چار حلقوں کی بازگشت سے اُٹھنے والا سونامی اپنی تندوتیز
لہروں کے ساتھ میاں صاحب سے استفعے کامطالبہ کرتا ایوانوں کی مضبوط دیواروں
سے ٹکراتا ہوابالآخر خالی ہاتھ انکوائری کمیشن کے آگے جاتھما۔ عام انتخابات
2013ء میں مبینہ دھاندلی کے خلاف انکوائری کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد یقینا
خان صاحب کو سسٹم کی مضبوطی کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا اور وہ یہ بات بھی
اچھی طرح سمجھ چکے ہونگے کہ اِس ملک میں تبدیلی آئی ہے نہ آرہی ہے اور نہ
آسکتی ہے۔
لہذاسیدھا سچا راستہ اختیار کرتے ہوئے روایتی سیاست کرو اور اپنی باری کا
انتظار کرو ۔ شاید اِسی بات کو محسوس کرتے ہوئے خان صاحب نے دھرنوں کی
سیاست کو خیرباد کہتے ہوئے ایک روایتی سیاست دان کی طرح سسٹم کے آگے گھٹنے
ٹیکنے کا اعادہ فرمایا ہے۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو بے چارے خان صاحب
موجودہ حالات میں اورکربھی کیا سکتے ہیں۔
جن پہ تھا تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے۔
آزاد عدلیہ کا تصور لئے ملک میں انصاف کی بالادستی کا علم اُٹھائے اپنی
پارٹی کی بنیاد رکھنے والا آج انصاف کے اَن داتاؤں کے ہاتھوں ایسا ڈنساکہ
پانی مانگنے سے بھی قاصر ہے ۔
صدقے جائیں حکمرانوں تمھارے کس شان سے انصاف کا جنازہ نکالا ہے آج اگر
فرعون بھی زندہ ہوتا تو وہ بھی خدائی دعوے سے دستبردار ہوکر تمھیں اپنا خدا
مان لیتا کہ اِس جہاں میں اُس سے بھی بڑے پڑے ہیں۔
تمام میڈیا ہاؤسیز، بے مثال تجزیہ کار ، کالم نگار، پاکستان بھر کے رپورٹر
ز سمیت سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے۔11مئی 2013 ء کو عام انتخابات میں جو
کچھ میڈیا نے دکھا یا سب جھوٹ ، رپورٹرز نے جو بتایا سب جھوٹ، عوام نے اپنے
حلقوں میں جو کچھ دیکھا سب جھوٹ، سوشل میڈیا جھوٹ الیکٹرانک میڈیا جھوٹ،
کالم نگار جھوٹ تجزیہ کار جھوٹ سول سوسائٹی جھوٹ، سچ کی پیروکار صرف
برسراقتدار آنے والی صادق و امین سے بھری جماعت ٹھہری ۔۔۔۔ہم نے تو پہلے ہی
کہا تھا کہ بات صرف ایک فرد کی نہیں پوری کھیپ کی ہے شاید ہمارے قارئین کو
یاد ہو۔
قارئین کسی بھی قوم پر جب ریاستی ادارے قوم کی استحصالی کا مذاق اُڑانے
لگیں جابر وظالم کی ترجمانی کرنے لگیں تو پھر بغاوتیں جنم لیتیں ہیں ۔ لہذا
کسی بھی ریاست کی سلامتی کی ضامن اُس کے ریاستی ادارے ہوا کرتے ہیں اُن
اداروں کا کا م عوام الناس کی خدمت کرنا اور انھیں اُن کے جائز حقوق کی
فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنا اُن کی اولین ترجیح ہوا کرتی ہے۔
لیکن آج نظرئے ضرورت کو دفنانے والے ہمارے ریاستی ادارے جانے کہاں سے نظرئے
جمہوریت اُٹھا لے آئے کہ چور لٹیروں کی پہچان تک ہی بھول بیٹھے ۔ ایسی
جمہوریت کا دفاع کیا جارہاہے جس نے عوام کا کڑک ہی نکال دیا ۔اداروں کے
اِسطرح کے رویوں کے پیشِ نظرعوام خود کو تنہاہ محسوس کرنے لگے ہیں،آج ملک
کا ہر فرد اداروں کی بے حسی پر ماتم کرتا نوحہ فگن ہے کہ کس سے منصفی چاہیں
کس سے فریاد کریں کون ہے جوغریب مظلوم عوام کی دادرسی کرے ۔
تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں بشمول مسلم لیگ ن کا ایک ہی موقف تھا کہ دھاندلی
ہوئی ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق صدر پاکستان جناب آصف علی ذرداری
نے تو پہلے روز ہی اعلان کردیا تھا کہ یہ آر اوز کا الیکشن ہے تو پھر کیوں
آراوز کو بلاکر انکوئری نہیں کی گئی۔اِس حوالے سے میڈیا سے مواد اکھٹا کیوں
نہ کیا گیا ۔کیوں سول سوسائٹی کے لوگوں سے اِس حوالے سے مددنہیں لی گئی۔
بہت کچھ ہوسکتا تھا جو نہیں کیا گیا اور صرف ایک جماعت کے نامکمل دلائل کی
روشنی میں فیصلہ صادر فرمادیا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں یہاں تحریکِ انصاف سے بھی بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے جو اپنے
موقف کا دفاع کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی جس کا اعتراف اُن کے وکیل
حامد خان کرچکے ہیں کہ وہ انکوائری کمیشن کو ٹھوس دلائل اور ثبوت فراہم
کرنے میں ناکام رہے ۔ لیکن کیا انکوائری کمیشن اپنے دائرہ کار کو وسیع کرتے
ہوئے دھاندلی کی تحقیقات کو آگے نہیں بڑھا سکتی تھی۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا
جانے کیوں ۔۔شاید اِن رازوں سے بھی کبھی پردہ اُٹھے۔ خیرانکوائری کمیشن کا
فیصلہ آگیا جمہوریت مضبوط ہوگئی اور اتنی مضبوط ہوگئی کہ پنجاب و سندھ
حکومت بلدیاتی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنے کا عظم کرے بیٹھیں ہیں
نیزپنجاب حکومت کی جانب سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ایک
آرڈیننس بھی جاری کردیاگیاہے۔ دیکھا قارئین جمہوریت پسندو کے جمہوری
کارنامے کس طرح جمہوریت کو بچا کر اُس کے حُسن کو دبالاکیا جارہا ہے۔قارئین
دیکھتے رہیں اب یہ سب کچھ دیکھنا بلکہ بہت کچھ دیکھناجمہوریت پسندوں کی
جانب سے تین سال کے لئے آپ کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔ |