنی دانتوں کی آواز
میں ہیجان آ جاتا ہے . وقت کے آہنی دانتوں میں، اسی بدلے ہوئے وقت کے آہنی
دانتوں میں ! سنو کیا کہہ رہا ہے ؟
کر کر کر کر کر !!
پھر وہ غائب ہو جاتا ہے جس کا وقت بدلا ہوتا ہے اور وقت کسی اور گھر میں
کسی اور کو کچلنے چلا جاتا ہے اور کوئی ابھا گی اپنے یتیم کے سر پر ہاتھ
رکھ کر کہتی ہے " صبر کرو وقت ایک سا نہیں رہتا ".
میرا بائی نے کہا تھا :
"لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل بھئی راکھ
او میں ابھاگن ایسی جلی، نہ بھئی کوئلہ نہ بھئی راکھ"
لکڑی جل گئی ، کوئلہ راکھ ہوا مگر کر کر کر کر کر کی آواز نہ رکی ! سنو ذرا
دھیان لگا کر سنو ، یہ تمھاری طرف آ رہی ہے ! بچ سکتے ہو ؟ چھپ سکتے ہو ؟
اسے دھوکہ دے سکتے ہو ؟ نہیں ، نہیں ، نہیں کوئی نہ چھپا ہے اس سے ، کوئی
نہ بچا ہے اس سے اور نہ ہی اس کے چنگل سے کبھی کوئی نکل سکا ہے . یہ کوئی
بٹن نہیں کہ جس پر آن / آف لکھا ہوتا ہے ، یہ وقت ہے ، سنو آواز آ رہی ہے
!کر کر کر کر کر !! کر کر کر کر کر !! کر کر کر کر کر !!
|
|