ادب کا ایقان انجماد پر
نہیں ،تحرک ،تسلسل ،تموج ،تا زگی اور طرفگی پر ہو تا ہے ،ادب زندگی کی نا
میاتی قدروں اور نظریوں کا استعارہ ہوتا ہے ،زندگی افروز رجحانات کا نقیب
ہو تا ہے ،ادب یکسانیت کے بجائے تا زہ ہو اؤں اور تا زہ خوشبوؤں سے شاد کام
ہو تا ہے ،وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو مطمح نظر بنا تا ہے
سکوں محا ل ہے قدرت کے کا ر خانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یہی تغیر ادب کی فطرت ہے ،اس کے اسلوب ،لفظیات ،علامات ،مو ـضوعات اور نظر
یات بدلتے ہیں ،نئے تصورات اور نئی دریافت اپنے ما قبل کے نظریات و فکریات
کو ارتقائی اجا لے عطا کر تے ہیں ۔ادب کی دنیا میں بقول شمس الر حمن فا
روقی :’’کو ئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ حقیقت کا جو بیاں اس نے پیش کیا ہے
وہ قطعی اور حتمی ہے اور نہ ہی یہ دعوی کو ئی کر سکتا ہے کہ حقیقت کا جوروپ
اس نے پیش کیا ہے وہی اصلی اور حتمی ہے ،زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے
کہ حقیقت کو فی الحال میں اس طرح سمجھتا اوراس طرح بیا ن کر تا ہو ں ،لہذا
یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقت کے با رے میں مختلف لو گوں کے بیان مختلف ہو نگے
‘‘(شعر ،غیر شعراور نثر صفحہ ۴۷۶)
’’حقیقت کے با رے میں مختلف لو گوں کے بیان مختلف ہو ں گے ‘‘دراصل یہی وہ
چشمہ ہے جہاں سے نظریات کے سوتے پھوٹتے ہیں ،ایک حقیقت پر مختلف لو گوں کے
مختلف نظر یات سامنے آتے ہیں ،ہر ادیب ایک حقیقت پر مختلف رائے رکھتا ہے ،اس
رائے اور نظر یات کے تئیں اس کی تخلیقی فعا لیت داخلی و خارجی عنا صر سے ہم
آہنگ ہو کر ایک خاص منطقہ پر نمو دار ہو تی ہے ،جو اس کے منہاج و مزاج ،افکار
و نظریات اور ذہنی میلانات و رجحانات کو آشکا را کر تی ہے ،اس نے ملکی ،بین
الاقوامی ،معا شی ،سیا سی ،سما جی اور عصری حا لات و اردات کے اثرات جس طرح
قبول کئے اور جن علامات و اشا رات کے توسط سے انہیں قا ری کے شعور تک پہو
نچا یا ……انہیں آئینہ عطا کر تی ہے۔
ادب ایک طاقت ہے ،جس کے ذریعے رجحانات و میلانات کی نقاب کشائی ہو تی ہے ،اس
طاقت کے ذریعے کبھی تعمیری اور کبھی تخریبی پہلو نما یاں ہو تے ہیں ،معا
شرہ اور سماج ان دونوں کے اثرات قبو ل کر تا ہے ،ادب کی اسی طا قت کا
اعتراف کرتے ہو ئے مو لانا ابو الحسن علی ندوی ؒلکھتے ہیں :’’ادب کی بڑی
خاصیت اور قوت یہ ہے کہ و ہ رجحانات و میلا نات اور عمل طر ز فکر ،اخلاق
اور انقلاب کے محرکات پیدا کر تا ہے ،اس لئے وہ بہت مفید بھی ہو سکتا ہے
اور بہت مضربھی وہ بڑی تعمیری طاقت بھی ہے اور تخریبی بھی ،اسلئے اسکو کسی
حال میں نظر انداز نہیں کر نا چا ہئے‘‘(مطالعہ شعروادب صفحہ ۱۵۵)
یہ قو ت خاصہ سماج کے ارتقاء ،اس کی تعمیر و تشکیل ،فکر و شعورکی آبیاری
اور اصلاحی ذمہ دا ریوں میں اہم کر دار ادا کر تی ہے ۔
افلا طون ہو یا ارسطو ،ہیگل ہو یا فرائڈ،ما رکس ہو یا سیکسپئیر ہر ایک ہاں
نظریہ اور فلسفہ ملتا ہے ،اردو شعریات میں غالب ،اقبال ،میر ،خواجہ میر
درداور آتش ہو ں یا اردو نثریات میں پریم چند ،منٹو ،قر ۃ العین حیدر ،عصمت
چغتا ئی ،سر سید ،حالی ،آزاد ،شبلی یا ابو الکلام آزاد ……ہر جینوئیں فنکار
کے ہاں نظریات کی کارفر مائی ملتی ہے ۔ادب برائے ادب کا نعرہ،ادب برائے
زندگی کا شور ،ادب اور سماج کا رشتہ ،ادب میں افا دی اور اصلاحی زاویے،ادب
اور جما لیات ،ادب اور معیشت ،ادب اور مذہب ،یہ سب کیا ہیں ……!!مختلف نظر
یات کے دلکش عنوانات ہیں ،آج بھی بقول شفیق احمد شفیق :’’ثقا فتی تھیس اور
انٹی ثقا فتی تھیس ،سا ختیات ،پس سا ختیات ،رد سا ختیات ،ما بعد جدیدیت ،انفا
رمیشن ٹکنا لو جی وغیرہ سے علا قہ رکھنے والے رجحانات واضح طور پر داخل ادب
و فن ہو ئے ہیں ‘‘(ثالث جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ء صفحہ ۱۰)
ادب کے عصری رجحانات سے انکار ممکن نہیں ،اسی رجحانات سے متا ٔثر ہو کر ادب
پارے تخلیق پا تے ہیں ،جو ادب جس عہد میں ہو تا ہے ،اس عہد کی بہت سی لہریں
ادبی وجود میں مو جزن ہو تی ہیں ،جن سے اس عہد کی شنا خت ابھر تی ہے،قا ری
اس عہد کی تہذیب و ثقافت اور ادبی حسیت سے آشنا ہو تا ہے ،ما حول اور عہد
کے بغیر فن کا تصور نہیں ،کسی بھی فن کے محرکات کے عرفان کے لئے اس عہدکے
ذہنی رویوں کا ادراک ضروری ہے ۔ٹین (Taine) کا نظریہ فن کے تعلق سے کچھ یو
ں سامنے آتا ہے :’’فن کو ئی ایسی شئی نہیں جو اپنے ما حول سے منقطع اور بے
نیاز ہو ،لہذا اسے سمجھنے کے لئے ہمیں اس عہد کے ذہنی اور معا شرتی حا لات
و محرکات کا لا زمی طور پر مطالعہ کرنا ہوگا ،جو اس کی تخلیق کا با عث ہو
،ہر شخص جا نتا ہے کہ فنکارایک گروہ کا فردہو تا ہے ،جو بہر حال اس سے بڑا
ہو تا ہے اور تمام فنکار جزوی طور پر اپنے زمانے کی پیدا وار ہو تے ہیں
‘‘(جدید اردو تنقید اصو ل و نظریات :شا رب ردولوی صفحہ۳۳۷تا۳۳۸)
احمد علی کے خیالات بھی ملا حظہ ہو ں :’’ ہر زمانہ کا آرٹ اپنے ما حول کی
پیدا وار ہو تا ہے ،فنکار سماج کے ایک فرد کی حیثیت سے رہتا ہے اور ان
رجحانات سے یقینا متأثر ہو تا ہے ،جو اس زما نے میں نما یاں ہو تے ہیں
،مثلا دور جا گیر داری کے آرٹ کو دیکھئے کہ اس میں شان و شوکت اور آرائش و
تکلف کی کیسی فرا وانی ہے ،مگر بڑی حد تک وہ رئیسا نہ اور عا رفانہ ہے،
دور جمہو ریت کا آرٹ اس کے بر عکس سلیس اور عام پسند ہے ،دور سر ما یہ دا
ری نے جو عہد پیدا کیا ہے وہ اس تضاد کو ظاہر کر تا ہے جو نظام سر ما یہ
داری میں مضمر ہے ،مگر طبقہ ٔ مزدوراں کا آرٹ تا زہ دم اور امید پر ور ہے
،وہ سر ما یہ دارانہ آرٹ کی یا وہ کو ئی اور یاس پسندی سے یکسر خالی ہے ،غر
ضیکہ سماج کا اپنا فلسفہ ٔ زندگی ہو تا ہے اور اپنا اصول فن اور یہ عکس ہو
تے ہیں پیدا وار کے ان طریقوں کے جو اس خاص زما نے میں رائج ہو تے ہیں
،فنکار ی زندگی اس کے سما جی ما حول کی مطیع ہے ‘‘(اردو میں ترقی پسند ادبی
تحریک صفحہ۲۴۵تا۲۴۶)اور بقول مجنوں گو رکھپوری ’’ادب کا تعلق ہمیشہ کسی نہ
کسی جما عت سے رہے گا ‘‘
مذکو رہ اقتبا سات سے یہ امر روشن ہو تا ہے کہ ادب کسی نظریہ ،کسی ما حو ل
،کسی جماعت ،کسی زما نہ ،کسی فلسفہ اور کسی رجحانات کے تحت ہی پروان چڑھتا
ہے ۔جس میں انسانی معا شرت کی دلکش عکا سی ملتی ہے ،گفت و شنید ،عادات و
اطوار اور زندگی کی بہت سی جہتیں منور ہو تی ہیں ،ذہنی اور فکری سطحیں اور
جذبات و خیالات کی لہریں ابھر تی ہیں ،سماج کے فعا ل اور متحر ک کر دار تا
بندہ ہو تے ہیں ۔
’’دور کہانت ‘‘کے ادبی سر ما یوں میں جو گیت اور بھجن لکھے گئے ،اس میں
دیوی دیوتاؤں کی مدح کے سا تھ ایک مخصوص نظریہ کی با ز گشت سنا ئی دیتی ہے
،ہو مر کے بھجن اور رزم ’’ایلیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ کی شنا خت بھی مخصوص طبقے
کی تر جما نی سے ہی قا ئم ہو تی ہے ،’’جا گیر شا ہی ‘‘میں ادب دوطبقوں میں
منقسم ہو چکا تھا ،ایک صوفی طبقہ اور ایک اعلی طبقہ اور ان دونوں طبقوں کی
نما ئندگی ادب کر رہا تھا ،’’دولت شا ہی ‘‘ میں ادب سر ما یہ داروں کے
جذبات و خیا لات کی عکا سی کا اسیر رہا ،سیکسپئر ،ملٹن،کالڈران کی تخلیقات
میں اس عہد کے رنگ و نور بکھرے ہو ئے ہیں ،پھر ادب ’’روما نی بیداری‘‘کی
تحریک سے بھی آشنا ہو ا،روسو ،گیٹئے،ورڈس ورتھ اور شیلی نے یہاں انسان کو
حقا ئق سے قریب کر نے کی جستجو کی ،الغرض عالمی ادب میں کسی پر بھی نظر
ڈالئے ،خاص عہدو عصر میں کسی مخصوص مکتب فکر کی دعوت سے معمور ہے ،ڈارون کا
نظریہ ٔارتقاء اگر چہ حیا تیات کا استعارہ ہے ،مگر اس نظر یہ نے ادب میں
الحادو لا دینیت کو فرو غ دیا ،شعر و ادب ،فن اور جما لیات کے زاویے بد ل
گئے ،رو ما نی تصو کی جگہ دہشت کے تصور نے لے لی ،حسن و قبح بے معنی ہو کر
رہ گئے ،اس نظر یہ سے پیدا شدہ ادب نے اس احساس کو جنم دیا کہ اب شام کی
رعنائی ،صبح کی دلکشی ،بہار و ں کی شا دابی ،آوازوں کی خـوش آہنگی اور شا
عری کی لطافت معدوم ہو چکی ہے ،ڈارون کا نظر یہ تھا کہ ’’انسان نہ تو خدا
کا فرستادہ ہے اور نہ جنت سے نکا لا ہو ا انسان ،انسان خدا کی تخلیق نہیں
،بلکہ خدا انسان کی تخلیق ہے ،انسا ن اگر فطرت سے نبر د آزمائی کا حو صلہ
رکھتا ہے تو اس کا سبب عطیہ ٔ الہی نہیں بلکہ جغرافیائی ،طبعی اور عمرانی
ما حول نیز ارتقاء کے وہ عنا صر ہیں جو اس کی حیثیت و ہیئت تعمیر کر تے ہیں
‘‘(مطالعہ شعروادب صفحہ۲۱)
یہ سچ ہے کہ اس نظریہ نے مذہبیت کو متزلزل کر دیا ،تا ریخ بھی اس سے متأ ثر
ہو ئی ……مگر ادب اس سے اپنا دامن بچا نہ سکا ،یہی وجہ ہے کہ فرانس اور جر
منی کی جنگ ۱۸۷۰ء میں
جب جر منی کو فتح نصیب ہو ئی ،تو اس کے بعد بہت سے ادیبوں کی تخلیقات میں
ڈارون کے نظر یات کی شمع جل اٹھی ۔
ادبی تحریکات کے تحت جو تخلیقات معر ض وجود میں آئیں ،ان میں بھی مخصوص
طبقہ ،مخصوص رجحان اور مخصوص نظریات کے زاویے روشن ہیں ،جدید ادبی تحریکات
نے بیسویں صدی میں افکارو نظر یات کے اثرات جس طرح قبو ل کئے ہیں ان کی طرف
اشارہ کر تے ہو ئے پرو فیسر محسن عثمانی ندوی رقم طراز ہیں :’’اقدارو افکار
کی کثرت نے بیسویں صدی کو مکا تب فکر اور نظر یات کی صدی بنا دیا ہے ،یہ
اضطراب کا عہد بھی ہے اور پریشان خیا لی کا عہد بھی ،یہ نفسیاتی بحران کا
عہد بھی ہے اور تشکیک و بے راہ روی کا عہد بھی ،اس میں خطو ط خمدار کی
نمائش بھی ہے اور مریز و کجدار کی نمائش بھی ہے ،یو رپ میں نشأ ۃ ثا نیہ کی
تحریک نے بھی ادبی تحریکوں پر اپنا اثر ڈالا ،۱۵۳۰ء اور ۱۶۶۰ء کے درمیان
کا زمانہ نشأ ۃ ثانیہ کی تحریک کا زما نہ ہے ،اٹلی اس کا گہوارہ تھا ،لا
طینی زبان کا احیاء اور فنون لطیفہ کی سر پرستی اس کا لا زمی عنصر تھا ،ادب
،مصوری ،سنگ ترا شی اور مو سیقی سب پر اس کے اثرات پڑے ،اس کے اثر سے مذہب
اور اخلاق کی قوت کم ہو ئی ،اخلاقی بے راہ رہروی بڑھی ،تفریحی مشا غل کا
شوق بڑھا ،تھا مس مور کی کتاب (UTOPIA)انگریزی نشأ ۃ ثا نیہ کی ابجد ہے ،اس
میں مذہب اور قدامت پسندی کا مذاق اڑایا گیا ہے ،جدید تہذیب کی سب سے بڑی
علامت وہ رویہ ہے جو خدا اور مذہب سے بغاوت پر مبنی ہے ،جدید نظر یات کے
سیل بے اماں نے انسان کے ذہنی اور جذبا تی وجود میں بنیادی تبدیلیاں پیدا
کی ہیں اور ان تبدیلیوں کا اثر ادب اور تہذیب پر پڑا ہے ‘‘(مطالعہ شعرو ادب
صفحہ۲۱)
انیسویں صدی میں رو ما نیت کی تحریک ابھری ،اس تحریک نے جس نظریہ کی اشاعت
کی وہ وجود کی آزادی اور انفرادیت کے تحفظ کا شعور تھا ،ذاتی تجربہ ،ذاتی
جذبہ اور انفرادی قدروقیمت اس کا حصہ تھا ،پھر بیسویں صدی میں وجودیت کا
غلغلہ اٹھا ،اس کے پاس با ـضا بطہ نہ تو کوئی نظام فکر تھا اور نہ ہی مر کز
یت ،اس کی تمام تر سعی مر کز وجود کے معنی کے تفحص پر مر کوز تھی ،تما م
وجودی ادیبوں میں جو نظر یہ مشترک ہے وہ وجود پر خارجی رویوں کے تسلط کے
بجائے دا خلیت ،رو ما نیت اور وجدان و عرفان کی حا کمیت ہے ،کر کے گار
وجودی ادیبوں میں شامل ایک اہم نام ہے ،اس کا نظر یہ ہے کہ’’انفرادیت ،آفا
قیت سے ارفع تر ہے اور عشرت قطر ۂ دریا میں فنا ہو جا نے کا نام نہیں ،کیو
نکہ اس صورت میں قطرہ کی انفرادیت ختم ہو جا تی ہے ‘‘۔اس نظریہ کی تا ئید
کے لئے وہ عقیدہ ٔ عیسا ئیت اور پھر سقراط کے اس قول تک کہ ’’دا خلیت میں
فیصلہ کی صلا حیت ہے ،معرو ضیت کے تلاش کا مطلب ہے غلطی میں پڑنا ،رسائی
حاصل کر تا ہے ۔
مغربی ادبی تحریکوں میں ایک نظریہ فرائڈ کے نفسیات کا بھی ہے ،وہ کہتا ہے
کہ :’’نفس انسا نی کا رشتہ صرف شعور سے نہیں بلکہ تحت الشعور اور لا شعور
سے بھی مستحکم ہے ،اس لا شعور میں ایک جہا ن تمنا آباد ہے ،لیکن اس کی
تکمیل شعور کے واسطے سے ہو تی ہے، اگر شعور اس تمنا کو با ر آور ر نے میں
نا کام ہو تا ہے ،تو اس کی وجہ سماج اور مذہب کی حد بندیاں ہیں نہ کہ شعور
کا قصور ،ان خواہشات کی عدم تکمیل کی صورت میں افراد پر بے چینی اور بے تا
بی طاری ہو تی ہے ،وہ دما غی تو ازن کھوتے اور ہسٹر یا کا مرض ان کو لاحق
ہو تا ہے ،اس کے نظریہ کے مطابق جنسی خواہشات کا آغاز زما نہ ٔ طفلی سے ہی
ہو جا تا ہے ،گویا انسان مغلوب الشہوات حیوان ہے ،اس کا نظریہ نفسیات جدید
سے متعارف ہو ا ،مغرب و مشرق میں ہزاروں تصا نیف اس نظر یے کی تا ئید میں
منصہ شہو د پر آئیں ،اس نظر یے نے ادب کو متا ٔ ثر کیا ،جنسی ادب کے ذخائر
جمع ہو ئے ،فحاشی ،عر یانیت ،بے حیائی اور جنسی محبت جیسے عنا صر ادب میں
پیدا ہو گئے ۔
اردو ادب جن تحریکات سے آشنا ہو ا،ان میں سے ہر تحریک کی شنا خت کسی نہ کسی
مخصوص رجحان کے تئیں ابھر تی ہے ۔ڈاکٹر الف نا ظم لکھتے ہیں :’’۱۸۵۷ء کے
بعد قدامت پسندی کے خلاف سر سیداحمد نے اپنی تحریک شروع کی ،مو لانا حا لی
اور محمد حسین آزاد نے مغربی اصو ل و نظر یات سے متأ ثر ہو کر اردو ادب کی
فر سودہ روا یات کے خلاف احتجاج کیا ،۱۹۳۶ء میں رو ما نیت اور فر سودگی کی
مزاحمت میں تر قی پسند تحریک وجود میں آئی اور جب یہ سیلاب کچھ تھما ،تو
جدیدیت کی تحریک نے سر اٹھا یا ،جس نے تر قی پسند کی سخت مخالفت کی ،جدیدیت
کے ردعمل میں بھی ایک رجحان نے فر وغ پایا ،جسے ما بعد جدیدیت کے نام سے جا
نا جا تا ہے (سہارا امنگ بزم ادب ۲۰اپریل۲۰۱۴)
اب تک کے تجزیے سے یہ بات بہت حد تک وا ضح ہو گئی کہ ادب رجحانات و نظر یات
اور تحریکات کے اثرات قبول بھی کر تا ہے اور اس کے فر وغ میں معا ون بھی ہو
تا ہے ،لیکن یہ تحریکات و نظر یات نہ تو دائمی ہو تے ہیں اور نہ ہی زندگی
کے نئے تقا ضوں سے نبر د آزما ہو سکتے ہیں ۔اس حو الے سے رشید احمد صدیقی
لکھتے ہیں :’’کو ئی تحریک زیاد ہ دنوں تک زندگی کے نو بہ نو تقا ضوں کا سا
تھ نہیں دے سکتی ،اس طور پر اشتراکی آمریت ہو یا امریکی آمریت ،انسان کے
فکر اور عزائم کی آزادی کی تاب دیر تک نہیں لا سکتی ،سا ئنسی ترقی کے مو جو
دہ عہد میں انسان کی عمر طبعی بڑھنے لگی ہے ،لیکن اس سے کہیں زیادہ تیز
رفتا ری سے تحریکوں ،تجر بوں اور اداروں کی عمریں گھٹنے لگی ہیں ،جو تحریک
،تجر بہ یا ادارہ پہلے کبھی صدیوں زندہ اور کا ر آمد رہتا تھا اب ایک آدھ
نسل سے زائد مو ٔ ثر نہیں رہ پا تا ‘‘(جدید غزل صفحہ ۱۰۸)
ظاہر ہے کہ ہر نیا زمانہ نئی حقیقت ،نئے مسائل ،نئے چیلنجز اور نئے نظریات
کو جنم دے گا ،نئے علوم ،نئے اکتشافات ،نئے امکا نات ذہنی ارتقاء کے سا تھ
انسا نی افکار میں تغیر پیدا کر یں گے ،نئی دنیا روشن ہو گی ،نیا جہان طلوع
ہو گا ،نئے نئے آفاق منور ہو نگے ،ہر آن نیا طور اور نئی برق تجلی نگا ہوں
کو خیرہ کر ے گی ،نئے منطقے اور نئے جزیرے دریافت ہو نگے ،سماج بدلے گا
،سیاسی اور معا شی سطحیں متغیر ہو ں گی ،حا لات کے نئے مطالبات سا منے آئیں
گے ،تو نظر یات بھی بدلیں گے ،ان حا لات میں قدیم تحریکات اور قدیم نظریات
زندگی کے نو بہ نو تقا ضوں کو کیو نکر پورا کر سکیں گے ۔لیکن نظر یات ادب
میں ہمیشہ بر قرار رہیں گے ،تفریق صرف قدیم اور جدید کی رہ جا ئے گی ۔ |