بھارت کا وزیراعظم بننے کیلئے
نریندرمودی نے گجرات میں کاروباری کارپوریٹ کی انگلی پکڑکران
کاجواعتمادحاصل کیا تھا اب ہرآنے والے دن میں ماندپڑتی ہوئی چمک رفتہ رفتہ
اندھیروں میں ڈوبتی جارہی ہے۔ان دنوں لندن میں مقیم بھارت کے ایک
مقتدرصنعتی گھرانے کاانتہائی بدعنوان فردللت مودی حکمران جماعت کی ذلت
ورسوائی کا با عث بناہواہے۔بعض بھارتی مبصرین توللت کومودی کا''صحیح ''جانشین
قراردے رہے ہیں لیکن حقیقت میں للت،نریندرمودی اوران کے ساتھیوں کیلئے گلے
کی ہڈی بناہوا ہے۔ایک سال کاقلیل عرصہ مکمل کرنے کے بعدہی بھارت میں مودی
کی حکومت ایک بڑے سیاسی چیلنج سے دوچارہے۔اگرچہ فی الحال حکومت کوظاہری طور
پرکوئی خطرہ درپیش نہیں مگرعوام بطورخاص بھارت کی نودولتیہ مڈل کلاس میں یہ
احساس مضبوط ہوتاجارہاہے کہ یہ حکومت بھی سابق کانگریسی حکومتوں کاہی عکس
ہے۔صاف ستھری، بدعنوانی سے پاک شفاف ، آئین کی حکمرانی اورکالے دھن کی
واپسی جیسے بلندبانگ نعروں کے زورپرمودی کی سربراہی میں بی جے پی کوگزشتہ
سال بھاری اکثریت کے ساتھ بر سر اقتدارآنے کاموقع ملا ،اب لگتاہے کہ
کانگرسی کلچر حکمران بی جے پی میں بھی سرائیت کرگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مبینہ
بدعنوانی اپنے آئینی عہدے کابے جاغلط استعمال اوربدعنوانی میں ملوث مفرور
ملزم کی مددوغیرہ کے یکے بعددیگرے کئی معاملات منظرعام پرآنے کے باوجودمودی
معنی خیز خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں، بی جے پی ان وزراء کاپوری ڈھٹائی کے
ساتھ دفاع کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ان وزاراء کوہرگزہٹایانہیں جائے گا۔
اس وقت لندن کی خنک فضاؤں میں بظاہرپرسکون شب وروزگزارنے والاللت مودی مالی
بدعنوانیوں اور کرکٹ انتظامیہ میں خوربردکے الزامات کے سلسلے میں کئی
ایجنسیوں کو مطلوب ہے۔ وہ لندن سے قریباً روازانہ ایسے تیرچھوڑ رہاہے کہ
بھارت میں سیاستدانوں،کرکٹ انتظامیہ،صنعت کاروں حتیٰ کہ کئی کھلاڑیوں
کاجیناحرام ہوگیا ہے۔ وہ اس وقت بھارت کے وکی لیکس کے خالق جولین اسانج کی
حیثیت اختیارکرچکا ہے ۔اس کے ایک ٹوئٹ سے ملک کی سیاست لرزہ براندام ہوجاتی
ہے اوردن بھر میڈیا کی خوراک کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔
للت مودی ٢٠٠٨ء میں کرکٹ کی دنیامیں رنگارنگ انڈین پریمئیرلیگ(آئی پی
ایل)شروع کروانے اور کھیل کوشوبزاوربزنس کے ساتھ منسلک کرنے کاخالق ہے۔للت
مودی نے بھارت کے کرکٹ بورڈکو خاصامالدار تو بنا دیامگربورڈمیں بڑھتے
اثررسوخ کی وجہ سے اس کے کئی دشمن بھی بن گئے۔للت نے ایک ویب سائٹ ''للت
گیٹس '' کے نام سے شروع کی جس پربھارتی سیاستدانوں کی کرپشن اورکرکٹ
منیجروں کی مالی بدعنوانیوں کی تفصیلات اپ لوڈکی گئی ہیں ۔ برطانوی
اخبارسنڈے ٹائمزنے ٧جون کو برطانوی نژاد لیبرپارٹی کے رکن پارلیمنٹ کیتھ
وازکوفیکس کیے گئے ای میل اورچندحقائق افشاکیے کہ بھارتی وزیرخارجہ سشما
سوراج نے وازکے تعاون سے للت مودی کو برطانیہ کیلئے سفری دستاویزات فراہم
کرنے میں کلیدی کرداراداکیاتھا۔
ادھردہلی میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اورمحکمہ انکم ٹیکس نے للت مودی کے
خلاف متعددنوٹس جاری کیے تھے اورخودبھارتی وزیر خارجہ نے برطانوی فارن آفس
کو ایک کمیونیکیشن بھیجا تھاکہ للت مودی کی کسی بھی طرح مددبھارت برطانیہ
تعلقات پراثراندازہوسکتی ہے۔ اس پربھارتی حکومت نے نہ صرف للت مودی
کاپاسپورٹ منسوخ کردیاتھابلکہ ان کی واپسی کیلئے قانونی کاروائی بھی شروع
ہوچکی تھی۔ حیرت ہے کہ اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں پرتگال جانے کیلئے
انسانی بنیادوں پرعارضی دستاویزات مودی کو بھارتی ہائی کمیشن بھی فراہم
کرواسکتاتھا کیونکہ وہ بہرحال ایک بھارتی شہری تھا،اس تناظرمیں سشماسوراج
کامحض انسانی بنیادپرمودی کی مددکرنا اوراس سلسلے میں خودبرطانوی ہائی
کمشنر سے درخواست کرنااوراپنے محکمے کوبالکل اندھیرے میں رکھناہضم نہیں
ہوتاجبکہ سوراج کی بیٹی اوران کے شوہربھارتی عدالتوں میں مودی کے کیس بھی
لڑرہے ہیں۔
جب اپوزیشن جماعتوں اورمیڈیامیں وزیرخارجہ کے استعفیٰ اورمودی کے خلاف
قانونی چارہ جوئی کے مطالبہ زورپکڑنے لگاتواس سے پہلے کہ حکومت کوئی فیصلہ
کرتی ، للت مودی نے ایک دھماکہ کرکے دستاویزات کاایک انبارجاری کردیاجس میں
بی جے پی کی ایک اور مقتدرلیڈراورمغربی صوبہ راجستھان کی وزیراعلیٰ
وسندراراج کاپول کھول دیا۔ وسندرا راج نے ٢٠١١ء میں لیڈرآف اپوزیشن ہوتے
ہوئے لندن میں امیگریشن محکمے کے سامنے مودی کے ایک گواہ کے طورپرحلف نامہ
داخل کیاتھاجس میں یہ بھی لکھاتھاکہ ان کی اس گواہی کی اطلاع کسی بھارتی
اہلکارکونہ دی جائے اور اسے بھارتی حکومت سے مخفی رکھاجائے۔ اس کے ساتھ
انکشاف بھی ہواکہ مودی نے راج کے بیٹے وشینت(ممبرپارلیمنٹ) کی کمپنی میں
بھاری سرمایہ کاری بھی کی ہے۔
للت مودی نے یہ دہمکی بھی دی ہے کہ اگلے چندہفتوں میں وہ کچھ اور
سیاستدانوں کاپول بھی کھول سکتا ہے۔اس کاکہناہے کہ اس کے پاس سوسے زائدایسے
سیاستدانوں کی فہرست ہے جنہوں نے آئی پی ایل کی میزبانی کالطف اٹھایا،اس کے
علاوہ حوالہ ڈیلروں کے ساتھ سیاست دانوں اورچندکرکٹ کھلاڑیوں کے روابط کے
پختہ ثبوت بھی ہیں۔بہرحال اب واضح ہوگیا ہے کہ للت کے دوستوں نے جواب وزراء
اعلیٰ بن گئے ہیں ،اپنے مفروردوست کوبچانے کیلئے مشترکہ کاوش کی۔اس سے
معلوم ہوتاہے کہ راج نے للت مودی کی حمائت میں جس حلف نامہ پر دستخط کئے ،اس
میں انہیں بی جے پی قیادت کی حمائت حاصل تھی۔یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ
راج نے اس حلف نامے پردستخط کرنے کیلئے بذات خود لندن میں قیام
کیاتھا۔اپوزیشن،وزیراعظم مودی کووہ ٹوئٹ پیغام بھی یاددلارہی ہے جوانہوں نے
١٤جون ٢٠١٤ء کوکیاتھا: ''اب وقت آگیاہے کہ ملک میں مفادمیں سخت فیصلے
اورقدم اٹھائے جائیں۔ہم جوبھی فیصلہ کریں گے وہ قومی مفادکوسامنے رکھ کریں
گے'' ۔
تازہ انکشاف کے مطابق جولائی ٢٠١١ء میں نیتن گڈکری کی قیادت میں جب وہ بی
جے پی کے صدر تھے،پارٹی کے ایک وفدنے لندن کادورہ کیاجس میں راج ،ایرانی
اوروجے جولی کے علاوہ کئی دوسرے لیڈرشامل تھے،اب اس کی تصاویربھی میڈیامیں
آچکی ہیں۔للت مودی کے معاملے نے جوسیاسی طوفان پیدا کیاوہ ابھی ٹھنڈانہیں
ہواتھاکہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کے بارے میں
دہلی کی ایک عدالت نے فیصلہ سنادیاکہ الیکشن کمیشن میں متضادحلف نامہ داخل
کرنے اوراپنی غلط تعلیمی استعدادبتانے پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا
جاسکتاہے۔وزیراعظم مودی کی منظورِنظرٹی وی اداکارہ سے وزیربننے والی سمرتی
ایرانی نے ٢٠٠٤ء میں پہلاپارلیمانی الیکشن لڑا تھاتو حلف نامے میں اپنی
تعلیمی لیاقت بی اے درج کی تھی جبکہ ٢٠١٤ء میں الیکشن لڑتے وقت انہوں نے
اپنی تعلیمی استعدادبی کام فرسٹ ایئر بتائی،یہ حقائق چھپانے کاسنگین جرم
ہے۔یہ بات توطے ہے کہ بھارتی وزیرتعلیم کی تعلیمی استعداد گریجوایٹ
ہرگزنہیں ہے۔
مغربی صوبہ مہاراشٹرمیں بھی ایک بڑااسکینڈل سامنے آیاہے جسے بی جے پی کے
دورِحکومت کاپہلا اسکینڈل قراردیاجارہاہے۔آنجہانی گوپی ناتھ سنڈے کی بیٹی
پنکجا منڈے پرجوریاستی حکومت میں بچوں اور خواتین کی بہبودکی وزیرہیں، میں
بچوں اور خواتین کی بہبودکی وزیر ہیں ،اصول وضوابط کوبالائے
طاق رکھ کرایک ہی دن میں ٢٠٦کروڑروپے مالیت کی خریداری کی اجازت دیدی گئی۔
ایک ممنوع قرار دی گئی این جی اوکواس کاٹھیکہ دیاگیاجس کا کنٹریکٹ ٢٠١٣ء
میں ختم کردیاگیاتھا۔مہاراشٹرکے ایک وزیرتعلیم ونودتاوڑے پریہ الزام
عائدکیاگیاکہ اس نے ایک ایسے کالج سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے جوآل
انڈیاکونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن سے منظور شدہ نہیں ہے۔مبینہ طورپر جعلی
ڈگریاں رکھنے والے لوگ تعلیم کاشعبہ سنبھالیں گے تواندازہ کیاجاسکتاہے کہ
بی جے پی ملک کوکس سمت لیجاناچاہتی ہے۔
بہرحال ان واقعات سے وزیراعظم مودی کاصاف ستھری سیاست اورحکمرانی کانعرہ
سراب ثابت ہورہاہے اور عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ حکومت من موہن
سنگھ حکومت کی ہو بہوتصویرہے جوکرپشن کی دلدل میں لت پت تھی۔مودی کابینہ
میں ایسے کارکنان ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمات چل رہے ہیں،ان میں ٣١فیصدمجرمانہ
پس منظررکھتے ہیں۔١٧فیصدکے خلاف سنگین دفعات کے خلاف مقدمات قائم ہیں۔فروغ
انسانی وسائل کے ایک جونیئر وزیررام شنکرکٹھاریہ کے خلاف قتل سمیت ٢٣مقدمات
درج اورجعلی ڈگریاں رکھنے کاالزام بھی ہے۔ایک وزیرکے خلاف عصمت دری کامقدمہ
بھی درج ہے۔ گری راج سنگھ ،وی ایس چوہدری اور دیگر وزیروں کے خلاف معاشی
جرائم کے مقدمات درج ہیں۔تازہ معاملات نے واضح کردیاہے کہ ہاتھی کی طرح بی
جے پی کے دکھانے اورکھانے کے دانت الگ الگ ہیں لیکن اس سے نہ صرف مودی
حکومت بلکہ بی جے پی کے امیج (اگراب تک کچھ باقی بچ رہا ہے )کوزک پہنچ رہی
ہے۔
عرب نیوزعالمی سطح کامؤقر،متوازن اورمقبول جریدہ تصورکیاجاتاہے۔اس کی ایک
تازہ اشاعت میں بھارتی تجزیہ کارراجیوشرمالکھتے ہیں کہ للت مودی پر تین
سوملین ڈالر سے زائد رقم کے غبن کے متعلق الزامات عائدکیے جارہے ہیں ۔وزیرخارجہ
سشماسوراج کے علاوہ راجستھان کی وزیراعلیٰ جن کاتعلق بی جے پی سے ہے،للت
مودی کی امدادکے باعث شدیدتنقیدکی زدمیں ہیں لیکن حیرت ہے کہ نریندرمودی چپ
سادھے ہوئے ہیں اوران کی جماعت کے قائدین دونوں خواتین کے دفاع میں بڑھ چڑھ
کربول رہے ہیں،مودی نے اس وقت بھی زبان نہیں کھولی جب بی جے پی کے ایک
رہنماآرکے سنگھ نے للت مودی پرشدیدتنقیدکی اوران کوبھگوڑاقراردیتے ہوئے
مطالبہ کیاکہ ان کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں ۔اس معاملے میں نریندرمودی کی
خاموشی مجرمانہ ہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیامودی بھی اس جرم میں شریک
ہیں یاپھربزدل،کہ وہ اپنی طرف سے واضح اقرارنہیں کرتے۔ بلاشبہ ان کی خاموشی
نیاسیاسی بحران پیداکردے گی اوربی جے پی کی طرف سے تبدیلی کے کھوکھلے نعروں
کی قلعی پوری طرح کھل جائے گی! |