تحریر ! ماجد خان
انفرادی اور اجتماعی زندگیکی ترقی کے لئے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اعتماد
ایک ایسا لازمی جزو ہے جس کے ہونے اور نہ ہونے سے بہت اثر پڑتا ہے۔اعتماد
اگر ہو تو انسان ہو یا قوم عروج کی رفعتوں کو چھو لیتی ہے۔اور اگر نہ ہو تو
زوال کی پستیاں مقدر بن جاتی ہیں۔ یہ اعتماد آگہی سے آتا ہے۔ قوموں کو
اعتماد اس کے با کردار اور غیرتمند افراد دیتے ہیں ۔قوموں کی تاریخ سے جب
باغیرت، با کردار اور اپنی آزادی ۔ قومی پہچان اور آبرو کی حفاظت کرنے
والوں کے تذکرے سے خالی ہو جائے یا کردی جائے تو قومیں اپنا وجود کھو دیتی
ہیں۔ایسا ہی کچھ عمل ہم کشمیریوں کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔آزاد کشمیر
جیسے خطہ میں جہاں ویسے بھی کشمیر کی تاریخ سے لوگوں کو سرکاری سطح پر لا
علم رکھنے کی ریت پڑی ہوئی ہے اور وطن کے نونہالوں کو زبردستی اغیار و
قابضین کی شخصیتوں کے احوال نصاب میں شاملک کرا کر پڑھنے پر مجبور کیا جاتا
ہے۔ایسے میں ہر محب وطن کشمیری کا فرض ہے کہ وہ زبان و تحریر سے وطن کے
نامور سپوتوں کا کردار سامنے لائے۔
خواجہ غلام نبی گلکار تحریک آزادی کشمیر کا کا ایک ایسا نام ہے جس کے تذکرے
کے بغیر تا ریخ تحریک ّزادی کشمیر نا مکمل ہے۔غلا م نبی گلکارجیسے لوگ
محکوم اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف قوموں کی زندگی میں گوہر نایاب کی
حیثیت رکھتے ہیں۔خواجہ غلام نبی گلکار سری نگر میں 1909میں پیدا ہوئے۔والد
کا نام خواجہ محمد خضر تھا جو پیشہ کے اعتبار سے معمار تھے جسے کشمیر میں
گلکاری کہتے ہیں ۔کتنی دلچسپ بات ہے کہ باپ لوگوں کے لئے معمار تھا اور
بیٹا قوم کا معمار بنا۔ گلکار صاحب نے اپنی تعلیم کا آغاز اسلامیہ ہائی
اسکول سے کیا ور پھر سری پرتاب اسکول سے میٹرک کیا۔ ایس پی کالج سرینگر سے
انٹر کا امتحان دوران اسیری دیا جب ڈوگرہ راج نے آپ کو قید کر رکھا
تھا۔اپنی حریت پسندانہ مزاج نے انھیں زیادہ دن باہر نہ رہنے دیا اور ایک
بار پھر قید کرلئے گئے۔ اس قید کے دوران آپ نے بی اے کا امتحان پاس
کیا۔نامور کشمیری محقق محمد الدین فوق صاحب کے مطابق آپ اپنے خاندان کے سب
سے پہلے فرد تھے جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔
1930تک کشمیر میں کسی قسم کی انجمن یا جماعت کا بنانا قانونی جرم تھا۔ اپنے
زمانہ طالب علمی سے ہی آپ نے کشمیری قوم میں تبدیلی کی جدوجہد کا آغاز
کردیا تھا۔ آپ میلوں ٹھیلوں، عرس، خانقاہوں ، مسجدوں دعوتوں میں جا کر
تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جن کا بنیادی مقصد تعلیم، اتحاد اور معاشرتی بد
رسومات کے خاتمہ تھا۔آپ نے کشمیر مسلم سوشل اپلفٹ ایسوسی ایشن بنائی جس کے
آپ پہلے صدر تھے۔اس سے قبل آپ ہندو کشمیری اور مسلم کشمیری کو ملا کر کشمیر
سوشل اپلفٹ کے نام سے انجمن بناے کی کوشش کرچکے تھے جسے کشمیر پنڈتوں نے
مسترد کردیا اور اپنی الگ ہندو سوشل اپلفٹ انجمن بنا لی۔ پھر آپ نے کشمیری
مسلم سوشل اپلفٹ بنائی۔اس پلیٹ فارم سے کشمیری مسلمانوں میں تعلیم عام کرنی
کی غرض سے ایک سو کے لگ بھگ نائٹ اسکول کھولے گئے۔پھر مخیر حضرات سے مل کر
دو ڈھائی سو کے لگ بھگ مسلمان لڑکوں کے کالج میں داخل کرایا اور انھین
کتابیں اور فیسیں مہیا کیں۔ان کے اس اقدام کی وجہ سے مسلمانوں میں تعلیم کے
لئے جوش پیدا ہوا جو أگے چل کر ان کی ترقی کا باعث بنا۔خواجہ غلام نبی
گلکار کے نادر موجود انقلابی اور بیدار روح انھیں مسلسل متحرک رکھتی
تھی۔ایک طرف وہ مسلمانان کشمیر کی فلاح و بہبود کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہوتے
تو دوسری طرف وہ کشمیری قوم میں احساس اور جذبہ حریت کو زندہ کرنے کے
منصوبوں پر عمل درآمد کرتے نظر آتے۔1931میں انھیں شیخ عبداﷲ سمیت دیگر
رہنماؤں کے ہمراہ جب گرفتار کرکے قلعہ ہری پربت لے جایا گیا تو وہ سب سے
پہلے قیدی تھے جنھوں نے کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا کیوں کہ وہ سب سے آگے آکر
کھڑے ہوگئے تھے کہ زنداں میں انھیں پہلے دالا جائے اس موقعہ پر انھیں شیر
دل نوجوان کا خطاب ملا۔ان قیدیوں کی رہائی کے لئے کشمیر میں بہ طور احتجاج
19دن تک مسلسل ہڑتال کی جس کی بناء پر ڈوگرہ حکومت کو انھیں رہا کرنا
پڑا۔گلگارصاحب کی انقلابی صفت کا مظاہرہ کشمیریوں نے اس وقت بھی دیکھا جب
24ستمبر کو شیخ عبداﷲ کو گرفتار یا گیا تو انھوں نے میر مقبول اور حبیب اﷲ
اور ند دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سر عام مسلح بغاوت کا مظاہرہ کی
گیا۔انھوں نے لوہاروں کے راتوں رات ہتھیار تیار کرنے کی ہدایت دیں اور
دوسرے دن سری نگر میں رضاکاروں نے بازاروں میں ہتھیار بند گروہ در گوہ پریڈ
کی۔ رضاکاروں کو یہ بھی ہدیت تھی کہ وہ کسی غیر مسل کو ہاتھ نہ لگائیں۔کھلے
بندوں ان مسلح مظاہروں سے پولیس اور فوج کو بھی تنبیہ دی گئی تھی کہ وہ
باہر نظر نہ آئیں۔مہاراجہ نے ان حالات میں برما آرڈیننس19/Lکا نفاذ کر کے
مارشل لاء لگا دیا ۔اس موقعہ پر برے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ لوگوں
کو گرفات کر کے ازیتناک سزائیں دی گئیں اور انھیں کوڑے مارے گئے۔ ا س موقعہ
پر گلکار صاحب نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی سے مل کر آواز ا ٹھائی اور وائسرائے
ہند کو بھی آگاہ کیا۔ اس دباؤ کی وجہ سے ڈوگرہ حکومت نے تمام گرفتار شدگان
کو رہا کیا۔
1946میں گلکار صاحب نے ریاست جموں کشمیر میں ہونے انتخابات میں آزاد
امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور اپنی عوام دوستی اور خدمات کی بنیاد پر
منتخب ہوئے۔ڈوگرہ حکومت نے انھیں ہرانے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال
کئے ۔عوام کو مختلف طریقوں سے خریدنے کی کوشش کی گئی لیکن عوام نے ہر طرح
کے لالچ ڈر اور خوف کا خاطر میں نہیں لائے اور انھیں منتخب کیا۔گلکار صاحب
کو 1931سے لے کر1949تک چھ بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرناپڑی لیکن
جذبہ حب الوطنی نے آپ کے ارادوں میں لغزش نہ آنے دی اور قومی مطالبات سے
دستبردار نہ ہوئے۔خواجہ غلام نبی گلکار صاحب نے 1931میں وصیت کی جو رہتی
تاریخ تک یادگار رہے گی۔ آپ نے جامع مسجد سری نگر میں پہلے ہی روزہزاروں کے
مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ۔۔۔اگر میں مارا جاؤں یا مرجاؤں تو میری نعش
کو بجائے قبرستان کے کسی ایسے چوراہے پر دفن کر دیا جائے جو آزادی ملنے کے
بعد مجاہدین کشمیر کا گزرگاہ ہو تاکہ انکے گزرنے اور چلنے کی آواز سے میری
روح کو تسکین ہو۔۔
ڈوگرہ راج کے خلاف جس جدوجہد کا آغاز 1931میں ہوا تھا 1947میں اس وقت عروج
پر پہنچا اور ریاست کا اچھا خاصہ حصہ آزاد کرا لیا گیا اور 4اکتوبر1947میں
خواجہ غلام نبی گلکار نے آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ جس کا عالمی
سطح پر بڑا چرچا ہوا۔لاہور کے انگریزی اخبار لائٹ(LIGHT) نے اپنی اشاعت
مورخہ 8 اکتوبر میں لکھا کہ ۔۔ہم پریس میں جانے کی تیاری کر رہے تھے کشمیر
سے خبرآئی کہ کشمیر کے عوام نے ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کا اعلان
کردیا ہے۔اور عارضی حکومت کا قیام بمقام مظفرآباد عمل میں لایا گیا ہے۔خود
مختاری کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ ہری سنگھ کا راج15اگست1947مطابق قانون
آزادی ہند ختم ہوا۔اسے کوئی اخلاقی و قانونی اور مذہبی حق نہیں ہے کہ وہ
ریاست کے عوام کی مرضی کے خلاف حکمرانی کرے۔اس کے نتیجہ میں اسے معزول کیا
جاتا ہے اور4اکتوبر 1947سے اس پر عمل درآمد ہوگا۔اعلان میں مزید کہا گیا ہے
کہ تمام وزراء، ملازمین و عہدیدار ان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ عارضی جمہوریہ
کشمیر کے احکامات و ہدایات کی پوری پوری پابندی کریں۔ جو کوئی اس قائم کردہ
آئینی حکومت کی خلاف ورزی کریگا یا کسی رنگ میں معزول شدہ غاصب مہاراجہ کی
امداد یا حوصلہ افزائی کریگا وہ بغاوت کے مترادف ہوگا۔اسے مناسب سزا دی
جائیگی۔
لندن ٹائمز نے یہ سرخی جمائیANWAR KICKED HARI SINGHسری نگر میں ہر اس
اخبار کی کاپیاں ہاتھوں ہاتھ خرید لی گئیں جس میں آزاد حکومت کے قیام
کااعلان چھپا تھا۔ سرینگر کے عوام میں زبردست جوش و خروش نظر آیا اور انھوں
نے ان اخباروں کی کاپیاں دفاتراور عدالتوں میں چسپا کردی گئیں۔ان میں سول
اینڈ ملٹری گزٹ اور لائٹ لاہور میں چھپنے والے اعلانات کی کاپیاں منگوا کر
چسپا کی گئیں۔آزاد حکومت کا اعلان ریڈیو پاکستان سے بھی نشر کیا گیا جس کی
تصدیق نامور کشمیری مورخ پنڈت پریم ناتھ بزاز نے اپنی کتاب تاریخ جدوجہد
آزادی ہند میں ان الفاظ میں کی۔۔۔یہ تاریخی اعلان ریڈیو پاکستان سے نشر کیا
گیا جسے باشندگان کشمیر نے جوش جذبات سے سنا۔
اس اعلان کے مطابق جو آزاد حکومت کی کابینہ تشکیل دی گئی اس کے مطابق گلکار
صاحب اس کے پہلے صدر جبکہ سردار ابراہیم وزیراعظم،غلام حیدر جنڈالوی ڈیفنس
منسٹر،نذیر حسین شاہ فنانس منسٹر، جناب علیم وزیر تعلیم،جناب لقما ن صاحب
وزیر صحت،جناب فہیم وزیر زراعت تھے۔آزاد حکومت کے قیام کے بعد غلام نبی
گلکار صاحب مہاراجہ کشمیر کو گرفتار کرنے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ وہاں انھوں
نے آزاد حکومت کو مزید مزید مستحکم کرنے غرض سے اس میں کچھ محکموں کا اضافہ
کیا اس مقصد کے لئے انھوں نے شیخ عبداﷲ سے ملاقات سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور
رضاکاروں کی ایک فوج بنائی۔آزاد حکومت کے جن محکموں کا اضافہ کیا ان میں
جناب ڈائیرکٹر ریشم خانہ،ڈاکٹر بشیر محمود آف پونچھ کو ڈائرکٹرمیڈیکل
سروسز، خلیفہ عبدالمنان چیف انجینئر، حکیم صاحب انسپکٹر جنرل پولیس،رحمت اﷲ
سیکریٹری برائے ٹرانسپورٹ، سردار گلا احمد خان کوثر آف سدھن گلی چیف پبلسٹی
آفیسر ، خواجہ عبدالغفار ڈپٹی پبلسٹی آفیسر مقرر کیا۔خواجہ غلام نبی گلکار
نے کیپٹن بدرالدین، کیپٹن جمال الدین، میاں عبدالرشید اور دیگر ساتھیوں کے
ہمراہ مہاراجہ کو گرفاتر کرنے کی خفیہ میٹنگز کرتے رہے۔اسی دوران وہاں
لڑائی پھوٹ پڑی اور دسمبر1947میں گلکار صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہاں ایک
بات بہت اہم ہے کہ شیخ عبداﷲ سے جب ان کی ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو انھوں نے
گلکار صاحب کی شناخت بہ طور صدر آزاد کشمیر ظاہر نہ کیا۔ گلکار صاحب13ماہ
کی قید کے بعد ڈوگرہ گورنر گلگت گھنسارا سنگھ کے بدلے کشمیرسے رہا ہو کر
براستہ لاہور پاکستان آگئے۔لاہور میں آپ کا بھرپور استقبال ہوا مفتی اعظم
ضیاء الدین ضیا جو اردو اور فارسی کے نامور شاعر جدوجہد آزادی کشمیر کے
رہنما تھے گلکار صاحب کی شان میں فارسی میں نظم لکھی۔لاہور سے پھر آپ
راولپنڈی پہنچے اور وہاں کرکزی جامع مسجد حنفیہ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ ہی آزاد حکومت کے بانی صدر
ہیں۔آپ نے وہاں ہفت روزہ ہمارا کشمیر کاجراء کیا جس میں کشمیر کی وحدت اور
آزادی کی حمایت میں بڑے جاندار مضامین لکھے جاتے اور اپنی اس آزاد منش
روایت جو کہ سرکار کو ناگوار گزرتی تھی 1955 میں بند کردیا گیا۔ہمارا کشمیر
کی اہمیت کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
بھی اس کا دخلہ بند کردیا گیا۔بھارتی پارلیمنٹ میں جب سوال کیا گیا کہ کن
اخبارات کا کشمیر میں داخلہ بند کیا گیا ہے تو ڈپٹی وزیر خارجہ کرشنا مینن
نے جواب میں کہا کہ سوئے ہمارا کشمیر کہ کسی اور اخبار کا داخلہ بند نہیں
کیا گیا۔دونون اطراف یہ پاندی اس بات کا ثبوت ہے کہ خواجہ غلام نبی گلکار
کے تعمیری، قومی، حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار اور انقلابی مضامین کشمیر پر
قابض طاقتوں کے لئے خطرہ بن رہے تھے۔آزاد کشمیر میں جب مسلم کانفرنس اقتدار
کی گلام گردشوں میں مصروف ہو گئی اور باہم اختلاف کا شکار ہونے لگی تو
گلکار صاحب نے 1956کے اوائل میں کشمیر ری پلکن پارٹی کے نام سے نئی جماعت
کی بنیاد ڈالی۔آپ نے شروع دن سے ایک آزاد و کود مختار کشمیر کے قیام کو
اپنا نصب العین بنالیا تھا اور کسی بھی مقام پر اس کیاظہار سے نہ چوکتے
تھے۔اور اظہار میں وہ کسی بھی وقتی مصلحتوں اور خوف کوخاطر میں نہیں لاتے
تھے۔اگست1959میں مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں پر قائم مقدمات کے سلسلے میں
ان کی قانونی امداد کے لئے ڈیفنس کمیٹی بنائی جس کے صدر ضیاء الدین ضیا تھے
اور وہ خود اس کے مشیر مقرر کر دیئے گئے۔
3جولائی1959کو حکومت پاکستان نے خواجہ غلام نبی گلکار کو نظریہ خود مختار
کشمیر کے پرچار کے جرم میں گرفتار کرلیا سنٹرل جیل راولپنڈی میں قید کردئے
گئے۔چھ ماہ چودہ دن بعد آپ کی رہائی عمل میں آئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی
دوران پاکستان کے سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے امریکن پریس کلب میں
واضح طو ر پر کہا کہ۔۔۔کشمیریوں کوآزاد اور خود مختار رہنے کا حق ہے۔کشمیر
ان کا ملک ہے جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں حق خود
ارادیت مل جائے تاکہ آزادی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر یں۔
خواجہ غلام نبی گلکار کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کشمیر میں سب
سے پہلے مزدوروں اور تاجروں کے حقوق کی تنظیموں کے قیام کی بنیاد ڈالی۔لیبر
یونین اور ریاستی باشندوں کے حقوق کی محافظ کمیٹی State Subject Rights
Protection Committeeکے صدر بھی رہے۔اس کمیٹی جس کا کام ریاستی اور غیر
ریاستی باشندوں کی تحقیقات کرنا اور ریاستی باشندوں کی تصدیق کرنا اور ان
کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔آپ نے آل کشمیر لیبر یونین کی بنیاد ڈالی اور اس
کے چار سال تک صدر رہے۔ لیبر یونین ریشم خانہ اور دیگر مزدوروں کے حقوق کی
حفاظت کے لئے بنائی جس مین پریم ناتھ بزاز اور جی ایم صادق جیسے حضرات شامل
تھے۔ اس کے علاوہ ٹریڈ یونین کے تحت گلکاروں، نجاروں، قالین بافوں
سنگتراشوں، رفوگروں اور لوہاروں کو منظم کیا۔ |