یوسف کذاب کی یہ کہانی سن کر اور
عبدالواحد نامی فرد کے ساتھ ساتھ برس ٹیک کے اٹیک زید حامد کے دعوے سن کر
روح تک کانپ جاتی ہے، عقل دنگ رہ جاتی ہے اس لئے نہیں کہ وہ دانش کی بات کر
رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ قرآن کے لفظوں میں دلوں پر مہر لگنے کی عملی تصویر
انسان کے پیکر میں یہ شیطانی زبانیں کس دھڑلے سے گمراہی پر مبنی دعوے کر کے
لوگوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔اور روشن خیالی و علم و دانش کے دعوے دار آنکھیں
بند کر کے اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کے لئے ان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں،
باوجودیکہ قبیلہ زید حامد یہ جانتا ہے کہ اس کی یہ بڑھکیں اسے کس انجام کی
جانب دھکیلنے کا سبب ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پوری تندہی سے خرابی کی
اشاعت اور ذہنوں کی تسخیر میں مصروف ہیں۔
یوسف کذاب اور زید حامد کی کہانی اتنی ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی تہہ در تہہ
داستان ہے جس کا سرا تلاش کتنا ایک جاں گسل کام ہے۔ان کے فرقہ سے تعلق
رکھنے کے بعد تائب ہونے والے کچھ لوگوں کی گفتگو یہاں شامل کر کے ہم کوشش
کرتے ہیں قارئین کو اس کثیر رنگی تصویر کا ایک اور رخ دکھا سکیں۔
زید حامد کے سابق دوست رضوان طیب کے بھائی منصور طیب کہتے ہیں”میں زید حامد
کو اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا یوسف کذاب سے تعلق نہیں بنا تھا،1989ءمیں
اس نے افغان جہاد کے متعلق ایک فلم بھی تیار کی لیکن جہاد کے خاتمہ کے بعد
یہ جہادی رہنماﺅں کو گالیاں دینے لگا،1993-93ءمیں یہ اپنے ساتھ لاہور سے
یوسف کذاب کو لے آیا۔
کراچی میں اس کا تعارف کرواتے ہوئے زید زمان حامد نے بتایا کہ یہ ایک بزرگ
ہے جو صرف زکر کی بات کرتا ہے، اگر کوئی سوا لاکھ دفعہ ورد کرے گا تو اس کو
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہو جائے گا، بڑے بھائی رضوان
طیب کے یوسف کذاب کے مقربین میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ دونوں اکثر ہمارے
گھر آتے، زید حامد کا پہلے سے ہمارے گھر آنا جانا تھا وہ یوسف کذاب کو بھی
وہیں لے آیا، میرے بھائی اس سے اتنے زیادہ متاثر تھے کہ انہوں نے ہماری
دکان کا ایک حصہ بیچا اور یوسف کذاب کو ایک گاڑی خرید کر دی اور لاکھوں
روپے نقد بھی دئے، زید حامد یوسف کذاب کا مقرب اول تھا اس لئے پیسوں کی
وصولی وہ کرتا تھا۔ یوسف کذاب کو مختلف وقتوں میں جو رقمیں دی جاتیں ان کو
کبھی نذرونیاز کا نام دیا جاتا اور کبھی تحفے کا،۔۔۔۔۔ایک بار کسی کے گھر
میں نماز پڑھتے ہوئے کسی کی کال آئی وہ نماز چھوڑ کر خاصی دیر تک موبائل
فون پر بات کرتا رہا اور تمام نمازی ہاتھ باندھے اس کا انتظار کرتے رہے۔جب
اس نے سکون سے بات مکمل کر لی تو تب آیا اور نماز مکمل کی۔اس کی نماز میں
خواتین و حضرات ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے یہ اپنی طرز کی مخلوط نمازیں
ہوتی تھیں“ان کا کہنا تھا کہ میری تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ جس طرح
میرے بڑے بھائی بعد میں حقیقت جان کر اس فرقہ باطنیہ سے تائب ہوئے اور یوسف
کذاب و زید حامد کے مخالف بنے، اسی طرح وہ بھی یوسف کذاب کے اس دوسرے
روپ”زید حامد“سے ہشیار رہیں۔
ان کے ایک اور سابق مرید سعد کا کہنا تھا کہ ”۔۔۔۔۔یوسف کذاب کے لاہور سے
کراچی آنے کے بعد انہوں نے مذہبی سوچ رکھنے والوں کو گھیرنے کا پروگرام
بنایا اور جس طرح سے ان کے ہاتھ آیا اسے خلافت کا نظام قائم کرنے کا جھانسہ
دے کر اپنی راہ پر لاتے رہے۔اس کے بعد کراچی میں نشستوں کا انعقاد شروع کیا
گیا۔یہ لوگ یوسف کذاب کو حضرت کہتے تھے۔۔۔۔۔۔اس نے شروع میں اپنے آپ کوعاشق
رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کہنا شروع کیا،پھر اللہ اور رسول اللہ کے نور
کی باتیں کرنے لگا، پھر کہا اﷲ کا نور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت
تک رہے گا، یہ نور کسی بشر کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے جس کو دیکھنے کے
لئے خاص بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک خاص طریقہ سے حاصل ہوتی ہے،اس وقت
تک یوسف کذاب نے موجودہ دور میں اس”بشر“ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا،البتہ
ایک خاص وظیفے کے بعد اپنے پیروکار کو بشارت دیتا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے آپ کی عاجزی کو قبول فرمایا ہے،اس لئے وہ لباس بشر میں یعنی(یوسف
کذاب)کی صورت نعوذ باللہ حاضر ہے،اور اس طرح یہ خود کو محمد ظاہر
کرتا۔۔۔۔۔یوسف کذاب کے کاموں کے لئے راولپنڈی کے زید حامد اور کراچی کے کچھ
لوگوں کو(جو بعد میں تائب ہو گئے)خاص ذمہ داریاں سونپ کر ان کو صحابہ کے
درجے پر فائز کیا گیا تھا۔
یہ لوگ کہتے کہ قرآن کے سات ترجمے اتارے گئے تھے جن میں سے ایک ان کے پاس
محفوظ ہے۔ان لوگوں کا اصل مقصد پیسے بٹورنا، عقائد کو بگاڑنا، اور مریدوں
کو خواتین کی طرف راغب کرنا تھا،ایلیٹ گھرانوں کی خواتین ان کی جانب مائل
ہوتیں،ان محفلوں میں عشق و محبت کی باتیں ہوتیں،عشقیہ اشعار سنائے جاتے
۔۔۔۔بڑے بڑے تاجر، فوج اور بیوروکریسی کے لوگ اس جال میں پھنس چکے تھے۔یہ
لوگ پابند ہوتے تھے کہ اپنے مال کا ایک حصہ جمع کروائیں۔یوسف کذاب کی کراچی
آمد کے موقع پر ”جشن آمد حضرت “منایا جاتا، قیام عطعام کے انتظام کے ساتھ
قیمتی تحائف نظر کئے جاتے۔محفلوں میں عام لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی،
جو ان کے عقیدے سے اختلاف کرتا نقصان اٹھاتا تھا،لوگ اس حد تک یوسف کذاب کے
عشق میں مبتلا تھے کہ اپنی بیویاں اور بیٹیاں پیش کر دی تھیں،تقریباً
اڑھائی سو خواتین نے اپنے شوہروں سے طلاق لئے بغیر نئی شادیاں کر لیں،یوسف
کذاب اپنے اہل بیت سے کہتا نکاح سے قبل اپنی ہونے والی بیویوں کو میرے پاس
بھیجو،اس عمل کو سفر معراج کا نام دیا جاتا،خواتین گھنٹوں اس کے ساتھ خلوت
میں رہتیں،اگر کوئی ان بے ہودگیوں کو دیکھ کر برا بھلا کہتا تو اس کا نجام
برا ہوتا تھا۔
1994ءمیں ایک نوجوان نے علی الاعلان یوسف کذاب کو برا بھلا کہا،اس کا قتل
ہوا،اس قتل کو ڈکیتی کا نام دیا گیا،لیکن حیرت انگیز طور پر اس ڈکیتی میں
نہ اس کی رقم چھینی گئی نہ موٹر سائیکل،بیت المکرم مسجد گلشن اقبال میں جب
اس کی نماز جنازہ پڑھی جا رہی تھی تو کذاب اپنے ایک مقرب کی شادی کی تقریب
میں شریک تھا۔نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس فرقہ کا خاص ہدف ہوا کرتے
تھے۔۔۔۔۔جن اس کے راز افشاء ہوئے اور کذاب کے مخالف کیس کیا گیا تو مقدمہ
کے دوران زید زمان حامد ہی اس کے بچاﺅ کے لئے دوڑ دھوپ کرتا رہا،کبھی بااثر
لوگوں کو ملتا اور کبھی اخبارات میں خطوط لکھتا،عدالت کی جانب سے یوسف کذاب
کو سزائے موت سنانے پر 13اگست2000ء کو زید حامد نے روزنامہ ڈان میں ایک خط
لکھا اور اس فیصلہ کو انصاف کا قتل قرار دیا(حیرت انگیز طور پر یہ کمنٹس
پاس کرنے والے کو آج تک توہین عدالت کا مجرم قرار نہیں دیا گیا)اس دوران
یوسف کذاب کے قتل کے بعد زید زمان حامد غائب ہو گیا اور پھر ایک نئے نام
زید حامد کے ساتھ دوبارہ سے سامنے آیا،آج اس کے سپورٹر زمیں وہ سارے لوگ
شامل ہیں جو یوسف کذاب کے حامی تھے، براس ٹیک کو چلانے والے اور انٹیرنیٹ
پر اس کے فروغ کے لئے کام کرنے والے سارے وہی ہیں جو ماضی میں ”حضرت“کے
ساتھی تھے۔اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو پانی جانب مائل کرنے کی کوشش
کرنے ولاے زید حامد کو کذاب نے وہ درجہ دیا تھا جو اللہ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو دے رکھا تھا،
آج بھی اگر زید حامد سے یوسف کذاب کے متعلق کوئی سوال کیا جائے تو وہ سیدھا
سادہ جواب دینے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آتا ہے، جس کا تازہ ترین ثبوت
تحریر کے ابتداء میں ذکر کی گئی گفتگو ہے جو اس کے ایک ایسے ”مرید“کی جانب
سے سامنے لائی گئی ہے جسے زید حامد کے درست ہونے کا یقین تھا لیکن تبدیلی
کے ایک لمحے نے اس مرید کو جب حقیقت سے روشناس کروایا تو وہ آنے والی تباہی
کا اندازہ کر کے پیچھے ہٹ گیا۔ایک اور ثبوت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
اسلام آبا دکے طلباء کی جانب سے یوسف کذاب کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب
دینے کے بجائے تنقید اور بعد ازاں راہ فرار اختیار کرنا تھا،اسی زید حامد
نے یہی طریقہ کار پشاور میں بھی اختیار کیا۔
زید حامد اور ان کے گروپ کی جانب سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ظاہر آپ کچھ
بھی کر لیں اندر سے صحیح ہونا چاہئے، لیکن کیا یہ کوئی ایسا اصول ہے جسے
اسلام کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہاں اسلام
کے اصول کو بھی ایک نظر دیکھتے چلیں۔ حلال و حرام کے معاملے میں اسلامی
تعلیمات یہ ہیں کہ ”ہر وہ چیز جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہے،
لیکن جب کوئی انسان اللہ کی حرام قرار دی ہوئی چیز میں جواز تراشنے کے لئے
نکتہ آفرینی کرے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی حرام قرار دی ہوئی
چیز کو قانونی قرار دینا چاہتا ہے جو بغاوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
(سرڈھانپنے ،داڑھی رکھنے، ستر پوشی کرنے والا لباس زیب تن کرنے کو ہدف
تنقید بناتے وقت ماریہ بی اور اسکے قماش کی دیگر پجاریان ہوس جب ننگے
بازووں، کھلے سر، سینے تک چاک گریبان اور پیٹ کی رنگت دکھاتی قمیص پہنے جب
حلال و حرام کا لیکچر دیتے ہیں تو وہ کسے دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں)سورة
توبہ میں ارشاد ربانی ہے کہ ”انہوں نے اپنے ربیوں اور پیشواﺅں کو اللہ کے
سوا اپنا دوست بنا لیا اور یہی کام عیسی علیہ السلام کے ساتھ کیا
ہے،حالانکہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کے لئے نہیں بلاتے،اللہ کے سوا
کوئی معبود نہیں ہے،وہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں“۔
اپنے مربی کے طور پر زید حامد کی وہ توصیف کرنا کہ جو اللہ کی ذات کا خاصا
ہے دینی تعلیمات کے مطابق انہیں اس شرک پر مائل کر رہی ہیں جو محبت کی حدوں
سے آگے نکل کر انہیں جاو بے جا کی تائید پر آمادہ کر رہا ہے۔اللہ کی مقرر
کی ہوئی حدوں کو منہدم کرنے کی کوشش کر کے پاکستان اور اسلام کی کون سی
خدمت کا دعویٰ ہے یہ بات نہ سمجھنے کی ہے اور نہ سمجھانے کی، حالانکہ زید
حامد اور اس کا پورا قبیلہ یہی مشق جاری رکھے ہوئے ہے،جو کبھی ”جاگو
پاکستان“کے پلیٹ فارم سے میوزیکل کنسرٹ اور فیشن شوز کے نام پر کی جاتی ہے
اور کبھی براس ٹیک کے نام سے اٹیک کر کے۔
یہاں یہ بات ضرور مد نظر رکھنے کی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں شک پیدا کرنے
اور بے جا بحثیں شروع کرنے کا یہ طریقہ واردات نیا نہیں بلکہ یہ ساری
سرگرمی قبل ازیں مغرب کی جانب سے ترکی میں آخری ہچکیاں لیتی سلطنت عثمانیہ
کے خاتمہ کے لئے اپنائی جا چکی ہے جو امت مسلمہ کی آخری اجتماعت تھی ،اسے
ختم کرنے کے لئے بھی مصطفیٰ کمال کا نام رکھنے والے ایک فرد کو سامنے لایا
گیا جس نے شک کے وہ بیج بوئے جو عربی زبان میں اذان تک پر پابندی کی صورت
برگ و بار لائے۔اسلامی تشخص کو مٹا کر ترکی کو وہ ذلت دینے کا سبب بنے کہ
وہ نہ یورپی یونین کا حصہ رہ سکا اور نہ مسلم دنیا کا جزو بن پایا،جہاں ہر
کچھ عرصہ بعد وہاں کی سیکولر فوج فروغ اسلام کی ادنی سی کوشش کو بھی مٹانے
کے لئے برسرپیکار نظر آتی ہے،مغرب کی اس حکمت عملی کو عسکری حملے سے قبل
سماجی،فلسفیانہ اور تہذیبی حملے کا نام دیا جاتا ہے ،جو اس کے نتئاج حاصل
کرنے میں ویسا ہی معاون ثابت ہوتا ہے جیسا ترکی میں ہوا تھا۔ ابتدائی حملوں
کے بعد مغرب کے طریقہ واردات کے مطابق ان کا تختہ مشق بننے والے خطہ میں
ایسے لوگ بھیجے جاتے ہیں جو نام نہاد ترقی یا تبدیلی کی آڑ میں بنیادی
اقدار کو تبدیل کرتے ہیں۔
مخصوص مفادات کی حامل سیاسی کمیٹیاں، سول سوسائٹی کی آرگنائزیشنز اس حکمت
عملے کا اہم ترین ہتھیار قرار پاتی ہیں،یہ معاشرے کی ایسی برین واشنگ کرتی
ہیں جس کا نتیجہ کنفیژن اور ابہام کے سوا کچھ اور برآمد ہو ہی نہیں سکتا۔ان
تمام کوششوں کا مقصد اس نام نہاد سیکولرازم کی ترویج ہوتی ہے جو حیا کے نام
پر اباحیت،ترقی کے نام پر تنزلی اور روشن خیالی کے نام پر تاریکیوں کو جنم
دیتا ہے۔اس کے نتیجے میں پنپنے والا معاشرہ مغرب کے عطیہ کردی سیاسی نظام
کو اپنانے کے لئے بالکل تیار ہوتا ہے جو محض اس کے لئے صارفین کی ایک نئی
منڈی پیدا کرنے کا سبب ہوتا ہے۔
فی زمانہ یہ سارا کام پاکستان میں جاگو پاکستان اور براس ٹیک نامی گروپوں
کے ذریعے بڑی تندہی سے کیا جا رہا ہے جس کے سرخیل وہی زید زمان حامد
المعروف زید حامد ہیں جن کے پیرومرشد یوسف کذاب تھے ،اور جن کے متعلق وہ
کوئی بات اس لئے نہیں کرتے کہ وہ اسے یوسف کذاب نہیں یوسف علی سمجھتے ہیں۔
زید حامد کے متعلق یہ باتیں اب کوئی سربستہ راز نہیں رہیں بلکہ لاہور کی
مذکورہ عدالت کی جانب سے دئے جانے والے فیصلے کی جو نقول سامنے آئی ہیں ان
کے مطابق عدالت میں بیان دیتے ہوئے میاں محمد اویس نے اس بات کا تحریری
اقرار کیا تھا کہ ”28فروری1997ءکو وہ اور ممتاز اعوان نماز جمعہ کے لئے
مسجد بیت الرضا گئے، جہاں یوسف کذاب نے منبر رسول پر بیٹھے ہوئے تقریر کی
اور کہا کہ اس وقت یہاں ایک سو صحابی موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔اس نے دو لوگوں کو جن
کے نام زید حامد اور عبدالواحد تھے کو بلایا،ان دونوں نے اپنا تعارف صحابی
رسول کے طور پر کروایا،ان دونوں نے اس موقع پر حاضرین سے گفتگو کی اور اپنے
آپ کو صحابی قرار دینے پر خوش قسمتی محسوس کرتے ہوئے یوسف کذاب کا شکریہ
ادا کیا۔
اس تقریر میں یوسف کذاب نے اپنے آپ کو (نعوذباللہ)اللہ کا رسول قرار
دیا۔(بحوالہ صفحہ42،کیس ایف آئی آر نمبر70/97 بتاریخ29مارچ1997ئ)
(جاری ہے) |