سیلاب نے گلگت بلتستان اور چترال میں بدترین تباہی مچائی

بارش، لینڈ سلائیڈنگ، بے رحم سیلابی ریلے اور دریاکی بپھری ہوئی موجوں میں آنے والی طغیانی نے چترال و گلگت بلتستان میں وسیع پیمانے پر تباہی مچا کر عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کہیں پہاڑی تودے گرنے سے سڑکیں، نہریں، باغات ٹنوں من مٹی اور پتھروں کے نیچے دفن ہوگئے ہیں تو کہیں برسوں کی محنت کے بعد سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر قابل کاشت بنائے گئے کھیت دریا برد ہو گئے ہیں۔ کہیں غریبوں، محنت کشوں اور مزدوروں کا کل سرمایہ حیات چند کنال زمینوں اور سر چھپانے کے لیے بنائے گئے مکانات کو سیلابی ریلوں نے برباد کردیا ہے تو کہیں بہت سے سیلاب متاثرین اپنے چہروں پر بے بسی کی تصویر سجائے خیمہ بستیوں کے متعفن اور محبوس ماحول میں بے یارومددگار دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ سیلاب کی وجہ سے چترال و گلگت بلتستان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ایک طرف گلگت بلتستان میں سیلاب درجنوں رابطہ پلوں، بجلی گھروں ، واٹر چینلوں کو بہا لے گیا ہے۔ کئی رابطہ سڑکوں سمیت شاہراہ قراقرم کو بھی لینڈ سلائیڈنگ نے بلاک کیا ہے۔ بلتستان میں سب سے زیادہ نقصان اسکردو سے چند ہی کلومیڑ پر واقع نر غوڑو اور ضلع گنگچھے میں غواڑی میں ہوا ہے، جہاں کی آبادی کا تقریباً 30 فی صد حصہ زیر آب آگیا۔ اسکردو میں چھومک کے مقام پر دریائی کٹاﺅ کے باعث زمینیں دریا برد ہوگئیں ہیں۔ شگر گلاب پور میں سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی ہے اور وسیع پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ استور اور گلگت ڈویژن کی طرف بھی سیلابی ریلوں نے تباہی مچا ئی ہے۔ گلگت بلتستان کے اہم حساس مقامات میں شاہراہ قراقرم متعدد مقامات پر تباہ ہوچکی ہے۔ سیاچن بارڈر تک جانے والی خپلو شاہراہ بھی متعدد مقامات پر تباہ ہوئی ہے۔ کرگل بارڈر اور دراز سیکٹر کی طرف جانے والی شاہراہ بھی سیلابی ریلے کے نذر ہوگئی ہے۔ سیاچن گلیشیر، بلترو گلیشیر، براڈ پیک تک کوہ پیمائی کے لیے جانے کا راستہ، دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو کی طرف جانے والی شاہراہ بھی مختلف مقامات پر بند ہوئی ہے۔ شہر سے دیہات کو ملانے والے متعدد پل دریا برد ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب چترال میں بھی سیلاب نے بری طرح تباہی مچائی ہے۔ چترال کے علاقے مستوج کو جانے والے راستے بند ہونے کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔ راستے بند ہو نے کے باعث متاثرین پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ چترال میں سیلاب سے کئی علاقوں کا رابطہ منقطع ہوا ہے، جس سے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ رابطہ پل اور سڑکیں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد لوگ اپنے علاقوں میں محصور ہوئے ہیں۔ سڑکیں اور رابطہ پل ٹوٹنے سے امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چترال میں قیامت خیز سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد 36بتائی جارہی ہے۔ چترال میں سیلابی ریلوں نے قیامت برپا کر دی ہے۔ سیلاب کی آفت لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی بہا کر لے گئی ۔ کسی کا گھر تباہ ہوا ، کسی کا باغ اور کھیت اجڑ گیا ۔ تَلاطم خیز پانی رابطہ سڑکیں اور پل بہا کر لے گیا اور متعدد دیہات کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ سیلاب کے دوران چار سو سے زاید گھر مکمل طور پر بہہ گئے ہیں۔ چترال اسکاؤٹس کے کمانڈنٹ کے مطابق چترال کی 54 فیصد زرعی اراضی سیلاب کی نذر ہوچکی ہے۔ 6 پن بجلی گھر زد میں آئے، جس سے بجلی کی فراہمی بند ہو گئی۔ 38 سڑکیں بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئی۔ 800 کے قریب مکانات اور 30 دکانیں بھی تباہی کا شکار ہو چکی ہیں۔ سیلاب نے جہاں لوگوں کی زندگی مفلوج کر دی ہے تو وہیں طلبہ کی تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں صوبائی حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیاں بالکل بھی نظر نہیں آرہی ہیں، جس وجہ سے صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

قدرتی آفات کا سامنا ہو یا ملک کے باسیوں کو کوئی اور مشکل درپیش ہو ، ملی جذبے سے سرشار پاک فوج ہر وقت اپنے شہریوں کی مدد کے لیے ہمہ تن گوش نظر آتی ہے۔ چترال و گلگت بلتستان کو سیلاب نے آن گھیرا تو پاک فوج کے جوان بے یارومدد گار متاثرین کی آواز بن گئے اور امدادی کاموں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چترال میں پھنسے ہوئے متعدد افراد کو آرمی ایوی ایشن ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکالا گیا ہے۔ نکالے گئے افراد میں سیاح اور مریض شامل تھے، جنہیں پشاور منتقل کیا گیا۔ متاثرہ علاقوں میں خوراک کی تقسیم، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ چترال میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک فوج کی طرف سے امدادی کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ ذرایع کے مطابق آرمی میڈیکل کیمپ میں 1178 مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ چترال میں 903 افراد کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ چترال میں 59 ٹن راشن تقسیم کیا جا چکا ہے، جبکہ چترال اسکاؤٹ ہسپتال میں میڈیکل کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چترال اسکاوٹ کے 4 واٹر باوزر سے 12 ہزار لیٹر پینے کا صاف پانی روزانہ کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کا کام بھی جاری ہے، جس کے تحت ریشن اور بونی گلگت بلتستان میں سڑکیں بحال کر دی گئیں۔ دوسری جانب گلگت و بلتستان میں بھی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف نے اسکردو کے علاقے گانجھے میں گلگت بلتستان کی تعمیر نو کے لیے پچاس کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پروزیراعظم نے سیلاب کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کے لیے 5،5 لاکھ، زخمیوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ، متاثرہ گھروں کے افراد کو ڈھائی لاکھ اور مال مویشی کے نقصان کے ازالے کے لیے 5 ہزار سے50 ہزار روپے تک معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے گلگت اسکردو روڈ کو جلد تعمیر کرنے سمیت این ڈی ایم اے کی صلاحیت بڑھانے کے لیے بھی 15 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ چترال، گلگت بلتستان میں کچھ فلاحی تنظیمیں اپنی سطح پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز معمار ٹرسٹ نے بھی سیلاب زدہ علاقوں میں 500 متاثرین میں خشک راشن تقسیم کیا ہے۔ معمار ٹرسٹ کے ترجمان کے مطابق چترال کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں مےں امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ متاثرین مےں راشن کی تقسیم بھی جاری ہے اور گزشتہ روز اوروچ اور گرم چشمہ کے500 متاثرین مےں خشک راشن تقسیم کیا گیا۔ اشیا میں دالیں، چاول، گھی، چینی اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ اشیا ملنے پر متاثرین نے معمار ٹرسٹ کے رضاکاروں کا شکریہ ادا کیا۔ جبکہ چترال کے سیلاب سے متاثرہ علاقے مورکوہا کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے اور اگلے2 روز میں وہاں کے 500 متاثرین مےں بھی امدادی سامان تقسیم کیا جائے گا۔ ترجمان معمار ٹرسٹ نے قدرتی آفت کی اس گھڑی میں متاثرین کی مدد کے لیے مخیر حضرات سے بھرپور تعاون کی اپیل کی ہے۔چترال اور گلگت بلتستان میں مختلف مقامات پر ہنستے بستے گھرانے خیمہ بستیوں میں وقت گزانے پر مجبور اور امداد کے منتظر ہیں۔ متاثرین کو خوراک کی شدید ضرورت ہے۔ سب کچھ سیلاب میں بہہ جانے کی وجہ سے خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور دیگر مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ ان حالات میں تمام پاکستانیوں کی ذمے داری ہے کہ بڑھ چڑھ کر سیلاب متاثرین کے ساتھ تعاون کریں اور حکومت بھی مشکل کی اس گھڑی میں جلدازجلد سیلاب متاثرین کی مدد کرے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.