زید حامد یا زید زمان حامد، کتنی حقیقت کتنا فسانہ-آخری حصہ

6 مارچ2010ءکو سامنے آنے والی ایک اور ویڈیو کے مطابق ایک سرکاری یونیورسٹی میں زید حامد کی تقریر کے موقع پر جب اس سے سوال کیا گیا کہ1997ءسے2000ءتک جھوٹے مدعی نبوت یوسف کذاب کے کیس کے متعلق وہ کیوں دوڑ دھوپ کرتے رہے،خاص طور پر ایک ایسی صورت میں جب ملک بھر میں موجود تمام مکاتب فکر کے علماء نے اسے مشترکہ طور پر غلط قرار دیتے ہوئے عدالتی فیصلہ درست تسلیم اور اس پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا تھا۔تو زید حامد شدت جذبات کی وجہ سے غصہ میں آ گئے اور جواب دینے کے بجائے بدتہذیبی پر اتر آئے۔ بدمزگی بڑھتی دیکھ کر پروگرام کی انتظامیہ نے انہیں اسٹیج سے اتارا اور پروگرام ختم کر دیا گیا،اس موقع پر طلبہ نے نعرے لگائے اور آئندہ زید حامد کو کسی بھی یونیورسٹی میں طلبہ سے تقریر کر کے انہیں گمراہ کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا۔اس موقع پر اگرچہ انتطامیہ کا حصہ ایک فرد نے یہ اعلان کیا کہ زید حامد ایسے کسی بھی الزام کو نہیں مانتے لیکن طلبہ کا کہنا تھا کہ یہ جواب زید حامد کو خود دینے دیا جائے، تا ہم انہوں نے اس مطالبہ پر عمل نہیں کیا اور ہال سے چلے گئے۔

اسی تاریخ کو سامنے آنے والی ایک اور ویڈیو میں ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ”یوسف علی نامی ایک بندے سے ان کے قریبی تعلقات پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،وہ اس فرد کے دعویٰ نبوت کے الزام میں جیل جانے سے قبل اس کی سیکورٹی کمپنی کے مینیجر بھی رہے،اس کی جانب سے صحابی بھی قرار دئے گئے ، اس پر ان کا کیا کہنا ہے ؟۔

اس کے جواب میں زید حامد نے کہا کہ وہ یوسف کذاب نام کے کسی فرد کو نہیں جانتے بلکہ یوسف علی کو جانتے ہیں،1992ءمیں یوسف علی سے کراچی میں ان کی ملاقات ہوئی تھی ۔وہ ایک اچھے فرد تھے اس سے ذیادہ کوئی بات نہیں کی گئی۔

زید حامد نے اگرچہ بعض مواقع پر یہ بات کہی ہے کہ وہ اپنے سے منسوب کی گئی70فیصد سے زائد باتوں کو جھوٹ کہتا ہے لیکن ایسا کہتے ہوئے وہ جن تین دلیلوں کو جواز کے طور پر پیش کرتا ہے وہ کوئی اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔

زید حامد کے جواب کا پہلا حصہ ہوتا ہے یوسف علی کو پراپرٹی اور رقم کے ایک جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا تھا۔ حالانکہ عدالتی ریکارڈ اور گواہوں کے بیاناتا اس بات کے شاہد ہیں کہ ملزم سے مجرم بننے کا سفر یوسف کذاب نے توہین رسالت کے الزام کے بدلے کیا تھا،اس کے باوجود میں نہ مانوں کی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔

زید حامد کا دوسرا جواب ہوتا ہے چند دیوبندی علماء نے رشوت لے کر یوسف علی کو پھنسانے کی کوشش کی۔ حالانکہ یوسف کذاب سے متعلق فیصلہ پر اس وقت اخبارات میں چھپنے والے بیانات کے علاوہ متفقہ تحریروں اور فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں دیوبندیوں کے علاوہ،بریلوی،اہلحدیث علماء،جماعت اسلامی کے رہنماء اور ان کے حلقے سے وابستہ علماء سمیت سیاستدانوں اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد عدالتی فیصلے کی حامی اور کذاب کی مخالف تھی۔

اس کا تیسرا جواب ہوتا ہے کہ یوسف علی کو جیل میں قتل کر دیا گیا اور اس کا کیس وفاقی شرعی عدالت نہیں جا پایا، جب کہ وہ خود اس لئے خاموش ہے کہ اگر وہ بول پڑا تو دیوبندی بریلوی تنازعہ شروع ہو جائے گا۔

یہاں بھی حقیقت سے ذیادہ یہ جواب مکمل ملمع کاری لگتا ہے، بریلوی علماء بھی یوسف کذاب کے غلط ہونے پر متفق تھے، ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے سب نے مشترکہ طور پر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اس فتنے کا تدارک کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک عدالتی فیصلہ کا تعلق ہے تو زید حامد اور ان کے متعلقین نے لاہور کی عدالت کا فیصلہ ہی نہیں مانا تو کسی اور عدالت کا کیوں مانتے۔ واضح رہے کہ لاہور کی عدلات کی جانب سے فیصلہ آنے کے بعد زید حامد نے ڈان میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ظالمانہ قرار دیا تھا۔

ایک ایسا فرد کے جس نے خود اپنی زبانی دعویٰ نبوت کیا ہو، وہ دعویٰ ڈھکا چھپا بھی نہ ہو بلکہ ویڈیو کی صورت دنیا بھر کے دیکھنے کے لئے انٹرنیٹ پر موجود ہو، اس پر توہین رسالت کا مقدمہ چلایا جائے تو ملعون وقت کی جان بچانے کی تگ ودو میں مصروف ترین فرد سامنے آئے ہر ایک اسے جان بھی لے،اس کی اپنی تحریریں اس بات کا علان بھی کر دیں،لیکن اس کے باوجود ایسی شخصیت کو ناصرف پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے بلکہ اسے اشاعت خرابی کے لئے ٹیلی ویژن کا پلیٹ فارم بھی مہیا کیا جائے، یہ بات سمجھ سے بالاتر اور حساس دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی ہے۔

کیا ہے کوئی جو وقت کی پکار پر لبیک کہہ سکے اور اس کے نتیجے میں اپنے حصے کا کام کرنے پر آمادہ ہو، ہیجڑوں کے حقوق کے تحفظ، خواتین کو جائز مقام دلوانے کی کوششوں، مزدوروں کی مستقلی، ملازمتوں کی فراہمی، قانون و آئین کی بالادستی کی باتیں کرنے والے کیا یہاں بھی کچھ توجہ کریں گے، یا کسی طارق الیاس کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، موجودہ صورتحال میں وقت بہت کم ہے جو اس بات کا تقاضہ کر رہا ہے کہ محض کسی کی چرب زبانی کی صلاحیت کی بناء پر اسے دشمنوں کے سامنے ڈھال بنانے کی پریکٹس کرنے اور معاشرے میں موجو دبیداری کی لہر کو دبانے کے لئے نوجوان نسل کو ڈی ٹریک کرنے کی کوششوں کے بجائے اس سے حق بحق دار رسید کی مانند معاملہ کیا جائے۔ یہ بات کتنی کس کو سمجھ آتی ہے؟ اور کیا ہوتا ہے؟

ہم بھی دیکھتے ہیں، آپ بھی دیکھیں، لیکن حالات کی تبدیلی کے لئے کوشش شرط ہے۔
“ختم شد“
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31844 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More