بسم اﷲ الرحمن الرحیم
رئیس جام منجھے ہوئے سیاسی لیڈر شمار ہوتے تھے لاکھوں کا مجمع انکی تقریر
سننے آتا تھا ۔ حکومت وقت کو رئیس جام کی پارٹی سے خطرہ لاحق تھا ،رئیس جام
کی تقریر میں مخالفین پر زبردست تنقید ہوتی۔ ان پر کرپشن کے الزامات لگاتے
اور عوام سے بھر پور داد وصول کرتے ، معمولی اشارہ ملتا اور ررئیس جام ایسی
کہانی گھرتے کہ مخالفین کی نیندیں اڑ جاتیں ، ایک بار جوش خطابت میں قاضی
وقت کے اوپر بدعنوانی کا الزام لگا بیٹھے ، قاضی وقت نے سوچا کہ اگر وہ اس
کا جواب نہیں دیں گے تو لوگوں میں ان کا اعتماد مجروح ہو گا ، اس لئے انھوں
نے اپنے عہدے سے استعفاء دے کر رئیس جام پرہتک عزت کا مقدمہ دائر کر دیا ،
عدالت نے رئیس جام کو طلب کیا اور قاضی پر الزامات دہرانے اور ثبوت پیش کر
کو کہا۔
رئیس جام پریشان ہو گئے انکی بے چینی دیکھنے کے قابل تھی انہیں اپنی غلطی
کا بھر پور احساس ہوا انکی سیاسی مقبولیت داؤ پر لگ گئی اس مقدمے سے بچنے
کی بھر پور کوشیش کی لیکن ناکام رہے، پوری قوم کی نظر اس مقدمے پر تھی، جن
سیاسی مخالفین پر رئیس جام نے الزامات لگائے تھے انھوں نے بھی اس مقدمے پر
خوب سیاست چمکائی ۔
رئیس جام جب ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو انھوں نے قاضی سے ملاقات کی اور
معافی مانگ کر مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی ، قاضی صاحب نے جواب دیا کہ
مجھ پر برسرعام الزام لگا ہے اس لئے برسرعام میڈیا پر یہ اعلان کرنا ہو گا
کہ قاضی صاحب پر یہ الزام جھوٹا تھا، ۔۔۔۔رئیس جام نے بڑی کوشیش کی کہ خفیہ
معافی سے بات بن جائے لیکن قاضی صاحب نے کہا کہ میرے عہدے کا تقاضہ یہ ہے
کہ لوگوں کے دل مجھ سے صاف ہوں، بادل ناخواستہ رئیس جام کو میڈیا پر آکر
اپنے جھوٹا ہونے اور قاضی صاحب کی صداقت کا اعتراف کرنا پڑا۔۔۔ اس طرح وہ
اس مقدمے سے تو بچ گئے لیکن ان کا سیاسی کیئریر تباہ ہو گیا
کیا ہم بھی رئیس جام کی طرح فاش غلطی تو نہیں کر رہے ؟۔۔۔ہماری اکثر
مجلیسیں اس سے پر ہوتی ہیں کہ فلاں صدر نے اتنے پیسے کھا لئے فلاں وزیر نے
اتنی رشوت لی فلاں کمپنی والے ہیرا پھیری کرتے ہیں وغیرہ کرپشن کی رقم کا
تذکرہ اس انداز اوربھر پور اعتماد سے کرتے ہیں کہ گویا کہ خود وہاں موجود
ہوں ، کوئی کہے گا کہ فلاں نے دس ارب کھائے دوسرا کہے گا کہ بیس ارب ،
اربوں کی رقمیں اسے بڑھا دیتے جیسے کوئی بات ہی نہیں ۔ جو ذرا احتیاط کرنے
والے ہیں وہ یوں کہتے ہیں ًلوگ کہتے ہیں ًجبکہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ً
آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ سنی سنائی بات بلاتحقیق آگے بیان
کر دے ً
بالفرض اگر عدالت کا نوٹس آجائے کہ فلاں وقت آپ نے یہ الزام لگایا تھا اسے
ثابت کریں تو کیا حالت ہو ؟ لیکن چونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں کوئی
عدالت نہیں پوچھتی اس لئے جو چاہو کہو جو چاہو لکھو،لیکن یا د رکھیں ایک
عدالت آنے والی ہے جہاں زبان سے نکلی ہوئی یا قلم سے لکھی گئی ہر بات ثابت
کرنی پڑے گی ، کسی بزرگ کے سامنے حجاج بن یوسف کی غیبت ہوئی تو بزرگ نے
فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ حجاج کی غیبت جائز ہو گئی اگر اﷲ تعالی حجاج سے
خون کا حساب لے گا تو اس غیبت کا بھی حساب لے گا ۔ اس لئے الزام لگانے اور
مایوسی پھیلانے سے پہلے ہزار بار سوچیں کہ اس عدالت میں کیا جواب دیں گے؟
جہاں نہ جھوٹ کام آئے گا نہ رشوت کام دے گی ہمارے اعضاء خود ہمارے خلاف
گواہی دیں گے ، رئیس جام کے الزام لگانے سے تو انکا سیاسی مستقبل تباہ ہوا
ایسا نہ ہو کسی پر الزام لگانے سے ہماری آخرت تباہ ہو جائے۔۔۔
رئیس جام کو خلاصی اس صورت میں ملی جب اس نے اقرار کیا کہ وہ خود جھوٹا
ہے،اسی طرح ہماری فلاح بھی اسی میں ہے کہ دوسروں پر تنقید کے بجائے اپنے آپ
کو کوسیں اور اقرار کریں میں ہی ظالم ہوں اور اپنی اصلاح کی فکر میں لگ کر
اپنے حصے کا کام کریں تو انشاء اﷲ چراغ سے چراغ جلے گا۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے |