مٹی اور مٹھائی

مٹی اور مٹھائی کا عنوان بظاہر لا تعلق خیالات کا مصنوعی جوڑ لگتا ہے، لیکن عمیق نظری سے جائزہ لینے کے بعد یہ تاثرزائل ہو جاتا ہے ۔ اس مختصر تحریر میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کس طرح مٹی اور مٹھائی کا آپس میں جسمانی اور روحانی تعلق ہے۔ آپ بھی اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔

مٹی کو قدرت نے ’انکساری ‘کی انتہا سے نوازا ہے۔اور اس انکساری کو خدا نے وہ اوصاف بخشے ہیں کہ کائنات میں جن کی مثال نہیں ملتی۔ جن میں سے ایک حضرتِ انسان کی تخلیق ہے جسے قادرِ مطلق نے اپنی تمام تخلیقات سے برتر قرار دیا ہے، اور اس کی برتری پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے کے لئے اسے مسجودِ ملائق بنا کر اس جہانِ رنگ و بو میں اپنا وائسرائے فائز کیا۔مٹی جیسی بے حیثیت چیز کو اس سے بڑا اور کیا مقام مل سکتا تھا۔خدا کی حکومت کی ایک بڑی مشینری اسی جسدِ خاکی کے حامل انسانوں کی خدمت پر معمور ہے۔مٹی سے کوئی محبت نہیں کرتا، ہر کوئی پتھر اور شیشے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انسان اپنے گھروں سے مٹی کا نا م و نشان مٹا دینے پر تلا ہوا ہے۔ذرا سی گرد اس کے کپڑوں پر پڑ جا ئے تو اس بے دردی سے جھاڑ دیتا ہے گویا مٹی سے اس کا تعلق اس کی رسوائی کا باعث ہو۔لیکن اس ساری توہین آمیز بد سلوکی کے باوجود یہ مٹی ’سی‘ نہیں کرتی اور جب بھی موقع ملے انسان سے گلے ضرور ملتی ہے چاہے وہ بعد میں غسل ہی کرتا پھرے یا کپڑے جھاڑ کر اپنی نفرت کا اظہار کرے۔مٹی کسی کے پاؤں پکڑنے سے بھی نہیں کتراتی۔کوئی بس جوتا اتار کے اپنا پاؤں اس پر رکھے سہی، یہ فوراً اس کی قدم بوسی کے لئے آگے بڑھتی ہے اور ، بعض اوقات تو یہ جوتے پہننے کے باوجود قدموں کی خبر لینے آ جاتی ہے اور پھر چاہے اس عمل میں قدموں کا ’ میل‘ بن کر ہی اترے لیکن اپنی انکساری اور وفاداری پر حرف نہیں آنے دیتی۔یہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذرا برا نہیں مناتی، ایسی انکساری اور کہاں مل سکتی ہے۔

شیطان نے جب حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ،تو اپنی دلیل کے طور پر اس نے کہا کہ
وہ آگ سے بنا ہے جو اوپر کو جاتی ہے اور آدم ؑ مٹی سے بنا ہے جو نیچے کو جاتی ہے۔ اس لئے وہ آدمؑ سے برتر ہے۔لہٰذا اسے آدمؑ کو سجدہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔لیکن وہ یہ بات بھول گیا ک سجدہ کرنے کا حکم کون دے رہا ہے۔وہ اگر اس بات کو مدِ نظر رکھتا تو سر کشی نہ کرتا ۔ لیکن وہ تھا ہی سرکشوں میں سے۔مٹی سے بنے آدمؑ سے بھی سر کشی ہو گئی لیکن اس نے توبہ کر لی اور اس طرح اس کی انکساری اس کی بحالی کا ذریعہ بن گئی۔شیطان انکساری نہ کر سکا ، اس کی ضد اسے لے ڈوبی۔

’تخلیق ‘، ’انکساری ‘کے بعد مٹی کا ایک اوربڑا وصف ہے۔اس تخلیق کی بو قلمونی سے کسے انکار ہو سکتا ہے۔مٹی سے ہونے والی تخلیق ہماری دنیا کے ویرانوں کو گلزاروں میں بدلے ہوئے ہے۔ ہر طرف لہلہاتے کھیت، کھلکھلاتے چمن، سرسبز میدان،پھل پھول اور کلیاں ۔۔۔۔ الغرض بے شمار کرشمہ ہائے فطرت مٹی کی اسی صفتِ تخلیق کی بدولت ظہور میں آئے ہیں۔مٹی کی اس تخلیقی صفت کی مہربانی سے ہی بظاہر بہت بڑی انسانی،حیوانی اور نباتاتی زندگی کا وجود ممکن ہوا ہے۔مٹی کے حریص’ریت ‘اور’پتھر‘ہو سکتے ہیں لیکن قدرت نے ان کو تخلیق کی خوبی سے محروم رکھا ہے۔ اگرچہ ریت اور پتھر کی اپنی افادیت سے کسی کو سرِ مو اختلاف نہیں ، لیکن تخلیق کے لحاظ سے مٹی کا کوئی مدِ مقابل نہیں ٹھہرتا۔انسان بھی تخلیق کار ہے لیکن ہر انسان اسی وقت تخلیق کی صفت سے مزین ہوتا ہے جب وہ اندر سے مٹی بن جاتا ہے۔ سونا، چاندی تخلیق کی صفت سے محروم رہتے ہیں لیکن مٹی اپنے سینے پر ایسے گل و گلزار کی کشیدہ کاری کرتی ہے کہ سونا چاندی جیسی نازشیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔انسان جب اندر سے اپنے آپ کو مٹی کے درجے پر لاتا ہے تو اس کے اندر سے تخلیق کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اپنے آپ کا خون کشید کئے بغیر انسانی مصوری کو رنگ نہیں ملتے۔یہ تخلیق اس سطح سے آغاز پاتی ہے جو سطح زیرِ زمین ہوتی ہے، جہاں مٹی اپنے اندر سما جانے والے بیج کے ساتھ اپنا تعلق استوار کر کے اسے رازِ زندگی سمجھا رہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ پیش آنے والے حالات کا ایک عکس اس کی خوابیدہ آنکھوں کے سامنے لا رہی ہوتی ہے۔انسان جب اپنے آپ کو اس سطح پر لے جاتا ہے تو وہ بھی اپنے اندر آنے والے’ خیال کے بیج‘ کو تخیل کی آب و ہوا میں لا کر پروان چڑھاتا ہے اور پھر ایک شاہکار بنا کر دوسروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے مقام کے مطابق اس کی جھولی میں داد کی سوغات ڈالتے چلے جاتے ہیں۔

انکساری اور تخلیق کے بعد مٹی میں جو بڑا وصف پایا جاتا ہے وہ ’جذب‘ ہے۔یہ جذب ہی تھا کہ حضرت آدم ؑنے وہ سارے نام یاد کر لئے جو خداتعالیٰ نے انہیں سکھائے جبکہ ملائک ان ناموں کو بھول گئے۔تخلیق کا وصف بھی مٹی میں جذب کے وصف کی بدولت ہے۔ وہ بہت کچھ جذب کر لیتی ہے اور پھر اس جذب کی بدولت تخلیق کا عمل ظہور میں لاتی ہے۔انسان اپنی خطا پر اپنی ندامت جذب کر لیتا ہے اور پھر پچھتا لیتا ہے۔ یہ پچھتانا اس کے کام آ جاتا ہے۔ وہ آنسو بہاتا ہے اور اس پر اﷲ کی رحمت ہو جاتی ہے، جبکہ شیطان آگ کی پیداوار ہے جو جذب نہیں رکھتی اور ندامت برداشت نہیں کر سکتی۔ پچھتانا اس کے بس میں نہیں۔ لہٰذا بخشش دور ہو جاتی ہے۔انسان کے اندر اگر جذب نہ ہو تو وہ ایک مشین اورحیوان سے قطعاً برتر نہیں ہو سکتا۔جذب ہی تو انسانیت ہے۔ اگر انسان اپنے جذبات، ضروریات اور حاجات کو جذب کی مدد سے دبا نہ سکے یا برداشت نہ کر سکے تو اس میں اور حیوان میں کیا فرق رہ جائے گا، صرف جسمانی ساخت کا۔

اسی جذب سے مٹی کے اندر ایک اور وصف وقوع پذیر ہوتا ہے اور وہ ہے ’ اُنس‘ ۔ حضرتِ انسان میں انس کی خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔یہی انس ہے جو انسان کو معاشرے میں ایک دوسرے سے مل جل کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر انسان کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے تو یہ اس کی مٹی کی سرشت ہے۔ مٹی کا برتن جہاں رکھا جائے،ا س جگہ سے تھوڑا بہت تعلق بنا لیتا ہے۔مٹی کا گھڑا گرمیوں میں انسان کو بغیر برف ڈالے ٹھنڈا پانی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ انسان قید بھی ہو جائے تو اسے وہاں سے رہائی پاتے وقت اس جگہ سے اور وہاں کے ساتھیوں سے اپنائیت محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے گلے مل مل کے روتے ہیں۔یہ انس ،اخوت اور بھائی چارے کو جنم دیتا ہے اور انسان میں انسان کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے جو اصل انسانیت ہے۔
مٹی کی ایک اور نمایا ں خوبی ’تحلیل‘ ہے۔ریت اور پتھر تحلیل نہیں ہوتے۔ مٹی تحلیل ہو کر اپنا وجود ختم کر دیتی ہے ۔اپنا آپ مٹا کر ہی کچھ پایا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں مٹی کی فنا اسے بقا کی طرف لے جاتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیاہے:
ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد
ہر کہ خود را دید او محروم شد

مٹی بچاری اپنے لئے کچھ بھی نہیں کرتی، سب کچھ دوسروں کی نذر کر دیتی ہے۔ بے شمار فصلیں، پھل ، سبزیاں اور پھول پیدا کر کے سب کچھ دوسروں کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ان کے قدموں تلے اپنا سینہ بچھا دیتی ہے۔کسی بھی چیز کے اندر یوں سرایت کر جاتی ہے کہ اس کا جزو بن جاتی ہے۔اورکسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔

مٹی سے بنی کوئی بھی چیز عام طور پر مسامدار ہوتی ہے۔ اور اس مسامداری سے اس چیز میں کئی ایک صفات پیدا ہوتی ہیں۔ انسان بھی مٹی کی بنی چیزوں میں سے ایک ہے اور مسامدار ہے۔ پسینہ اسی وجہ سے آتا ہے جو کہ انسان کے رویئے میں بہت سی باتوں کا محرک ہے۔اس پسینے سے آنے والی بد بو ، اتنی وسیع بیوٹی انڈسرٹری کے قیام اور استحکام کے بڑے اسباب میں سے ہے۔اگر پسینہ بذاتِ خود خوش بو دار ہوتا تو کیا عطروں کی اتنی بڑی ورائٹی کو اتنی پذیرائی مل پاتی، ہرگز نہیں۔یا اگر انسان مسامدار نہ ہوتا اور اسے پسینہ آتا ہی نہ تو کیا ہوتا۔ یہ سسٹم بھی مٹی ہی کا ممنون ہے کہ اس کی بنیادی صفت پر استوار ہے۔

مٹی کی ایک اور نمایاں صفت پھوٹک ہوناہے۔ مٹی ، پتھر نہیں کہ ٹوٹے ہی نہ، مٹی اکثرخود ہی ٹوٹ جاتی ہے،لیکن دوسروں کو کم ہی توڑتی ہے۔انسانی دل بھی تو اسی مٹی کی پیداوار ہے، اور اسی وجہ سے اکثر ٹوٹتا رہتا ہے: دل ہی تو ہے ،نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار ، کوئی ہمیں رولائے کیوں

انسانی جسم بھی پھوٹک ، اور انسانی جذبات اور نظریات بھی ایسے ہی ہیں۔انسانی وعدے تو ایسے ہی ہوا ہو جاتے ہیں۔انسانی قول اقرار کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں:
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں پائیداری ہائے ہائے!
انسان کی سب سے زیادہ پھوٹک چیز اس کی زندگی ہے جس کا اعتبار اس کے قول سے بھی بہت کم ہے، بلکہ ہے ہی نہیں۔سانسوں کی ڈوراتنی کچی ہے کہ ٹوٹنے کی آواز ہی نہیں آتی، اور نہ ہی اس کے نہ ٹوٹنے کی ایک پل کی بھی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔

اب ہم مٹی اور مٹھائی کے باہمی رشتے کی طرف آتے ہیں۔مٹھائی کی سب سے نمایاں خوبی اس کا میٹھا پن ہے۔میٹھاس چینی سے آتی ہے، چینی گنے سے تیار کی جاتی ہے اور گنا زمیں میں اگتا ہے۔اگر مٹی نہ ہوگی تو گنا اگ نہیں پائے گا۔ مٹی اپنے مختلف ذائقوں سے مختلف اجناس کو نوازتی ہے۔گنے کا ذائقہ بھی اسی مٹی کا مرہونِ منت ہے۔لہٰذا مٹھائی کو مٹی سے دور کی نہیں بلکہ قریب کی نسبت ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ مٹھائی میں مٹی ہے تو شاید ہمیں اچھا نہ لگے کیوں کہ ہم اب مٹی نہیں کھاتے، بچپن کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ لیکن در اصل بات ایسے ہی ہے کہ مٹھائی مٹی کی مرہونِ منت ہے، ورنہ مٹھائی جیسی نفیس چیز معرضِ وجود میں نہیں آ سکتی۔

مٹھائی کا دوسرا بڑا وصف نشاستہ ہے۔ یہ نشاستہ آٹا، میدہ وغیرہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب چیزیں اپنی دوسری ، تیسری سٹیج پر مٹی سے ہی نکلتی ہیں۔ مٹی میں بیج بوئے جاتے ہیں ، پانی اور کھاد کا ستعمال ان کو پروان چڑھاتا ہے۔ فصل پک کر تیار ہوتی ہے اور پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ پسے ہوئے آٹے کی شکل اختیار کرتی ہے۔ مختلف چیزوں کے آٹوں سے مختلف طریقوں سے مختلف مٹھائیاں اپنی فائنل شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر حلوائی کا فن بیکری کی رونق دوبالا کرتا ہے۔یہ ساری کی ساری بیکری اپنی اساس میں مٹی کی محتاج ہے۔

مٹھائی کا تیسرا بڑاپہلو حرارت ہے یعنی ان کی تیاری کے لئے آگ کی کسی نہ کسی شکل میں ضرورت ہوتی ہے۔ آگ کچھ زمانہ پہلے لکڑی سے ہی حاصل کی جاتی تھی۔ اب اسے گیس اور بجلی سے حاصل کرتے ہیں۔ گیس بھی زمیں ہی سے نکلتی ہے اس طرح اس کا بھی مٹی سے کسی حد تک تعلق بن جاتا ہے۔اور بجلی اگر پانی سے بنے تب بھی مٹی سے اس کا تعلق بنتا ہے اور اگر شمسی توانائی سے بنے تب بھی کسی نہ کسی حد تک اس کا تعلق مٹی سے استوار ہو جاتا ہے۔اس صورت میں بھی مٹھائی ، مٹی کی منت پذیر ہونے سے اپنا نفیس دامن بچا نہیں سکتی۔

مٹھائی کا ایک اور وصف نرمی ہے۔ قریباً تمام مٹھائیاں نرم ہوتی ہیں اور آسانی سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔یہ وصف بھی مٹی جیسا ہے۔ مٹی کا برتن بھی ٹیس لگنے یا گرنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔اگر مٹھائی ٹوٹنے کی صفت سے عاری ہوتی تو اسے کھاتا کون؟ اسے دانتوں میں رکھ کر چبانے کی کوشش کی جاتی تو ، بجائے مٹھائی کے ایک آدھ دانٹ ٹوٹ کر ہاتھ میں آ جاتا۔پھر مٹھائی کھانے کی بجائے ایک دوسرے کو مارنے کی کام آتی۔
مٹھائی مسامدار ہوتی ہے ، مٹی بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔اس طرح میٹھا شیرہ اس کے اندر سرایت کر جاتا ہے۔اور نشاستہ مٹھائی میں ڈھل جاتا ہے۔اگر مٹھائی مسامدار نہ و ہوتی تو اس کی اندر مٹھاس کیسے داخل ہو سکتی تھی۔ اور پھر نشاستہ کبھی مٹھائی کا نام نہ لے پاتا۔اور نہ ہی اس کے اندر داخل کی گئی مٹھاس ، چبانے یا دبانے سے باہر آ پاتی، اور نہ انسان اس کو محسوس کر پاتا۔

مٹھائی کی ایک اور صفت یہ ہے کہ یہ بھی کئی ایک رنگوں میں بنائی جاتی ہے۔تمام مٹھائیاں ایک شکل، اور ایک رنگ میں نہیں ہوتیں۔ بلکہ ان کی شکلیں اور رنگ بھی ان کے ناموں کے ساتھ مستقل ہو چکے ہیں۔ کبھی رنگ بدلنے سے اورکبھی شکل بدلنے سے ان کے نام بدل جاتے ہیں۔اور اکثر ان کی کمپوزیشن بدلنے سے ان کا ظاہری اور باطنی حال بدلتا ہے۔مٹی کے ذائقے اور رنگ بدلنے سے اس کے نام اور مقام بدلتے ہیں۔

مٹی اور مٹھائی میں مماثلت پر کچھ بات کرنے کے بعد ہم اپنی اصل بات کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ ہے انسان مٹی کا پتلا ہے اور اسے مذہب، اخلاق اور معاشرت مٹھائی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔دوسرے الفاظ میں وہ فطرتی انسان کو ایک اچھے تہذیبی انسان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔عام کہا جاتا ہے: میٹھے الفاظ، میٹھا انسان وغیرہ۔
زبان شیریں ، ملک گیریں
( یعنی زبان میٹھی ہو تو انسان دنیا فتح کر لیتا ہے)

ان سے مراد مٹھائی جیسا میٹھا تو نہیں ۔ ہاں البتہ ایک اچھارویہ ضرور ہے۔وہ اچھا رویہ انسانی مٹی کو مٹھاس میں بدل کر ہی پیدا ہو سکتا ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ انسان اپنے آپ کو مٹی سمجھنے یا ماننے پر ہی تیار نہیں ہوتا۔ اس کی مٹھائی بننے کی تو بات ہی نہیں کی جا سکتی۔ انسان اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟ اس کا جواب تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن اس سوال کے جواب میں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے: کہ انسان اپنے آپ کو کیا نہیں سمجھتا۔انسان خدا کی پناہ! اپنے آپ کو کسی دیوتا سے کم نہیں سمجھتا۔ اسے حادثے، بیماری، بوڑھاپے اور موت کی مجبوریاں بڑی حد تک راہِ راست پر رکھنے کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔اگر یہ مجبوریاں انسانی زندگی سے اٹھا لی جائیں تو پتہ نہیں انسان کن حدود کو چھو جائے،کیونکہ مرنے کی حقیقت کے سامنے رکھنے کے باوجود وہ اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کر چکا ہے۔ اور جب وہ سرِ عام یہ دعویٰ نہیں کرتا تو وہ اندر سے اپنے آپ کو کسی لا فانی ہستی سے کم پھر بھی نہیں سمجھتا۔وہ کم از کم اپنے آپ کو بے شمار دوسرے انسانوں سے بر تر ضرور سمجھتا ہے۔ بہت تھوڑے درویش صفت انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنے کو دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں اور عملی طور پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ دراصل یہ بات اپنے آپ کو ذہنی طور پر مار نے کے مترادف ہے، جو کہ بلا شبہ جان جوکھوں کا کام ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر جان کو بھول جانے کا کام بھی ہے۔

انسان جب اپنے آپ کو بھول کر خدا کی یاد میں محو ہوتا ہے تو وہ اپنے اندر واحدانیت کا شیرہ جذب کرتا ہے، جس سے اس کو کائنات میں اپنا کسی بے حد برتر ذات سے تعلق محسوس ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ اس ذات کی موجودگی محسوس کرتا ہے اور اسے زندگی کی معنویت سمجھ آتی ہے جو کہ نا صرف اس دنیا کی زندگی پر محیط لگتی ہے، بلکہ مرنے کے بعد کی زندگی بھی حسین رنگوں سے مزین ہو جاتی ہے۔

جب انسان اپنے آپ کو مٹی سے منسلک کر لیتا ہے تو اس کے اندر سب سے پہلے انکساری آتی ہے۔ انکساری آنے کا مطلب ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو بندہ یا’ بندے کا پتر‘سمجھتا ہے۔یہ انسان کی عظمت کا نقطہء آغاز ہے۔ پھر انسان کے اندر ایک اچھا انسان بننے کے مراحل طے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یا اس گفتگو کے عنوان کے تناظر میں وہ مٹھائی بننے لگتا ہے۔

مٹی کی بہت بڑی صفت ’تخلیق ‘ بھی اس کے اندر جلوہ گر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔کسی بھی تخلیق کے لئے انسان کو پہلے اپنی انکساری سے آغاز لینا پڑتا ہے۔ اسے اپنے آپ کو تحلیل بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس تحلیل کے مرحلے سے گذر کر وہ اچھا انسان بننے کے مراحل میں چلا جاتا ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی بہت سی روشنی پیدا کر لیتا ہے۔

مٹی کا وصف انس بھی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔وہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنے جیسا انسان ہی سمجھتا ہے اور ان سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتا۔وہ انسان دوستی کا عالمی اصول اختیار کرتا ہے اور سب سے پہلے دوسرے انسانوں اور پھر اپنے لئے سوچتا ہے۔اس کا ذہن حلوائی کی دکان بن جاتا ہے جہاں وہ نت نئی مٹھائیاں بناتا چلا جاتا ہے اور دوسرے انسان اسکی بنی سویٹس سے لطف اندوز ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مٹھائیاں بنانے اور بانٹنے کا کام صوفی شعراء نے خوب کیا ہے۔ جو اچھے انسانوں میں سے بہت ہی اچھے کردار ہیں۔ وہ انسانوں کو قلبی کدورتوں سے بچا کر اس وحدہ لاشریک کے دربار میں لے جاتے ہیں۔ جہاں انسان کو کسی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ا س کا دل اطمینان پاتا ہے اور وہ اچھائی کرنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔اس کی ’انا‘ کا بت پاش پاش ہو جاتا ہے اور وہ اپنی مٹی میں واپس آجاتا ہے اور پھر اس
مٹی کے اندر مٹھائی جیسی شیرینی بھر جاتی ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ انسانوں کے مابین محبت اور بھائی چارے کی علامت بن جاتا ہے۔اس کی باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ اس کے قول و فعل کا تضاد ختم ہو جاتا ہے۔وہ ناصرف دیکھنے میں دیدہ زیب بلکہ چکھنے میں بھی دلفریب بن جاتا ہے لیکن فریب دیتا ہر گز نہیں۔دوسرے الفاظ میں وہ اب پوری طرح مٹی سے مٹھائی میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313007 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More