نور اعلیٰ نور - قسط ۱۴

ذولفقار اطمینان سے یونیورسٹی میں اپنے روم میں بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔وہ اپنا لیکچر دے آیا تھا۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ انجینیرنگ کر کے لیکچرار بنے گا۔ مگر اسے یہ جاب بہت پسند آئی تھی۔ وہ اپنی جاب سے بہت مطمئن تھا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘ اس کے روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔
’’پلیز کم ان!‘‘۔ ذولفقار نے سوچا کہ شاید کوئی اسٹیوڈنٹ ہو گا، مگر جب دروازہ کھلا تو نیلوفر کو اندر آتا پایا۔ وہ چونک کر کھڑا ہو گیا۔نیلوفر کو سامنے دیکھتے ہی اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں اور اب بھی اس کا کچھ ایسا ہی حال تھا۔
’’ایکسکیوز می! آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کیا؟؟؟‘‘ نیلوفر اپنے خوشگوار انداز میں بولی۔ہمیشہ کی طرح وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ سر سے پاؤں تک چمک رہی تھی۔
’’نہیں نہیں ! بالکل نہیں…… آپ بیٹھیں……‘‘ ذولفقار نے اپنے روم میں رکھی ایک چیئر کی طرف اشارہ کیا۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھا کہ نیلوفر اس کے روم میں آئی ہے۔
’’تھینک یو!‘‘۔ یہ کہہ کر نیلوفر پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’ایکچلی…… اگلے سیمسٹر میں مجھے انڈسٹریل آٹومیشن پڑھانی ہے…… ایچ او ڈی صاحب نے بتایا ……‘‘
’’انہوں نے آپ کو ریفر کیا ہے کہ ……کچھ بکس وغیرہ اگر ہوں تو مجھے بتا دیں‘‘۔ نیلوفر جس کام کے لئے آئی تھی سیدھی سیدھی اسی کے بارے میں بات کرنے لگی۔ مگر اندر ہی اندر وہ بھی بہت خوش تھی۔ اسے ذولفقار پسند آیا تھا۔ اور یہی تو اس کا سب سے پسندیدہ کھیل تھا…… پیار محبت کا کھیل…… جزبات و احساسات کا کھیل……
’’جی!جی! میرے پاس ہیں…… کئی بکس ہیں……میں آپ کو بتا دیتا ہوں……‘‘ یہ کہہ کر ذولفقار اپنی ڈیبل پر پھیلی کچھ کتابوں کو ادھر ادھر کرنے لگا۔ پھر ایک کتاب اٹھا کر بولا۔ ’’یہ کافی بیسک کتاب ہے…… ایزی بھی ہے……‘‘
’’مشکل کتابیں بھی سمجھ سکتی ہوں میں……‘‘۔ نیلوفر نے ایک ادا سے مسکراتے ہوئے کہا۔ اور ایک سفید رنگ کی جلد کی کتاب ذولفقار کے ہاتھوں سے لے لی۔ ذولفقار بھی مسکرا گیا اور اس کا بے تکلفانہ انداز دیکھ کر کھل اٹھا۔
’’آپ کو کچھ پوچھنا ہو تو میں ہیلپ کر دوں گا……‘‘ ذولفقار نے پیشکش کی۔
’’جی تھینک یو‘‘۔یہ کہہ کر نیلوفر وہیں بیٹھی اس کتاب کی ورق گردانی کرنے لگی۔ وہاں سے اٹھی نہیں۔ ذولفقار بھی خاموشی سے وہیں بیٹھا اسے گھور رہا تھا۔اور نیلوفر جانتی تھی کہ وہ اسے خوب اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔مگر وہ اس احساس کا مزہ لے رہی تھی کہ وہ کتنی خوبصورت ہے…… اور لوگ اس میں کیسے کھوئے جاتے ہیں…… اسے ان سب چیزوں سے سکون ملتا تھا۔جب اسے لگا کہ اب بہت ہو گیا تو وہاں سے اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔

اس کے جاتے ہی ذولفقار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کچھ دیر خاموشی سے اپنے بارے میں سوچنے لگا۔ پھر اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ اسے دیکھ کر ہی اس کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا تو اسے پانے کے بعد کیا ہو گا !!!
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار یونیورسٹی کی لائبریری میں اپنے کچھ کولیگز کے ہمراہ بیٹھا تھا۔یہ سب ہلکی ہلکی آواز میں مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے۔ اتنے میں ایک دو اور فی میل ٹیچرز آ گئیں اور انہوں نے بھی انہیں جوائن کر لیا۔ ان میں سے ایک نیلوفر بھی تھی۔

’’اسلام و علیکم !‘‘ نیلوفر نے مسکراتے ہوئے سب کو سلام کیا۔
’’کیسے ہیں آپ سب؟؟؟‘‘ اس نے سب کاحال چال پوچھا۔
’’الحمد اﷲ، آپ کیسی ہیں؟‘‘ سر فیضان جو ساتھ ہی بیٹھے تھے نیلوفر سے پوچھنے لگے۔ ذولفقار ساتھ ہی خاموشی سے بیٹھا تھا۔ دل ہی دل میں وہ بہت خوش تھا کہ شاید آج نیلوفر سے کچھ بے تکلفانہ گفتگو ہو جائے۔

’’اور ذولفقار صاحب! آپ کو یونیورسٹی کیسی لگی؟؟؟‘‘ نیلوفر نے بڑے پر اعتماد انداز میں ذولفقار سے پوچھ ڈالا۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تو ویسے ہی نیلوفرکو دیکھ کر تیز ہو جاتی تھیں، وہ زرا سنبھل کر بیٹھ گیا۔
’’جی الحمد اﷲ! بہت اچھا ٹائم گزر رہا ہے‘‘۔
’’اچھا ماحول ہے یہاں کا……‘‘ ذولفقار نے محسوس کیا کہ دوسرے افراد جو ساتھ بیٹھے تھے کے چہروں پر کچھ مختلف سی معنی خیز مسکراہٹ آ گئی ہے۔
’’ام م م…… میں نے تو اسٹڈی بھی یہیں سے کیا ہے …… میرے لئے تو یہ کوئی نئی جگہ نہیں……‘‘ نیلوفر نے خود ہی بتانا شروع کردیا۔
’’ما شاء اﷲ! کب سے پڑھا رہی ہیں آپ یہاں؟؟؟‘‘ ذولفقار نے جھجھکتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’مجھے بھی ابھی اسی سیمسٹر میں…… ابھی ہی جوائن کیا ہے میں نے …… ابھی ہی گریجویٹ کیا ہے…… یہیں سے……‘‘ نیلوفر نے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں بات کی۔
’’اوہ…… یعنی آپ میرے بیچ کی ہی ہیں؟‘‘ ذولفقار نے خوش ہو کر کہا۔
’’ام م م…… ہاں…… جی ……ہمارا بیچ سیم ہی ہو گا……‘‘ اتنے میں چند ایک ٹیچرز ان کے پاس سے اٹھ کر جا چکے تھے۔ ان دونوں نے ان کی روانگی کی زرا پرواہ نہ کی۔ بلکہ انہیں تو پتا بھی نہ چلا کہ اب ان کے ساتھ صرف نیلوفر کی ایک ہی دوست بیٹھی رہ گئی ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی لائبریری میں رکھے ریک پر رکھا اخبار پڑھنے اٹھ گئیں۔ یہ دونوں دیر تک وہیں جمے نا جانے کیا کیا باتیں کرتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

وحید کا علاج مکمل ہو گیا تھا۔ آج انہیں اسے گھر واپس لانا تھا۔ ڈاکٹرو کے مطابق اس کا نفسیاتی علاج بھی ضروری تھا۔ وہ بھی اسی فلاحی ادارے نے کروا دیا تھا۔

’’عائشہ! امی کہاں گئیں ہیں؟؟؟‘‘ذولفقار یونیورسٹی سے پڑھا کر واپس آ چکا تھا۔ انہیں وحید کو لینے جانا تھا مگر امی گھر پر نہیں تھیں۔
’’وہ چچی کی طرف گئیں ہیں‘‘۔ عائشہ نے جواب دیا۔
’’چچی کی طرف !!! ‘‘ ذولفقار چونک سا گیا۔
کچھ دن پہلے ہی اس کی امی اس کے اور اسکے چچا کی بیٹی زیبا کے رشتے کی بات کر رہی تھیں۔ اور اب وہ چند ہی دنوں میں ان کے گھر چلی گئیں تھیں۔ یہ بات ذولفقار کے لئے حیران کن تھی۔
’’مگر آج تو وحید کو ہسپتال سے واپس لینے جانا تھا!!!‘‘
’’امی بھول کیسے گئیں؟؟؟‘‘
’’نہیں…… اصل میں چچا چچی کا فون آیا تھا وہ بھی وحید کو ہسپتال سے لینے جانا چاہتے تھے…… اس لئے امی ان کے ہاں گئی ہیں……‘‘ عائشہ نے وضاحت کی۔
’’اچھا!‘‘ ذولفقار نے خوشگوار انداز میں کہا۔

ذولفقار کو زیبا پسندتھی۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جن سے شادی کرنے کے بارے میں ذولفقار نے کبھی نا کبھی زندگی میں سوچا ضرور تھا۔

پر آج کل اس کے خیالات میں نیلوفر ضرور رہتی تھی مگر ابھی تک اسے اس سے کوئی عشق و محبت نہیں ہوا تھا۔ لہذاوہ اس کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھا۔ وہ لڑکی بہت پرکشش تھی اور اسے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ مگر اس طرح کسی انجان لڑکی سے رشتہ داری کرنے کا خیال اس کے دل میں کبھی نہیں آیا تھا۔

رات تک سب وحید کو گھر واپس لے آئے۔ سب بہت خوش تھے۔ حسب توقع ان کی امی بھی بہت خوش تھیں۔ چچا چچی رات ذیادہ ہونے کے باعث باہر ہی سے واپس ہو گئے۔
سب وحید کی آؤ بھگت میں لگے ہوئے تھے۔ اس کی خیر خیریت پوچھ رہے تھے۔ اسے پوری توجہ دے رہے تھے۔ اگر ان کی خوشی میں کوئی شامل نہیں تھا تو وہ سدرہ تھی۔ جو ہاسٹل میں ہی پڑی تھی۔

’’امی ! آپ چچی کی طرف کیسے چلی گئیں؟؟؟‘‘ اچانک ذولفقار کو خیال آیا۔ اس نے جھٹ سے اپنی امی سے پوچھا۔ وہ ان کا تبصرہ سننا چاہتا تھا۔
حالات نے ان سب کو ہی سیدھا کر دیا تھا۔ ورنہ یہ لوگ اتنے خوش اخلاق کہاں تھے کہ ایک بار کسی سے قطع تعلق کر لیا تو پھر ان سے روابط بڑھائیں۔

’’ہاں بیٹا، بڑا اچھا لگا……‘‘۔ امی بہت مطمئن اور خوش نظر آ رہی تھیں ۔
’’بہت خاطر مدارات کیں انہوں نے ……‘‘
’’شکر ہے اﷲ کا…… ‘‘۔ ’’ زیبا بھی ملی تھی…… بہت پیاری لگ رہی تھی‘‘۔ اپنی امی کے منہ سے یہ باتیں سن کے ذولفقار سمجھ گیا تھا کہ ا سکی امی کن چکروں میں ہیں۔ ذولفقار کو اس رشتے پرکوئی خاص اعتراض نہ تھا۔ بس وہ فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔اگر زیبا سے صرف منگنی ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔

’’اگلے ہفتے میں نے انہیں دعوت پر بلایا ہے …… کہہ رہے تھے کہ آئیں گے……‘‘۔
’’آئیں گے وہ؟؟؟‘ عائشہ نے ان کے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں……کہہ رہے تھے کہ آئیں گے سب……‘‘ ذولفقار کی امی نے پھر عائشہ کی طرف توجہ کر کے جواب دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار کے گھر میں قہقہے گونج رہے تھے۔ آج ان لوگوں نے چچا چچی اور انکے سب گھر والوں کی دعوت کر رکھی تھی۔ زیبا بھی آئی تھی، بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ…… ذولفقار تو جانتا ہی تھی کہ اس کی امی کن چکروں میں ہیں۔ لہذا اس نے بھی آج زیبا کو اچھی طرح پرکھ کر کچھ فیصلہ کر لیا۔

چچا جان بڑے نرم دل کے آدمی تھے۔ ذولفقار کے والد مرحوم کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ بڑے پیار سے ، اتفاق سے ان دونوں بھائیوں نے وقت گزارا تھا۔ زیبا بھی بڑھ بڑھ کر دعوت میں چھوٹے موٹے کاموں میں عائشہ اور اسکی امی کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ چچی جان بھی خوش تھیں اور کھلے دل سے سب گھر والوں سے باتیں کر رہیں تھیں۔ ان کا کرایا جادو تو ٹوٹ چکا تھا۔ پَر ذولفقار کی امی کے از خود میل ملاپ کرنے سے ان کے دل کا کینہ بھی دور ہو گیا تھا۔

’’بیٹا !یونیورسٹی میں کیسا وقت گزر رہا ہے؟‘‘ چچا جان نے ذولفقار سے پوچھا۔ یہ سب رات کے کھانے سے فارغ ہو کر چھت پر بیٹھے تھے۔ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ چھت پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھیں۔
’’جی چچا جان! الحمد اﷲ ، بہت اچھا جا رہا ہے سب۔‘‘ دولفقار نے چچا جان کی طرف توجہ کر کے جواب دیا۔
’’تو آگے بھی یہیں پر نوکری جاری رکھو گے یاکہیں اور……‘‘ چچا جان پوچھناچاہ رہے تھے کہ وہ اس پروفیشن کوچھوڑ کر کسی انڈسٹری وغیرہ میں اپلائے کرے گا یااب یہیں اپنا کریئر بنائے گا۔
’ا م م م…… ابھی تو کافی مزہ آ رہا ہے یہاں…… ایکچلی مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ مجھے پڑھانے میں مزہ آئے گا…… لیکن اچھا لگ رہا ہے…… فی الحال تو میں یہیں رہوں گا۔‘‘ ذولفقار نے اچھی طرح اپنی بات سمجھا دی۔ اتنے میں عائشہ نیچے سے سب کے لئے چائے لے آئی۔ گھنٹے بھر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ، چائے وائے پی کر چچا جان نے اجازت چاہی۔خوشی خوشی یہ دعوت تمام ہوئی۔

مگر اصل حل چل تو گھر میں ان کے جانے کے بعد مچی اور طے ہو گیا کہ امی ایک دو روز میں ہی چچا جان کے ہاں جا کر ان سے ذولفقار کے لئے زیبا کا ہاتھ مانگ لیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔

صبح سویرے یونیورسٹی آتے ہی ذولفقار کی نظر نیلوفر پر پڑی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بڑے احتمام سے تیار ہو کر یونیورسٹی آئی تھی۔
’’آہ……‘‘ اسے دور سے دیکھتے ہی ذولفقار نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
اچانکذولفقار نے اپنا رخ بدلا اور اس طرف چلنے لگا جہاں سے وہ آ رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ جب آمنا سامنا ہو جائے گا تو دعا سلام بھی ہو جائے گی۔ وہ سامنے سے سفید رنگ کے پلین سوٹ میں آ رہی تھی۔ وہ بالکل کوئی حسین ماڈل تھی…… ناگن جیسی چال…… جیسے جیسے ذولفقار اور وہ ایک دوسرے کے قریب پہنچ رہے تھے، اس کے دل کی دھڑکنیں ویسے ہی تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ کیا بولے گا وہ…… کس طرح بات کو طول دے گا کہ ذیادہ سے ذیادہ بات ہو سکے…… وہ یہی سب سوچتا آگے قدم بڑھا رہا تھا۔پھر اچانک نیلوفر نے دائیں طرف کا ایک دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی۔ ’’اوہ……‘‘ ذولفقار کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ اس کا دل ڈوب سا گیا۔وہ نا امیدی سے اپنا سر دائیں بائیں ہلاتا لاچار اپنے آفس کی طرف بڑھا۔

ذولفقار وہیں اکیلا بیٹھا تھا جہاں لائبریری میں اس دن نیلوفر سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ایک میگزین ہاتھ میں اٹھائے کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ اس دن کو یاد کر رہا تھا جب اس کی اسی جگہ نیلوفر سے گفتگو ہوئی تھی۔
’’اسلام و علیکم!‘‘ نیلوفر نے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’اوہ…… اسلام و علیکم!…… کیسی ہیں آپ؟‘‘ ذولفقار نے چونک کر کہا۔
’’میں بالکل ٹھیک آپ سنائیں ؟ آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’میں بھی بالکل ٹھیک ہوں……‘‘
’’کافی دنوں بعد نظر آئے آپ……!!!‘‘ نیلوفر نے پوچھا۔
’’نہیں بس…… میں تو یہیں ہوتا ہوں…… آپ کو تو کئی بار دیکھا ہے……‘‘
’’اچھا!!تو دیکھا تھا تو مل ہی لیتے!!!‘‘ ۔ نیلوفر نے پھر ایک جملہ کسا۔
’’ام م م…… بس ……وہ …… دور سے ہی دیکھا تھا……‘‘ ۔وہ تھوڑا مسکرا گیا۔ نیلوفر کی ایسی بے تکلفانہ گفتگو ذولفقار سہہ نہیں پاتاتھا۔اس سے جواب دیتے نہیں بن پڑتاتھا۔
’’ہی ہی ہی…… اچھا……‘‘۔ نیلوفر کھلکھلا کے ہنس دی۔ ذولفقار کی زندگی میں جیسے بہار آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔
پھر دونوں اپنے ہاتھوں میں پکڑی کتابوں کے صفحات الٹ پلٹ کرنے لگے۔ اندر ہی اندر وہ کسی اور ہی سوچ میں گم تھے۔ کہ اب کیا بات کریں؟؟؟ کس طرح بات آگے بڑھائیں؟؟؟
’’وہ آپ کے اگلے سیمسٹر کے کورس کی تیاری کیسی چل رہی ہے……؟؟؟‘‘۔ اﷲ اﷲ کر کے ذولفقار کو ایک معقول بات یاد آئی۔ ’’جس کے لئے آپ نے مجھ سے بکس لیں تھیں!!!‘‘۔
’’ہاں …… وہ…… بہت اچھی چل رہی ہے……‘‘ ۔ ’’ اچھی بک دی تھی آپ نے مجھے……‘‘ نیلوفر نے جواب دیا۔
’’ کس طرح گھر جاتیں ہیں آپ؟؟؟‘‘ ذولفقار نے پوچھا۔
’’ میں وین میں جاتی ہوں……‘‘
’’ اچھا ! کہاں ہے آپ کا گھر؟؟؟‘‘
’’ہم گلشن اقبال میں رہتے ہیں‘‘۔
ان کی باتیں اسی طرح چلتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’ہیلو ! میں لائبریری میں بیٹھا ہو…… آ جاؤ‘‘
ذولفقار
ذولفقار نے نیلوفر کو میسج کیا اور لائبریری کی طرف جانے لگا۔ وہ بڑا خوش رہنے لگا تھا۔ اتنی اچھی جاب اسے مل گئی تھی اور ساتھ ساتھ وقت گزاری کے لئے اتنی اچھی لڑکی بھی…… عمر کے اس حصے میں اسے اور کیاچائیے تھا۔ اب تونیلوفر اور ذولفقار کا ہی جوڑا پوری یونیورسٹی کی زینت بنا ہوا تھا۔ نیلوفر نے ذولفقار کوپوری طرح اپنا عادی بنا لیا تھا۔

’’ہائی…… ‘‘ ۔ نیلوفر لائبریری میں داخل ہوئی۔
’’ ہیلو ! کیا حال ہے بھئی…… کہاں ہو صبح سے کوئی کال نہیں کی……‘‘ ۔ ذولفقار نے اسے دیکھتے ہی شکوہ کیا۔ اب ان کی گفتگو میں کوئی تکلف نہیں رہا تھا۔
’’ بس یار! وہ کلاس لے رہی تھی…… تھوڑی بی زی تھی……‘‘
’’ اچھا تو اب ہمیں بھول جاتی ہیں آپ ……‘‘
’’ کل کال کر رہا تھا میں آپ کو…… آپ نے اٹھایا نہیں فون؟؟؟‘‘
’’ میں نے بتایا تو ہے…… میں فون وون پر ذیادہ باتیں نہیں کر سکتی…… گھر میں ایسے ہی……‘‘ ۔ نیلوفر نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔ وہ کہنا چاہ رہی تھی کہ اس کے گھر والے یہ پسند نہیں کریں گے کہ وہ ذولفقار سے لمبی چوڑی باتیں کرے۔
’’کل میں نے آپ کو ای میل بھی کی تھی…… وہ چیک کی……؟؟؟‘‘ ذولفقار نیلوفر کو روز ملتا تھا اور پھر گھر جا کرفون بھی کرتا۔ فون پر بات تو نہ ہو پاتی ، پھر وہ انٹرنیٹ سے اسے ای میل کرتا۔ وہ ہاتھ دھو کر نیلوفر کے پیچھے پڑا ہوا تھا اور یہی نیلوفر چاہتی تھی۔

’’ہائی سیما…… کیسی ہو تم……؟؟؟‘‘ اچانک نیلوفر ذولفقار کو یوں ہی چھوڑ کر کھڑی ہو گئی اور ایک اور ٹیچر کے پاس جا بیٹھی۔ذولفقار دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔
’’ اس طرح کیسے یہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی……‘‘۔ ذولفقارحیران رہ گیا۔
نیلوفر کو تو جیسے کوئی پراہ ہی نہ ہو…… وہ مسلسل اپنی دوست سے باتیں کرنے میں مگن تھی۔ وہ تو ذولفقار کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی اور اس سے یہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ غصے سے بپھر گیا۔
’’ یہ کیا کیا ہے اس نے……‘‘۔ ذولفقار اپنے آپ سے کہنے لگا۔ وہ تو صبح سے نیلوفر سے ملنے کے انتظار میں تھا اور وہ اتنی آسانی سے اس کے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ ’’ how dare she!!!……‘‘

ذولفقار بار بار نیلوفر کی اس بے رخی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔یہ بات اس کے سر پر سوار ہو گئی۔اس دن وہ یونیورسٹی سے واپسی پر حسن کی طرف چلا گیا۔ اس نے سوچا کہ حسن کے پاس گئے ہوئے بھی کافی دن ہو گئے ہیں اور اس کا ذہن بھی ادھر ادھر ہو جائے گا۔

’’ارے بھئی آپ !!!‘‘ ۔
’’ بس یار کام ختم …… اب دوست جائے بھاڑ میں…… ہیں!!!‘‘۔ حسن نے ذولفقار کے گلے ملتے ہوئے طنز کے نشتر چلائے۔ بہت دنوں بعد مل رہے تھے یہ……
’’ ہا ہا ہا…… نہیں یار بس……‘‘۔ ذولفقار اسے دیکھ کر خوش ہو گیا۔
’’آؤ……‘‘۔ حسن اسے گھر کے اندر ڈرائنگ روم میں لے گیا۔
’’ اور سناؤ سب ٹھیک ٹھاک ہے؟؟؟‘‘۔ ذولفقار نے حسن سے پوچھا۔ حسن کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات تھے۔
’’ ہاں یار اﷲ کا شکر ہے……‘‘۔ حسن خوب مسکرا رہا تھا۔
’’ کیا ہوا ! خیر ہے، اتنی کیوں بتیسی نکلی ہوئی ہے!!!‘‘ ذولفقار نے پوچھ ڈالا۔
’’ہی ہی ہی…… نہیں کچھ نہیں……‘‘۔ ’’ خوش ہوں یار تمہیں دیکھ کر……‘‘۔ حسن نے بات بنائی
’’ …… اور گھر والے سب کیسے ہیں……؟؟؟‘‘ ذولفقار کو گھر میں کچھ خاموشی سی محسوس ہوئی۔
’’ تمہارے گھر گئے ہوئے ہیں سب……‘‘۔ حسن نے پھر کھلکھلا کر جواب دیا۔
’’ میرے گھر…… خیریت ہے…… کیا ہوا؟؟‘‘ ذولفقارنے بھی انجان سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر بکھیری۔
’’ ایسے ہی ملنے گئے ہیں‘‘ ۔ ’’ اچھا میں چائے پانی کچھ لے کر آتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر حسن ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔

ذولفقار نے اپنی امی کو فون ملایا تو پتا چلا کہ حسن کے گھر والے حسن کے لئے ذولفقار کی بہن عائشہ کا رشتے مانگنے گئے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار بار بار نیلوفر کے روم کا نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔ مگرشاید وہ اب تک یونیورسٹی نہیں آئی تھی۔ اس کی کل کی حرکت اب تک اس کے ذہن میں چل رہی تھی۔ اس نے پھر ریسیور اٹھایا اور تین ہندسوں کا ایکسٹینشن ملایامگر بے سود۔ وہ تنگ آ کر باہر نکلا اور چائے پینے کچن کی طرف بڑھنے لگا۔

کچن میں چند ٹیچرز اور بھی کھڑے تھے۔ ذولفقار نے ایک ہی بار سب کو سلام کیا۔
’’مس سیما! آج نیلوفر نہیں آئیں!!!‘‘ کچن میں نیلوفر کی ایک دوست کھڑیں تھیں۔
’’ام م م…… نہیں ! وہ تو تین دن کے لئے لیو پر ہیں!!!‘‘ ۔ذولفقار کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ ’’آپ کو نہیں بتایا!!!‘‘ مس سیما کے چہرے پر ایک شوخی بھری مسکراہٹ تھی۔ وہ بڑے غور سے ذولفقار کے ری ایکشن دیکھ رہیں تھیں۔ ان کی حرکتیں تو سب ہی جانتے تھے۔ سب کو ان کا ایک دوسرے سے حد سے ذیادہ ملنا جلنا نظر آتا تھا۔
’’ام م م…… نہیں!‘‘ ذولفقار اپنے اڑے ہوئے رنگ کو چھپاتا ہوا زرا آگے کو بڑھا اور چائے بنانے کے لئے کپ اور کیٹل ادھر ادھر کرنے لگا۔ مگر اندر سے اس کا دل ڈوب گیا تھا۔

’’کیا میں اتنا گیا گزرا ہوں…… میں اتنا بے وقعت ہوں…… اتنے دنوں میرے آگے پیچھے گھوم گھوم کر …… مجھے آس دلا دلا کر…… مجھے بڑھاوا دے دے کر …… اب آخر یہ کیا کر رہی ہے میرے ساتھ……‘‘۔ناجانے یہ ذولفقار کی بے عزتی تھی، اس کا نیلوفر کے لئے پیار تھا یا صرف کسی کی ایسی بے رخی کا برداشت نہ کرنا…… بہرحال ذولفقار کسی انہونی کیفیت سے گزر رہا تھا۔

’’دفع کرو…… مجھے کیا……‘‘ ذولفقار نے سوچا کہ اسے کیا پڑی ہے اس کے بارے میں اتنا سوچنے کی۔ اگر نیلوفرنے اس سے منہ موڑ لیا ہے تو کوئی بات نہیں…… اسے بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

مگر یہ اتنا آسان کہاں تھا!!! اس کے ذہن پر تو وہی سوار تھی۔ اس نے بیزار ہو کر فون اٹھایا اور اس کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے کسی نے کال نہیں اٹھائی۔ اس نے پھر فون کیا مگر پھر کوئی جواب نہیں…… ذولفقار نے موبائیل پھینکا اور دوبارہ بکس نوٹس وغیرہ پر ہاتھ مارنے لگا۔
دو منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ اس نے پھر نیلوفر کا نمبر ملایا……مگر بے سود……
آدھے گھنٹے تک اس نے کم از کم اسے کوئی سو بار کال کیا ہو گا……
وہ دھڑام سے کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر جھولا جھولنے لگا۔ سارا دن اس کا اسی بے چینی و بے زاری میں گزرا……
۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ میں کیا کر رہا ہوں……‘‘
’’یہ میں کیا کر رہا ہوں……‘‘ذولفقار رات کو اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا تھا۔
’’ زیبا سے میری منگنی ہورہی ہے اور میں نیلوفر کے پیچھے پڑا ہواہوں……نہیں یہ ٹھیک نہیں ہے…… یہ ٹھیک نہیں ہے…… مجھے ایسا نہیں کرنا چائیے ……ویسے بھی اﷲ نے مجھ پر کتنے احسانات کئے ہیں…… اب میں اس طرح کے کام کروں……یہ ٹھیک نہیں ہے‘‘۔
’’یہ تو ویسی ہی حرکتیں ہیں جیسی میں پہلے کیا کرتا تھا…… نہیں!!! …… یہ تو گناہ کے کام ہیں…… برے کام ہیں……میں دوبارہ ویسا نہیں بننا چاہتا…… مجھے ایسا نہیں کرنا چائیے……‘‘
’’ویسے بھی…… نیلوفر نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے…… دیکھو! کیسے مجھے چھوڑ کے بھاگ گئی …… ہونھ…… اﷲ مجھے معاف کر دینا…… میں رستے سے بھٹک گیا تھا……مجھے معاف کر دینا‘‘
’’یہ دنیا کی رنگینیاں تو میرے آس پاس منڈلاتی ہی رہیں گی…… مجھے اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھنا چائیے……اﷲ میری مدد فرما…… ویسے بھی تیرے سوا میرا اور کون ہے……آئی ایم سوری…… مجھے معاف کر دے……‘‘۔ ذولفقار کو سکون سا مل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

’’تمھارے سارے دعوے جھوٹے ہیں……‘‘
’’تمھاری کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ تم اس باطل نظام میں رچے بسے رہتے ہو……‘‘
’’اس میں پھلتے پھولتے ہو…… اور کہتے ہو کہ تم اﷲ سے محبت کرتے ہو!!!!…… رسول سے محبت کے دعوے ہیں……!!!‘‘یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں کوئی گرج رہا تھا۔ ذولفقار اپنے روم میں بیٹھا کچھ مطالعے کی کوشش میں لگا تھا مگر یہ ساری آوازیں سن کر وہ اپنا دھیان پڑھنے پر مرکوز نہ رکھ پایا۔
’’تم کتاب اﷲ کی ایک آیت کو چومتے ہو اور دوسری کو اپنے پیروں تلے روند دیتے ہو؟؟؟‘‘ ذولفقار اس آواز کے پیچھے پیچھے آڈیٹوریم میں داخل ہوا۔ ایک معتبر بزرگ ڈائس کے پیچھے کھڑے پورے جوش و جزبے کے ساتھ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔
’’جس اﷲ نے نمازیں پڑھنے کا حکم دیا ہے ……وہی کہتا ہے کہ زانی کی سزا سو کوڑے اور ڈاکو اور فتنہ گروں کی سزا یہ ہے کہ ان کی ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ پھینکے جائیں……‘‘
’’تم نمازیں تو خوب پڑھتے ہو اور اپنے مقدمات کا فیصلہ انگریزی قانون سے کراتے ہو؟؟؟‘‘
’’جو لوگ اﷲ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں…… وہی تو ظالم ہیں…… وہی تو فاسق ہیں‘‘ سورۃ المائدہ آیت ۴۴،۴۵،۴۷۔ انہوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیا۔
’’جب تک تم اس مشرکانہ نظام سے نفرت نہیں کرتے……اسے بدلنے کی جدوجہد نہیں کرتے ……تمہاری ساری نمازیں جھوٹی ہیں……‘‘ ان کی آواز بہت اونچی ہو چکی تھی۔
’’اﷲ صدا لگا چکا کہ کون (اس کے دین میں)اس کا مددگار بنتا ہے!!!‘‘
’’تم نے اﷲ کو مسجدوں میں قید کر دیا ہے……اسے اپنی معاشی زندگی……اپنی سیاسی زندگی سے نکال پھینکا ہے……‘‘
’’آج دنیا میں کفر کا راج ہے……اٹھو !!!……اور اﷲ کے دین کو پوری دنیا پر غالب کر دو……‘‘
’’وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘


بزرگ مہمان نے اپنی تقریر ختم کی اور اسٹیج سے نیچے تشریف لائے۔ ذولفقار کی نظریں انہی پر ٹکی تھیں۔وہ کچھ پریشان سا ہو گیا۔ ایسی عجیب باتیں تو اس نے پہلی دفعہ سنیں تھیں۔وہ کافی دیر تک وہیں آڈیٹوریم میں بیٹھا رہا۔ دوسرے کچھ حضرات نے اپنا لیکچر دینا شروع کر دیا۔ مگر ذولفقار پر دوسروں کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔اس کی نظریں تو ان ہی بزرگ پر مرکوز تھیں جو پہلی صف میں چند اور مہمانوں اور اساتذہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔
’’یہ حضرت کون ہیں؟‘‘ ذولفقار نے اپنے ساتھ بیٹھے ایک لیکچرار سے پوچھا۔اسے ان کا چہرا جانا پہچانا سا لگا۔
’’کون؟؟؟‘‘ انہوں نے ذولفقار کی طرف توجہ کی۔ ذولفقار نے اپنا سوال دہرایا۔
’’یہ ڈاکٹر سراج الدین صاحب ہیں نا……‘‘۔’’ بہت مشہور ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔

نیلوفر کو یونیورسٹی سے گئے ہوئے کوئی دس دن بیت چکے تھے۔ ذولفقار کو بے شک بیچ بیچ میں اس کی یاد آتی اور وہ بے قابو سا ہو کر اس کا موبائیل نمبر ڈائیل بھی کرتا مگر کوئی جواب نہ ملنے پر وہ پھر روز مرہ کے شغل میں لگ جاتا۔ حقیقتاََاس واقعے کے بعد ہی ذولفقار کو اندازہ ہوا کہ اس کا نیلوفر کے ساتھ کوئی گہرا جزباتی تعلق نہیں ہے اسی لئے وہ اسے چند دن میں ہی بھلا پایا ہے۔ ورنہ اگر کوئی روائیتی عاشق ہوتا تو شاید اس کی حالت کچھ اور ہی ہوتی۔

سدرہ کو بھی بتا دیا گیا تھا کہ ذولفقار اور عائشہ دونوں بہن بھائیوں کی ساتھ ہی منگنی ہو رہی ہے ۔ سدرہ تو اپنی دھن میں مگن تھی۔ عائشہ کا حسن کے ساتھ رشتہ ہونے پر سب بڑے خوش تھے۔ ذولفقار کی منگنی زیبا کے ساتھ ہونا بھی سب کو قبول تھا…… بس اس میں اگر کوئی استثنی تھا تو وہ تھی ذولفقار کی چھوٹی بہن سدرہ۔ وہ خواہ مخواں ان رشتوں سے نا خوش تھی۔وہ تو تھی ہی ان لوگوں میں سے جنہیں آج کل کی زبان میں ’’چراند‘‘ کہا جاتا ہے۔

بہرحال دونوں کی منگنی ایک ہی دن ہونا طے پایا۔ وحید تو پہلے ہی گھر واپس آ چکا تھا۔ سدرہ بھی گھر آگئی تھی تا کہ منگنی کی تقریب میں شرکت کر سکے۔ ان مصروفیات کے باعث بھی ذولفقار کا ذہن نیلوفر کی طرف سے ہٹ گیا تھا۔بلکہ کبھی کبھار وہ زیبا کو فون کر لیتا تھا۔وہ اس سے کوئی لمبی چوڑی غزلیات تو نہ کہہ سکتا تھا کیونکہ یہ سب چچا کے گھر برا سمجھا جاتا تھا۔مگر پھر بھی تھوڑی بہت ہائی ہیلو ہو جاتی تھی زیبا سے……

یونیورسٹی میں بھی آج کل وہ پورا وقت نہیں دے پا رہا تھا۔ وہ اپنے کولیگز اور ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کو بتا چکا تھا کہ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ کچھ دنوں کے لئے مصروف ہے۔

آخرکار وہ دن آہی گیا۔ اس دن ذولفقار اور عائشہ کی منگنی تھی۔سب بہت خوش تھے اور خوب سجے دھجے ہوئے تھے۔ تقریبا شام چھ بجے حسن اور ان کی فیملی ذولفقار لوگوں کے گھر پہنچ گئے۔ گھر کے باہر چند گاڑیاں کسی ریلی کی طرح رکیں اور ایک گاڑی سے حسن ایک خوبصورت سا کریم رنگ کا کرتا پہنے ہوئے اترا۔ اس کی امی ، چند دوست اور کچھ کزنز بھی ساتھ تھے۔

ذولفقار کے گھر میں تو سب ان ہی کا انتظار کر رہے تھے۔جلدی سے ذولفقار اور وحید نے گھر کا دروازہ کھولا اور انہیں خوش آمدید کہا۔ پیچھے سے ان کی امی بھی تیز تیز قدم چلتیں آئیں اور حسن کی امی کے گلے ملیں۔ بڑا پرجوش اور خوش منظر موقع تھا۔سب ہی چہک رہے تھے۔

’’ماشاء اﷲ!!!‘‘ حسن کی امی نے عائشہ کو دیکھتے ہی کہا۔
وہ اندر کمرے میں اپنی چند دوستوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ…… اورنج رنگ کے سوٹ میں…… اس کی کسی دوست ہی نے اس کا میک اپ کیا تھا۔ ہلکا ہلکا سرخی مائل میک اپ…… عائشہ خوش قسمت تھی۔ وہ تقریبا پچیس سال کی تھی۔اس عمر تک عموماََ لڑکیوں کے رشتے ہو جاتے ہیں اور عائشہ کا بھی اچھی عمر میں اچھی جگہ رشتہ ہو گیا تھا۔ حسن کی خوبصورت فطرت اور عادت سے سب ہی واقف تھے۔ اور ساتھ ساتھ اچھا روزگار اور تعلیم بھی ہو تو کیا ہی کہنے ہیں۔حسن کی امی عائشہ اور اس کی دوستوں کے گلے ملیں اور اسے پیار کیا۔

آدھے گھنٹے میں سب ڈرائنگ روم میں منگنی کی رسم ادا کرنے کو موجود تھے۔ حسن نے ایک پیاری سی انگوٹھی اپنی امی کے ہاتھوں سے لی اور عائشہ کی انگلی میں پہنا دی۔ چاروں طرف سے کیمرے کے فلیش چمکنے لگے اور تصویریں اتارنے کی آوازیں آنے لگیں۔
’’مبارک ہو‘‘۔ ’’مبارک ہو‘‘۔ تالیاں بجنے لگیں۔
سب ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ مٹھائی کے ڈبے کھل گئے ۔ سب ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلانے لگے۔ دس پندرہ منٹ کی اس افرا تفری کے بعد ذولفقار نے سب کو اوپر چھت پر بلانا شروع کر دیا کہ کھانا کھا لیں۔ انہوں نے چھت ہی پر کھانے کا انتظام کر رکھا تھا۔

تقریباََ دو گھنٹے بعد یہ تقریب تمام ہوئی۔جب ذیادہ تر مہمان چلے گئے اور صرف حسن کی فیملی رہ گئی تو یہ سب مل کر چچا کے ہاں گئے، جہاں زیبا ہلکے ہرے رنگ کا لباس زیب تن کئے ذولفقار کی منتظر تھی۔

وہاں بھی جوں کی توں یہی تقریب منعقد تھی۔ ذولفقار نے پچاس ہزار روپے کی ایک انگوٹھی زیبا کے لئے خریدی تھی۔یہ دن ان کی فیملی کے لئے بہت خاص دن تھا۔ چچا کے گھر سے تقریباََ ایک بجے رات کو سب اپنے اپنے گھر واپس پہنچے۔ہر کام احسن طریقے سے انجام پایا۔ سب نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 86312 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More