الیکشن میں ضمانت تک ہوئی تھی
ضبط ان کی بھی
اگرچہ خوب وعدے اور کیں کتنی تقریریں
تیرا بھی ایک دن ڈیفینس میں بن جائے گا بنگلہ
تجھے بھی مل ہی جائیں گی حسین خوابوں کی تعبیریں
دراصل پاکستان کے بعض سیاست دان ، کمال خوبی سے اس طرح عوام کو بے وقوف
بناتے ہیں کہ ان کا کوئی ثانی بھی دستیاب نہیں ہوتا ۔ گذشتہ رات سندھ کے
سابق صوبائی اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن سے رات بارہ بجے قریب رابطہ ہوا ،
دیگر رسمی باتوں کے علاوہ ان سے عرض کی کہ جناب آپ نے غریبوں کے ایک علاقے
PS96، اسلامیہ کالونی میں آئے تھے ، نو کروڑ سے زائد کے ایک واٹر پمپنگ
اسٹیشن کا افتتاح فرماتے ہوئے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ پی پی پی کا عزم ہے
کہ ان آبادیوں کو ترجیح دیجائے گی جن کو ماضی میں نظر انداز کردیا گیا تھا
۔ عوام نے تالیاں بجائیں لیکن اب وہ بغلیں بجا رہے ہیں ۔ مجھ سے کہنے لگے
کون سا پمپ ؟۔، عرض کی شہید مجیب الرحمن واٹر پمپ ۔کہنے لگے کہ اچھ اچھا ،
۔ میں کہا جناب نو کروڑ روپے کی پراجیکٹ سے جن علاقوں کو فیضاب ہونا تھا
انھیں تو نظر انداز کردیا گیا ہے اور کہنے والے ثبوت دکھاتے ہوئے کہتے ہیں
کہ ساٹھ کروڑ روپے کا غبن کرلیا گیا ، شرجیل ہڑبڑا گئے اور کہنے لگے کہ
قادر بھائی ، اس پراجیکٹ سے میرا کوئی واسطہ نہیں ، مجھے تو صرف افتتاح
کرنے کیلئے کہا تھا تھا ، دراصل یہ آغا سراج درانی کے وقت کا ہے ، باقی لعل
بخش بھٹو کے بیٹے سابق صوبائی وزیر کچی آبادی حاجی ندیم بھٹو کے پاس یہ
پراجیکٹ ہے۔وہی یہ سب کچھ دیکھتے ہیں اور بتا سکتے ہیں مجھے کچھ نہیں معلوم
۔ عید مبارک ، علیک سیلک کے بعد نشست برخاست۔ حاجی ندیم بھٹو بھائی بڑے
سادہ منش صوفی صفت انسان ہیں مجھے پی پی پی کے ایک عہدے دار نے بتایا حالیہ
صوبائی اسمبلی انتخابات میں بھی کھڑے ہوئے تھے غالباََ 90ووٹ لئے تھے اور
بتایا جاتا ہے کہ نوے لاکھ روپے خرچ کئے تھے۔ان کے مطابق کہ حاجی ندیم بھٹو
اس پراجیکٹ کی فائل چپڑاسی سے لیکر وزیر اعلی تک خود لیکر گئے ہیں اور مجیب
الرحمن شہید کے نام پر یہ پراجیکٹ منظور کرایا۔ فنڈ لئے۔ رمضان المبارک کے
دن تھے پی پی پی کے معروف عہدے دار کو بڑی منتوں اور سماجت کے بعد بلایا۔
نخوت ، غرور سر سے پیر تک اس ٹپک رہی تھی کہ اس گرمی سے کب جلد از جلد ائیر
کنڈیشن گاڑی پہنچ جاؤں۔ موصوف اہلیاں علاقہ کے ساتھ ایک جرگے میں بیٹھے بڑے
بڑے دعوے فر ما رہے تھے اور یقین دہانیاں کروا رہے تھے ۔ عوام مطمئن ہوگئی
کہ چلو رمضان المبارک میں تو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا ۔بعد از عید مجھے پھر
دھکا دے دیا گیا ، میں پوچھتا رہ گیا کہ دھکا کس نے دیا لیکن اب تو آگے
آگیا تھا اس لئے موصوف کے بعدکئی ہفتوں سے ملاقات کے بعد دس منٹ کیلئے
ملاقات کا وقت مل گیا۔دس منٹ میں دو منٹ بات کی ، آٹھ منٹ فون پر کسی سے
بات کی پھر بغیربتائے چلے گئے ایک گھنٹہ انتطار کے بعد سر جھکائے آنے کو ہی
عافیت جانی کہ ابھی تو یہ ایک ضلعی جنرل سیکرٹری کل کو معاون خصوصی ، وزیر
،مشیر وغیرہ بن گئے تو پھر کیا عالم ہوگا فروعونیت کا لیکن قصہ مختصر جب ان
کے پاس دوبارہ حاضر ہوا تو ایک نئی کہانی اسٹارٹ ہوگئی کہ نو کروڑ کا
پراجیکٹ تھا ، فنڈ ختم ہوگئے ، اب نیا بجٹ منظور ہوگا ، انھوں نے اپنی بات
پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بجٹ میں چار کروڑ مختص رکھے گئے تھے ، لیکن
انھوں نے اپنا کارنامہ بتایا کہ ہم نے پراجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے ہی
ٹھیکدار کو پورے نو کروڑ روپے دلوا دے ۔میں حیران اس لئے نہیں ہوا کہ ایسا
ہی ہونا تھا کیونکہ ایک ناظم کے حلقے کے لئے اپنا امیدوار منتخب کروانے
کیلئے غریبوں کی آبادی ، کرسچین آبادی ، نیازی برادری سمیت تمام آبادیوں
کیلئے تمام کنکشن اور واٹر لائن غائب کروا کر دوسرے علاقوں کو دے دئیے۔
کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ا دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک قومی اسمبلی کے رکن
عبدالقادر خانزادہ اور صوبائی اسمبلی کے ممبرمظاہر امیر نے کٹی پہاڑی
کیعلاقے محمد پور میں ایک واٹر پمپ بنانے کی کوشش کی، افتتاح بھی ہوگیا ،
فنڈز بھی مختص ہوگئے لیکن ، پی پی پی کے ان ہی موصوف عہدے دار نے اپنی نالے
پرقبضہ شدہ دکانیں مسمار ہونے کی وجہ سے غصے سے واٹر پمپ ہی بننے نہیں دیا
بلکہ وہ جگہ پولیس چوکی کیلئے مختص کردی ایس ٹی ( فلاحی پلاٹ جس پر آج تک
واٹر پمپنگ اسٹیشن کی افتتاح کا سنگ بنیاد ہمارے سیاسی کرداروں کی جھلک
دکھاتا ہے۔ اس جگہ پر پی پی پی کی سرپرستی میں ایک این جی او نے قبضہ کرکے
کورٹ سے اسٹے لے لیا ، علاقہ اب ایک نیا تماشہ دیکھنے کو تیار تھا ایک پھر
ایک بار واٹر پمپنگ اسٹیشن بنانے کے لئے ایم پی اے فنڈ سے اسی علاقے کی
دوسری جگہ میں واٹر پمپ بنانے کیلئے کروڑوں روپے رکھے افتتاح ہو ا وعدے
ہوئے، فنڈ ریلیز ہوئے ، کام شروع ہوا ختم ہونے والا تھا کہ تو پتہ چلا کہ
وہ چار پلاٹ کسی کیذاتی ملکیت تھے ، کورٹ آرڈر اور دستاویزات اس کے پاس
تھی، جو میں نے خود دیکھیں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ زمیں کے مالکان ضلعی
عہدے دار کے پی پی پی کے معروف فرنٹ مین کے پاس گیا اس نے پانچ کروڑ روپے
رشوت مانگی نہ ملنے پر دو پلاٹ مانگے ، نہ ملنے پر اس کی خوب دھنائی کی،
مارا پیٹا اور دفتر سے باہر نکال دیا کہ اب آئے تو لیاری میں ملو گے اور
عوام کے کروڑوں روپے ضائع ہوگئے وہ کیس بھی اسٹے پر چلا گیا۔گذشتہ دنوں ایک
کالم کی تیاری کے سلسلے میں ایس پی آصف کے پاس گیا تو انھوں نے بتایا کہ
ایک صاحب نے اپنی پرخاش نکالنے کیلئے موبائل فون کی چوری وہ بھی ایس پی آفس
کے دفتر سے ہونے کی خبر چلا دی ۔ فون کہا کہ منشیات فروش نے دیا تھا
جوخبرنگار کے مطابق کسی اعلی افسر کو دینا تھا ۔حیرانی سے غوطے مارنے لگا
کہ ایس پی آفس سے نوٹ فور کا فون کون کیسے چوری کرسکتا ہے۔خبر نگار اچھے
دوستوں میں سے ہیں ، کہا کہ جو ہوگیا سو ہوگیا اب اپنی خبر تو واپس نہیں لے
سکتا۔ ایس پی صاحب کے علاقے جرائم سے پاک نہیں ہونگے لیکن بھائی ، ایس پی
آفس سے چوری جیسی خبر لگا کر خود اپنا ہی مذاق بنانا ، عجیب بات لگی ۔ یہاں
مجھے اپنے سیاست دان یاد آگئے کہ بے سروپا باتیں کرکے عوام کو جھوٹے وعدے
دلاسے دینے میں مہارت رکھتے ہیں اور جوش جذبات میں کہہ جاتے ہیں پھر اسے
بھول جاتے ہیں یا پھر یاد نہیں رکھنا چاہتے
ووٹر کی دعائیں لیتا جا
جا تجھ کو اسمبلی ہال ملے
حلقے کی کبھی یاد نہ آئے
سرکار سے اتنا مال ملے
یہ دنیا کا معاملہ ہی بڑ اعجیب ہے یہان ہر انسان اپنی خواہشات کیلئے سب کچھ
کر گذرتا ہے ایسے ہر چیز کی ضرورت ہے لیکن رضا لہی اور خوف خدا ایسے یاد
نہیں آتا۔ اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے
اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے ۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے کہ"عہد کو پورا کرو
، کیونک کہ قیامت کے دب عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا۔"( سورۃ بنی
اسرایل ۳۴)
رسول اکرم ﷺ نے اپنے ارشادت کے ذریعہ بھی ایفائے عہد کی اہمیت اور وعدہ
خلافی کی برائی کو بیان فرمایا ہے ، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا جس میں تین
باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے ، جب باتکرے تو جھوٹ بولے ، وعدہ کرے تو
وعدہ خلافی کرے ، اگر امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ( بخاری شریف نمبر ۳۳)، |