اب ہم طلباء اور عام لوگوں کی
جانب سے پوچھے جانے والا یہ سوال سن سن کر تنگ آ چکے ہیں کہ آپ کا یوسف
کذاب سے کیا تعلق ہے؟ آپ یوسف کذاب کے متعلق اپنے عقیدہ کی وضاحت کیوں نہیں
کرتے؟ یہ سوال ایک ایسے نوجوان کے تھے جو موجودہ وقت کے سب سے بڑے فتنہ کا
شکار ہونے کے باوجود سچائی کی تلاش کا خواہش مند تھا۔ اسلام آباد اور پشاور
کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے پوچھے گئے تندوتیز سوالات کے بعد موقع
سے فرار ہونے والے فرد نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے اس سوال کا جو جواب
دیا اس نے پوچھنے والے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ایک لمحے میں سنگھاسن دل
پر براجمان شخصیت گہرائیوں میں گرتی چلی گئی، لیکن اس واقعہ نے ایک ایسا
ثبوت عام لوگوں کو فراہم کر دیا جو رات کی گھور تاریکی میں بھی حقیقت کی
نشاندہی کر سکتا ہے۔
”میں اس لئے ان کے متعلق بات نہیں کرتا کہ میں انہیں یوسف کذاب نہیں بلکہ
یوسف علی سمجھتا ہوں“۔یہ جواب اس فرد کے بارے میں دیا گیا تھا جسے اپنے
دعویٰ نبوت کے جواب میں عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی تھی۔ جواب دینے
والا کوئی کم علم یا جاہل نہیں تھا کہ اس نے یہ بات نادانی میں کی بلکہ
بظاہر پڑھا لکھا فرد ہے جسے ہم زید حامد کے نام سے جانتے ہیں، جی ہاں وہی
زید حامد جو ٹی وی پر دفاعی اور حفاظتی امور کے متعلق ولولہ انگیز گفتگوئیں
کیا کرتا ہے۔
تاہم کارپردازان قدرت کچھ اور ہی طے کئے ہوئے تھے جبھی اس سزا پر عملدرآمد
سے قبل ہی کوٹ لکھپت سنٹرل جیل میں ایک سے دوسرے سیل منتقلی کے بعد یوسف
کذاب کو پہلے سے وہاں موجود قیدی نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
زید زمان حامد کے نام سے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور الیکٹرانک میڈیا کا
ہاٹ کیک کہلانے والے اس فرد کے بارے میں جاننا اگرچہ اس تحریر کا مقصد ہے
لیکن یہاں آگے بڑھنے سے قبل ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کے
پیرومرشد کیا چیز تھے جس نے اسے یوسف علی سے ”یوسف کذاب “بنایا۔ زید حامد
کو ملعون یوسف کذاب کا ”صحابی“بنایا؟ ”براس ٹیک“کے پس پردہ کون کون سے
”اٹیک “پوشیدہ ہیں ،ان کی موجودگی کے عقلی دلائل اور اہداف کیا ہیں؟ ایک
مخصوص طریقہ اپنا کر جن لوگوں کو یہ اپنے حلقہ احباب میں شامل کر رہے ہیں
وہ دشمنوں سے پاکستان اور اسلام کی کون سی حفاظت کرنا چاہتے ہیں؟ان حفاظت
کرنے والوں کا اپنا کردار کیا ہے؟
برسر عام کیٹ واک منعقد کروانے والیاں جب کسی کی تعریف کے گن گاتے ہوئے اسے
اسلام کا علمبردار قرار دیں اور سر ڈھانپنے یا لباس کے ساتر ہونے کی تلقین
کرنے والوں کو شدت پسند کہیں تو مسلمانوں کو انتہا پسند کا طعنہ دینے والے
مغرب اور ان کالے انگریزوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟(واضح رہے کہ ایک معرف
فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اس مفہوم کی گفتگو معروف ٹی وی چینل پر اپنا
تبصرہ کرتے ہوئے کہی تھی جو انٹرنیٹ پر ویڈیو کی صورت میں دستیاب ہے، قبل
ازیں پروگرام کی میزبان کی جانب سے ماریہ بی کو مدعو کرنے سے قبل کہا گیا
کہ
(She is some one we all the know as a leading feshion designer of this
country, but according to her Pakistan and Islam are what form to her
identity, She is known only the strongist force behind this phenomena
known as Wake Up Pakistan but is in inspiration for all those how are
working with her, ladies and gentelmen Maria B)،
(وہ ایک ایسی خاتون ہیں جسے ہم سب اس ملک کی لیڈنگ فیشن ڈیزائنر کے طور پر
جانتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور اسلام اس کی شناخت
ہیں،وہWake Up Pakistanکے تصور کے پیچھے کارفرما اکلوتی قوت کے ساتھ اپنے
ساتھیوں کے لئے تحریک مہیا کرنے کا بڑا سبب ہیں خواتین و حضرات ماریہ
بی)،یہی فیشن ڈیزائنر جو زید حامد کے اکثر پروگرامات کا انتظام بھی کرواتی
ہے۔ سماء ٹی وی پر ایک پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ
میں اسی لئے زید حامد کو سپورٹ کرتی ہوں کہ وہ وہ آپ کو کسی چیز سے نہیں
روکتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ثقافت دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ہے، یہاں کچھ حدود ہے یعنی
ننگے ہونا وغیرہ آپ میرے آﺅٹ لیٹ میں جائیں وہاں آپ کو کسی بھی لباس میں
کوئی ننگا پن نظر نہیں آئے گا(سینے سے اوپر کٹے ہوئے گلے، بغلوں تک پہنچتے
ہوئے بازو، پنڈلیوں کو برہنہ دکھا کر باقی کی ٹانگوں کے پیچ وخم واضح کرتے
اسکن ٹائٹ ٹراﺅزر شاید ان کے لئے ”ننگا پن“نہیں تھے )انہوں نے مزید کہا کہ
زید حامد کا کہنا ہے کہ ”ماریہ یہ جو آپ کا ایک ظاہری حلیہ ہوتا ہے لوگ اس
کو دیکھ کر اندازہ کرتے ہیں لیکن اگر آپ نے برقعہ پہنا ہو، یا سینے تک
پہنچتی داڑھی ہو اور اندر آپ کے کچھ اور بھرا ہوا ہے تو یہ آپ کے کچھ کام
نہیں آئے گا(ماریہ کی گفتگو کا یہ حصہ بالکل صحیح ہے اس لئے کہ یہ زید حامد
کا نہیں بلکہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے جن کے مطابق ”اللہ تعالیٰ
کو تمہارا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“اور”اعمال
کا دارومدار نیتوں پر ہے“)
قبل ازیں نادیہ نامی میزبان خاتون کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اسلام کے نام
پر ادب،کلچر، رقص،موسیقی ہر انسٹیٹیوشن تباہ و بربار کر دیا گیا۔(یہ بات
کہتے ہوئے وہ جذبات کے مارے سرخ ہوئے جا رہی تھیں،رقص و موسیقی کون سے
اسلام کے ادارے ہیں یہ وضاحت اس گفتگو میں نہیں تھی لیکن ساتھ ہی ہونے والی
زید حامد کی شان میں توصیفی گفتگو نے اس مشکل کی بھی وضاحت کر کے واضح کر
دیا کہ اسلام کا وہ ورژن جو زید حامد اور ان کے ہمراہی پیش کر رہے ہیں یہ
اسکا حصہ ہے)
زید زمان حامد المعروف زید حامد کے پیش رو، پیرومرشد یوسف کذاب کے متعلق ہم
قارئین کو بتاتے چلیں کہ لاہور کی مقامی عدالت کی جانب سے موت کی سزا دئے
جانے کے بعد یوسف کذاب کو کوٹ لکھپت جیل میں موجود پھانسی وارڈ کے سیل
نمبر7 میں رکھا گیا تھا ،جہاں سے اسے ایک اور قیدی طارق الیاس(سیل نمبر
ایک) کے ساتھ شفٹ کر دیا گیا تھا،اس موقع پر طارق نے اپنے اعشاریہ 30کیلبر
کے پستول سے فائرنگ کر کے جھوٹے مدعی نبوت کو جہنم واصل کر دیا،طارق نامی
قیدی کی جانب سے چلائی جانے والی چھ کی چھ گولیاں گستاخ رسالت کو لگیں جو
اسے اگلے جہان سدھارنے کا سبب بن گئیں۔
یوسف کذاب کو 5 اگست 2005ء کو سول جج لاہور کی جانب سے توہین رسالت میں
ملوث پائے جانے پر سزائے موت سناتے ہوئے1لاکھ90ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے
کا بھی حکم دیا تھا۔ اسے پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن295-A,298-A,502(2)
,420اور406کے تحت قابل سزا پایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ یوسف کذاب کو مذکورہ
سزائیں29مارچ1997ءکو اس کے خلاف ملت پارک پولیس اسٹیشن میں درج ہونے والے
مقدمہ کی تفتیش کے بعد سنائی گئی تھیں۔اس مقدمہ میں یوسف علی پر یہ الزامات
تھے کہ وہ مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت میں سعودی عرب گیا اور وہاں سے واپسی
پر یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ وہ سعودی حکومت کی جانب سے خصوصی سفیر مقرر
کیا گیا ہے، وہ لوگوں سے یہ کہہ کر بھاری رقومات وصول کرتا کہ
انہیں(نعوزباللہ)نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر دکھانے میں مدد
فراہم کرے گا۔
یوسف کذاب کے قتل کے بعد جہاں ”قاتل “کی معمر والدہ نے اس اقدام کو اپنے
بیٹے پر فخر کا ذریعہ قرار دیا وہیں عالمی میڈیا بالخصوص مغربی انتہا
پسندوں نے اس واقعہ کو حقوق انسانی کی آڑ لے کر خوب اچھالا۔ بالٹی مور
کرانیکل ،ایل اے ویکلی اور دیگر امریکی وبرطانوی اخبارات وومیگزین اس مہم
کے سرخیل بنے رہے۔ان غیر ملکی اخبارات کی خاص بات یہ تھی کہ اکثر تحریریں
کسی ڈاکٹر علی رند نامی فرد کی تھیں۔ اپنے آپ کو جنرل فزیشن کہلانے والے
مذکورہ ڈاکٹر کو اپنے بارے میں سیاسی تجزیہ نگار ہونے کا دعویٰ بھی تھا،جس
کا ثبوت تحریروں کے ساتھ دئے گئے نام کی الگ سے شامل کی جانے والی ڈسکرپشن
تھی۔
یوسف کذاب کے متعلق سامنے آنے والی اطلاعات میں ایک اہم ثبوت اس ویڈیو کی
صورت مختلف افراد کے پاس موجود ہے جس میں وہ اپنے ساتھ اپنے باقی پیروکاروں
کو بھی سامنے لاتے ہوئے انہیں (نعوذ باللہ)”صحابی “قرار دیتا ہے۔بیت رضا
لاہور میں نام نہاد ورلڈ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یوسف کذاب کا شرکاء کو
مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا
”آپ کو مبارک ہو آج آپ کی محفل میں القرآن بھی موجود ہے، قرآن بھی موجود
ہے، سپارے بھی موجود ہیں اور آیات بھی موجود ہیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی
اپنی جگہ ایک آیت ہے، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ ایک پارہ ہیں، جن کو اپنے
پارے کا احساس ہے ان کو قرآن کی پہچان ہے، اور جن کو قرآن کی پہچان ہے ان
کو القرآن کی پہچان ہے، آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور جو لوگ
نور کے اس سفر میں انتہائی معراج پر پہنچے ہیں ان سے بھی آپ کا تعارف
کروانا ہے،آج کم از کم اس محفل میں سو ”صحابہ“موجود ہیں، سو اولیاءاللہ
موجود ہیں۔۔۔۔۔رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہیں،اگر ہیں تو ان کے صاحب
بھی ساتھ موجود ہیں اور اس صاحب کے جو ساتھ ہیں وہی تو صحابی ہیں،ان صحابہ
کے صدقے کائنات میں رنگ لگ رہا ہے،ان کے صدقے کائنات میں رزق تقسیم ہو رہا
ہے،ان کے صدقے شادی بیاہ ہو رہے ہیں،ان کے صدقے پانی مل رہا ہے ،ان کے صدقے
ہوا چل رہی ہے،ان کے صدقے چاند کی چاندنی ہے ،ان کے صدقے سورج کی روشنی
ہے،یہ نہ ہوں تو اللہ فرماتا ہے کطھ بھی نہ ہو،حتی کہ جو سانس آ رہی ہے ان
کے صدقے ہے،اس محفل میں اس وقت سو سے ذیادہ صحابہ موجود ہیں،جن کی وجہ سے
آج کے انسانوں کو رزق،سانس، پانی اور دیگر اشیاءمیسر ہیں“،اسی محفل میں اس
نے زید زمان حامد کو اپنا”صحابی“قرار دیا ۔
کذاب کا کہنا تھا کہ اس محفل میں موجود ہر صحابی سے تعارف کروانے کا دل
چاہتا ہے لیکن صرف دو سے کرواﺅں گا، یہ کہہ کر پہلے اس نے عبدالواحد نامی
جس فرد کا تعارف کروایا وہ اس کے فنانسرز میں سے ایک تھا،”کذاب کے الفاظ
تھے”عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، ایک ایسی ہستی ہیں جو اپنے نام کی
مانند واحد ہیں،عبدالواحد اور ایک ایسے صحابی ہیں، ایسے ولی اللہ ہیں کہ
پوری کائنات میں جن کا سارے کا سارا خاندان وابستہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو کر محمد مصطفیٰ
تک پہنچا ہے اور ان سے وابستہ ہو کرمحمد ذات حق تک پہنچا ہے۔
اس موقع پر عبدالواحد کو بلایا گیا تو اس نے کہا کہ ”آج سے25سال پہلے ایک
بزرگ سے مکہ معظمہ میں ایک شعرسنا،وہ صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا
ہے،انہوں نے فرامایا تھا
”میں کہاں اور کہاںیہ نکہت گل
نسیم صبح یہ تیری مہربانی ہے“
اس وقت یہ شعر تو بہت پسند آیا لیکن اب پتا چلا کہ یہ نکہت گل بھی اور نسیم
سحر بھی پھول بھی وہ سب اندر موجو دہیں، یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں۔
یہاں عبدالواحد نامی فرد نے علامہ اقبال کا ایک شعر نقل کیا کہ
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
اور کہا کہ ”علامہ اقبال تو منتظر تھے لیکن مبارک ہو اب انتظار کا وقت ختم
ہو گیا“یہ کہہ کر اس نے اپنی گفتگو ختم کر دی۔
اس کے بعد کذاب نے کہا ”دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی اس نوجوان ولی کا
کراﺅں گا کہ جب زیارت کے بعد ہم اگلی صبح کراچی گئے تو سب سے پہلے وابستہ
ہونے والے یہی تھے، سید زید زمان، یہ وہی زید زمان تھے جو اب زید حامد کے
نام سے مشہور ہیں وہ آئے اور اپنے ”پیرو مرشد“کی تعریف کرتے ہوئے کہا
”برسوں سے خواہش تھی کہ دیدار رسالت ہو اور ایسا ہو کہ صرف آخرت ہی میں
نہیں، صرف لامکان میں ہی نہیں بلکہ یہاں بھی ہو، اور ایسا ہو کہ برسوں کی
ریاست اور صدیوں کے مجاہدوں کے ذریعہ کئے جانے والا سفر فوراً کٹ جائے، یہ
خوش نصیبی ہے کے نگاہ مرد مومن میسر آئی ہے۔
اس کے بعد کذاب نے کہا کہ ہم دنیا بھر سے آئے ہوئے پیاروں سے یہ عرض کرتے
ہیں کہ ہم نے مسجد نبوی کو کیوں نہ چنا، اپنی اس بعثت کے لئے مسجد الحرام
کو کیوں نہیں چنا، ہم نے امریکا کو کیوں نہیں چنا، بیت رضا کو کیوں چنا،
بیت رضا میں وہ ہیں جن کو محمد سے وفا ہے، بیت الرضا میں اد اہے، اور ایک
بات مجھے بتائیں؟ ماﺅنٹ ایورست ہے، بڑی بڑی کانوں والے پہاڑ ہیں، سونے کی
کانوں والے پہاڑ ہیں، یاقت کی کانوں والے پہاڑ ہیں، احد پہاڑ ہے تو اے اللہ
آپ نے غار حر ا کو کیوں چنا؟ تو جس حکمت کے تحت غار حرا کو چنا تھا اسی
حکمت کے تحت بیت الرضا کو چن لیا۔اور اس بیت الرضا میں ایسا اجر جاری کیا
کہ سب کو نواز دیا“
جاری ہے |