2013کے عام انتخابات کے بعد صوبہ
خیبرپختونخوا حکومت نے منصب سنبھالتے ہی انتخابات کو دھاندلی شدہ قرار دیکر
اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجوں کا سلسلہ شروع کیا اور رفتہ فتہ اس احتجاج
کو ایک بڑے دھرنے کا شکل دے دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے طرف سے مختلف
اوقات میں مختلف الزاموں کو اگر ایک طرف حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچانے
جیسا اقدام قرار دیا گیا تو دوسری طرف عوام کی اکثریت نے پی ٹی آئی کی اس
اعتراض کو قابل قبول تو قرار دیا لیکن اس مسلے کے حل کے لئے خان صاحب کی
طریقہ جدوجہد سے بہت حد تک اختلاف کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت کی طرف سے
سڑکوں پر نکلنے کی صورت میں بہت سے خطرات کا خدشہ ظاہر کیا۔ لیکن احتجاجوں
اور دھرنوں کا فیصلہ کرنے والوں نے اس وقت سارے خدشات کو پس پشت ڈال کر
اپنے فیصلے پر شائد اس سوچ کے تحت قائم،دائم رہے کہ اسلام آباد کے ’’ڈی چوک‘‘
جیسے مقبول ایریا میں حکومت وقت کے خلاف دھرنہ دینے سے مرکزی حکومت کا تختہ
اُلٹ جا ئے گا!!! اپنے اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک انصاف کے
لیڈرشپ نے ایک مضبوط سیاسی اور قانونی حکمت عملی کی بجائے جذبات اور
الزامات کا ایک ایسا غیر متوقع راستہ اپنایا جس کے زریعے اس احتجاج نے
احتجاج کی بجائے ڈی جے بٹ کی تعاؤن سے میوزک شو اور فوٹو سیشن کا شکل
اختیار کیا۔ اس دھرنے کے ذریعے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضبط کئے گئے حقوق کے
منتظر عوام اس وقت مایوسی کے شکار ہوئے جب بات حقوق کے حصول کی بجائے دن
رات الزام تراشی اور ڈیزل ڈیزل جیسے بچگانہ نعروں تک پہنچ گئی حالانکہ ہر
باشعور انسان یہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ آج اس دستوری ایوان اور سپیکر
قومی اسمبلی کو جالی قرار دینے والے حضرات کل اس اسمبلی کی راہ داریوں سے
گزر کر اپنے پُرسکون نشست سے لُطف اندوز ہونگے جو کہ وقت نے ثابت کر کے عام
لوگوں کے تشویش میں حسب توقع اضافہ کر دیا۔ بہرحال یہ ایک سیاسی جنگ تھا جو
کہ توقعات کے عین مطابق اپنے پیچھے بہت سے تلخ سوالات چھوڑ کر متنازعہ
انداز میں اختتام پذیر ہوا لیکن آفسوس کن امر یہ ہے کہ اس احتجاج کی صورت
میں معاشی لحاظ سے جو ناقابل تلافی نقصان سامنے آیا اس کا ذمہ دار کس کو
ٹہرایا جائے؟؟ مختلف شعبوں میں دوسوارب کے اس نقصان کاآزالہ کونسے سیاستدان
کی بیرونی اکاؤنٹ سے کیا جائے؟؟
ہم یہ اچھی طرح سے جانتے بلکہ مانتے بھی ہیں کہ پاکستان کی اس غیر یقینی
سیاسی صورتحال میں کسی بھی پارٹی کے سربراہ کیلئے عوامی طاقت کا مظاہرہ
کوئی مشکل کام نہیں ہے لیکن میرے مطابق ان مظاہروں کی صورت میں پیدا ہونے
والے مشکلات سے نمٹنے کی صلاحیت کسی بھی پارٹی لیڈر میں نظر نہیں آتا۔
حالانکہ ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہاں پر
سیاسی آکابرین اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ’’آگے چل پیچھے چھوڑ‘‘ جیسے
فارمولے پر عمل پیرا ہیں اور اس نادانی ہی کی وجہ سے ہمارے ہاں بہت سے
مسائل حل کرانے کی بجائے اسے ترقی کی راہ میں خودساختہ رُکاوٹ کی تحت
نظرانداز کئے جاتے ہیں جو کہ توجہ طلب بلکہ حل طلب پہلو ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اپنے دور اقتدار کا تقریباً آدھا
عرصہ دھاندلی کے حقائق کو منظرعام پر لانے کی کوشش میں گزار دیا جبکہ ان کی
کوششوں کے نتیجے میں ان کی مرضی کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی عمل
لایا گیا تین ماہ کے عرصے میں مختلف شخصیات سے لگاتار انوسٹی گیشن کے بعد
یہ فیصلہ سُنایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی غفلت کی وجہ سے بدنظمی ضرور سامنے
آئی ہے لیکن اس بدنظمی کو دھاندلی کا نام دے کر 2013 کے انتخابات کو کالعدم
اس لئے نہیں ٹہرائے جا سکتے کہ یہ عوام کی حق رائے دہی کی اہمیت کو ماننے
سے انکار پر مبنی ہوگا۔ چونکہ عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے مطالبے
کی وقت اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ اسی صورت میں فیصلہ جو بھی سامنے
آئیگا اسے سر آنکھوں سے تسلیم کیا جائے گا۔ اب ان کا فرض بنتا ہے کہ ملکی
مفاد اور قومی یکجہتی کے پیش نظر اس فیصلے کو قبول کر کے اپنی صلاحیت
زیرحکومت صوبے کی ترقی کے لئے بروئے کار لائیں۔ بجلی،پانی،طبی سہولیات
،تعلیم اور روزگار کی حصول کا رونا رونے والے اس مظلوم عوام کی بھرپور مدد
اپنا نصب العین بنا کر مسائل کے حل کے لئے ایسے اقدامات آٹھائیں جس سے
تبدیلی کا نعرہ کسی حد تک سچا ثابت ہو سکے۔
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد اب یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ پی
ٹی آئی کے سربراہ اس ایشو پر مذید وقت ضائع کئے بغیر اس فیصلے کو تسلیم
کرینگے بصورت دیگر ان دونوں پارٹیوں کے درمیان دانستہ یا غیردانستہ طور پر
اگر کسی نئے مسلے نے جنم لیا تو یہ ان کی مستقبل کیلئے اس شعر کے مانند ہو
جائیگا کہ۔
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم |