انسان۔۔۔مزدور، سیاستدان، شیطان اور فرشتہ

 یو نانی حکما نے انسانی جسم کے ،مادی ساخت کے لحاظ سے ،چار بنیادی اجزابیان کئے ہیں: آگ، پانی، ہوا اور مٹی ۔ اسی انداز میں ہم انسان کو اس کے شخصیت کے کرداروں کے لحاظ سے چار بنیادی کرداروں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ ہماری اپنی اخترع ہے جس سے متفق ہونا یا متفق نا ہونا کسی کے لئے ضروری نہیں۔لیکن اگر کوئی اتفاق کر ے ،تو اس میں ہماری حوصلہ افزائی ضرور ہو گی۔

ہر انسان کے اندر چار کردار ضرور ہوتے ہیں جو کہ یہ ہیں: مزدور، سیاستدان، شیطان اور فرشتہ۔ہم ان کرداروں کو ایک ایک کر کے زیرِ بحث لائیں گے ۔

ہر انسان کے اندر ایک مزدور ہوتا ہے جو کہ اس کے ہر طرح کے کام کرتا ہے۔ دراصل ہر انسان مزدور ہے چاہے وہ امیر ہے یا غریب، اچھا ہے یا برا، بادشاہ ہے یا فقیر۔ ہر انسان اپنے حصے کا کام کرتا ہے، اور اسے کرنا بھی پڑتا ہے۔ کوئی انسان کام کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔بڑے لوگوں کی مصروفیات اور ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ ایک ادارے کے سربراہ پر اس ادارے کے تمام ملازمین کی ذمہ واری بھی آتی ہے۔ملک کا سربراہ اپنے پورے ملک کا ذمہ دار ہوتا ہے۔وہ اپنی سطح پر کام کرتا ہے۔

ہر شخص کام کرتا ہے اس لئے ہر شخص بنیادی طور پر مزدور ہے، بظاہر وہ چاہے کسی شعبے یا سطح کا کیوں نہ ہو۔چیف آف آرمی سٹاف بھی اپنے حصے کا کام کرتا ہے اور اسے کرنا پڑتا ہے، ایک پروفیسر بھی اپنے حصے کا کام کرتا ہے، ایک ڈاکٹر اور جج بھی اپنے حصے کا کام کرتا ہے، اس لئے یہ سب لوگ مزدور ہیں۔ کیوں کہ مزدور بھی اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔ کام کرنے والا ہر شخص مزدور کے زمرے میں آتا ہے۔ اور کام کرنے والا مزدور کہلاتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر ہر شخص انسان ہے ، بعد میں چاہے وہ انسان مار ہی کیوں نہ بن جائے۔

ہر ملازم کے لئے سروس کا لفظ مستعمل ہے۔ سروس کرنے والا سرونٹ کہلاتا ہے۔ ہم سروس تو حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن سرونٹ کہلانا نہیں چاہتے۔جبکہ وہ بھی ایک کام ہے ، اس لئے سرونٹ بھی مزدور ہے۔ ایک خاتون گھر میں اپنے حصے کا کام کرتی ہے اور ایک گھر سے باہر جا کے اپنے حصے کا کام کرتی ہے۔ دراصل دونوں اپنی اپنی مزدوری کرتی ہیں۔اب یہ بات کہ جو اپنے حصے کا کام نہیں کرتا، وہ کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ جو اپنے حصے کا کام نہیں کرتا ، کوئی نہ کوئی کام وہ بھی کرتا ہے۔ اس کام کے لحاظ سے وہ بھی مزدور ہے۔ایک شاعر، فلسفی، مریض،ڈاکو،سمگلر ،نشئی وغیرہ ہر کوئی ،کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے۔ اس لئے یہ سب لوگ بھی مزدور کی کیٹیگری میں ہی آتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر انسان صرف اور صرف مزدور ہے۔ مالک تو وہ ہے جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔

ایک سائنسدان بہت بڑا مزدور ہوتا ہے، کئی کئی سال اپنی ریسرچ کی نذر کر دیاتا ہے۔اس کی لیبارٹری اس کا کارخانہ ہے اور وہ وہاں دن رات اپنی مزدوری میں مصروف رہتا ہے۔

ایک صوفی بھی مزدور ہوتا ہے ،وہ اپنے رب کی مزدوری میں ہمہ وقت محوِ جستجو رہتا ہے۔خدا کے بندوں کی بھی خدمت کرتا ہے اور اپنے نفس کی اصلاح بھی کرتا ہے اور ایسے بہت سے کام کرتا ہے جو اس کی اپنی طبع پر گراں ہوتے ہیں۔

ایک بچہ بھی مزدور ی کرتا ہے اور اپنے والدین سے اپنی باتیں منوانے کے لئے کتنے جتن کرتا ہے۔ کئی ایک باتیں اس کی خواہش کے منافی ہوتی ہیں اور وہ ان باتوں کو با دلِ ناخواستہ برداشت کرتا ہے۔
ایک طالبِ علم کی مزدوری سے تو کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔ وہ دنیا کے بڑے مزدوروں میں شمار ہوتا ہے۔ ذہن کے جنگل کو ایک دیدہ زیب پارک میں بدلنے کے لئے وہ دن رات سخت کوشی کرتا ہے۔
ایک فقیر سے بڑا مزدور کون ہو گا ۔ سارا دن لوگوں کو دعائیں دے دے کے تھک جاتا ہے۔ گلی گلی، گھر گھر جانا اور ہر ایرے گیرے کے آگے ہاتھ پھیلانا کوئی آسان کام تھوڑاہے۔

بادشاہ اپنے دربار میں اپنے امیروں اور مصاحبوں کے ساتھ بظاہر بڑے کرو فر سے جلوہ افروز ہوتا ہے، لیکن وہ بھی دراصل کسی کام کے لئے غورو فکر یا پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ بھی کوئی کام ہی کر رہا ہوتا ہے۔

جس انسان کے اندر کا مزدور بہت توانا اور متحرک ہوتا ہے وہ شخص خوب کام کرتا ہے اور جس کے اندر کا مزدور سست، کاہل ہو وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنے بیشتر کام دوسروں پر ڈال کر عیاشی کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔اندر کا مستعد مزدور بہت عظیم کردار تخلیق کرتا ہے۔دنیا کے تمام عظیم انسانوں کے اندر کے مزدور بہت محنتی اور مستعد تھے۔ محنت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

عبادت گزارانسانوں کے اندر کے مزدور بہت مستعد ہوتے ہیں، تبھی تو وہ ساری یا آدھی رات عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور تھکتے بھی نہیں۔عبادت بھی تو کوئی آسان کام نہیں ۔ عبادت کرنے کے لئے انسان کو اندر سے اپنے آپ کو اچھا خاصا مزدوربنانا پڑتا ہے۔

ایک پائلٹ بھی تو سوسائٹی کا مزدور ہے۔ کام میں لطف کی بات کی جائے تو وہ ہر کام کرنے والے کو ایک مرحلے پر ملنے لگتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک جوتے مرمت کرنے والے کو ، سخت دھوپ میں دیوار تعمیر کرنے والے کو، کھیت میں ہل چلانے والے کو ۔۔۔۔ ہر شخص کو ایک مرحلے پر اپنے کام میں لطف ملتا ہے اور ایک مرحلے پر وہ اپنے کام سے بیزار ہوتا ہے۔ہر مزدوری کا یہ حال ہے۔

شو بز جیسا پر کشش کام بھی اپنی اصل سنس میں مزدوری ہی کی ایک قسم ہے جس مرضی اداکار یا اداکارہ سے پوچھ لیں اپنے کام کو وہ کام ہی کہیں گے۔اس انہیں ابھی اپنے شہرت بخش کام میں بہت سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اچھا خاصا وقت دینا پڑتا ہے اور کئی ایک سین فلمبند کرواتے ہوئے اچھی خاصی پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
دل لگی دل لگی نہیں زاہد
تیرے دل کو ابھی لگی نہیں زاہد

میں نے اس بات کو مستحکم کرنے میں کافی مزدوری کی ہے کہ ہر شخص اپنے حصے کا کام کرتا ہے اس لئے ہر شخص چاہے وہ اچھا ہے یا برا ہے، مزدور ہے۔ مزدور تو حتیٰ کہ جانوروں کے اندر بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی اپنی خوراک کے لئے مشقت کرتے ہیں۔ ایک شیر کو بیٹھے بٹھائے اپنا شکار نہیں ملتا۔ بلکہ اسے اپنے شکار کے پیچھے بھاگنا اور اس سے لڑنا بھی پڑتا ہے۔گدھا ، گھوڑا جیسے جانور تو ہر طرف مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ بچارے پرندوں کو بھی اپنے اندر کے مزدور کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات لمبے لمبے سفر کر کے اپنی جان بچانے اور خوراک پانے کا جتن کرنا پڑتا ہے۔کون کسی کے لئے کام کرتا ہے، کوئی بھی نہیں۔ ہر کوئی اپنا ہی کام کرتا ہے۔ عقاب فضاؤں کا بادشاہ ہے لیکن اپنا شکار خود ہی پکڑتا ہے۔یعنی اپنی مزدوری آپ ہی کرتا ہے۔

اب ہم اس بات کی طرف آتے ہیں کہ ہر انسان کے اندر ایک سیاستدان بھی ہے۔ سیاست دان کا کام سوچنا اور اس سوچ کے مطابق مناسب کام کرنا ہے۔ ہر انسان سوچتا ہے اور اپنے کام کاج اسی سوچ کے آئینے میں استوار کرتا ہے۔ایک بادشاہ سے لے کر ایک فقیر تک ہر شخص کی رہنمائی کا فریضہ یہی سوچ کی مشعل ادا کرتی ہے۔

سیاست کی فیلڈ، کچھ بر ے سیاستدانوں کی وجہ سے نا پسندیدہ سی ہو چکی ہے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے اندر کے سیاستدان کا وجود ماننے سے انکار کر دیں، لیکن انکار کرنے سے حقیقت کو جھٹلایا تو نہیں جا سکتا ۔ اور جو جھٹلاتا ہے وہ بھی تو کچھ سوچ کر ہی جھٹلاتا ہے یعنی وہ بھی کسی سیاستدان کی ہی ایڈوائس پر عمل پیرا ہو رہے ہوتے ہیں۔اسی سیاستدان کی بات تو ہم کر رہے ہیں۔
ہر گھر ایک ریاست کی طرح ہوتا ہے۔گھر کے سربراہ سے لے کر سب سے چھوٹے فرد تک ہر شخص اپنی اپنی سوچ کے مطابق اپنی سیاست چلاتا ہے اور کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کوئی ناکام۔

ایک بزنس مین بھی سیاست کا سہارا لیتا ہے، اور اپنے کاروبار کے فروغ کے لئے نئے نئے انداز اور رستے تلاش کرتا ہے۔اس مقصد کے لئے اسے کوئی ہیرا پھیری بھی کرنی پڑے تو کر لیتا ہے۔

ایک فلم میکر اس بات کو اکثر زیرِ غور رکھتا ہے کہ اس کی فلم کس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے پسندیدہ ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ہر جتن کرتا ہے۔ مشکل سین فلمانے سے لے کر فلم میں فحاشی کے مناظر پیش کرنے تک وہ سب کچھ اسی سوچ کے زیرِ اثر کرتا ہے کہ اس کی فلم زیادہ سے زیادہ کامیاب ہو جائے۔

ایک عالمِ دین بھی سوچتا ہے کہ اس کی تقریر یا تحریرکس طرح زیادہ سے زیادہ ذہنوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ وہ اس میں اس طرح کا مواد شامل کرتا ہے جس سے اس کی بات دوسروں کو بہتر طور پر سمجھ آ جائے اور وہ اس کی بات پر عمل درآمد پر تیار ہو جائیں۔یہ سوچ اس کے اندر کا سیاست دان دے رہا ہوتا ہے۔

ایک استاد اپنے سبق کو سٹوڈنٹس کے لئے زیادہ سے زیادہ مستفید بنانے کے لئے لیسن پلاننگ کرتا ہے۔ پلاننگ کا لفظ اس کام میں سیاست کا عمل دخل ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔پھر ہر استاد اپنا رزلٹ بہتر بنانے کی فکر بھی کرتا ہے اور کام کے لئے زیادہ سٹوڈنٹس پاس کروانے کی حکمتِ عملی بھی تیار کرتا ہے۔ یہ حکمتِ عملی ، سیاست ہی کا تو متبادل لفظ ہے۔

ایک ڈاکٹر اپنے مریض کی نفسیات کو اسے بتائے بغیر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے، مریض کا دل موہ لینے کے لئے اس سے میٹھی زبان میں بات کرتا ہے۔اپنی فیس کا بندوبست سب سے زیادہ احسن طور پر کرتا ہے۔وہ اپنے پیشے کو ایک سیاست دان ہی کے انداز میں چلاتا ہے۔

وکلا بھی اس سیاست میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ ایک وکیل اچھی طرح جانتے ہوئے کہ اس کو مقدمے میں شکست ہو گی ،اپنے سائل کو اسی آس پر رکھتا ہے کہ وہ مقدمہ ضرور جیتیں گے۔ بس اس کا سائل اسے فیس دیتا رہے ، باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔اور جب مقدمہ ہار جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ جج نے فیصلہ ٹھیک نہیں کیا یا مخالف پارٹی سے رشوت لے لی ہے۔ یہ سارا کچھ سیاست دانی ہی تو ہے۔

ایک فقیر بھی سوچتا ہے کہ ا س نے اپنے شکارکو کیسے اپنی دعاؤں اور دہائیوں کے جال میں پھنسانا ہے۔کسی نو بیاہتا جوڑے کو کیا دعا دینی ہے، کسی طالبِ علم کا دل کیسے موہنا ہے، کسی مالدار گائے کو کیسے دوھناہے۔مختلف دنوں اور تہواروں کو کس طرح اپنی آمدن بڑھانے کا ذریعہ بنانا ہے۔یقین کریں بھیک مانگنا بہت بڑی سیاست کا متقاضی ہے۔سیاست سے عاری فقیر دہاڑی بنانے میں ناکام رہتا ہے۔

مذہب کے نام پر پیسے اکٹھے کرنا بھی ایک بہت بڑی سیاست کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک اچھا بنا ٹھنا بظاہر مذہبی رنگ ڈھنگ کا آدمی گاڑی میں داخل ہوتا ہے اور ڈبہ کھڑکاتا ہے، یا پیسوں کی وصولی کی رسیدیں سامنے لاتا ہے۔ کسی جگہ مسجد کے زیرِ تعمیر ہونے کا ، اور وہاں غریب بچوں کے زیرِ تعلیم ہونے کا اعلان کر کے گاڑی میں سوار لوگوں کے ہاتھ جیب کی طرف اٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔کسی کی جیب سے پیسے اپنی جیب میں ڈلوالینا بہت بڑی سیاست ہے۔اگر یقین نہیں آتا تو کبھی کر کے دیکھیں۔

دکانداری بظاہر ایک سادہ سی سرگرمی ہے۔ لیکن مختلف گاہکوں اور ان کے مختلف رویوں کو سمجھنا اور ان سے تعلق کو تا دیر برقرار رکھنا بہت بڑی سیاست ہے۔ بہت سے دکاندار اس سیاست میں کمزور ہونے کے باعث دکان یا گاہک گنوا بیٹھتے ہیں۔دکان اور گاہک دونوں کو برقرار رکھنا کسی سیاست سے کمتر ہرگز نہیں۔

رشتہ داری بھی سیاست کے بغیر نہیں چلتی۔ کس رشتہ دار کی خدمت زیادہ کرنی ہے، کس کی کم، کس کے ساتھ اچھے انداز میں پیش آنا ہے اور کس کے ساتھ منہ بنائے رکھنا ہے۔امیر رشتہ دار اور غریب رشتہ دار ، کس کے ساتھ رشتہ داری برقرار رکھنی ہے اور کس کے ساتھ تعلق توڑ لینا ہے۔کس سے رشتہ لینا ہے اور کسے دینا ہے۔ یقین مانیں ایک بہت بڑی سیاست ہے، بالکل شطرنج جیسی۔

کیا کھیل کا میدان سیاست سے خالی ؟ کون نہیں جانتا کہ کھیلوں میں بھی سیاست کھیلی جاتی ہے۔ کھیل بذاتِ خود ایک سیاست ہے۔ کھیل دراصل ایک پر امن جنگ ہے جسے جیتنے کے لئے عمل سے زیادہ سیاست کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک سمجھدار کھلاڑی ہی اچھا کھلاڑی ثابت ہوتا ہے۔ کھیل کے لئے صرف جوش ہی نہیں ہوش کی بھی ڈیمانڈ ہوتی ہے اور اسی ہوش کے دوش پر سیاست چلی آتی ہے۔حالتِ امن میں فوجوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد رکھنے کے لئے ان کھیلوں کا آغاز کیا گیا ، جو بعد میں اپنے طور پر جنگ سے علیحدہ پیشوں کی حیثیت اختیار کر گئے۔اب کھیل کے ساتھ انجوائیمنٹ کا عنصر سیاست کی نسبت زیادہ واضح محسوس ہوتا ہے لیکن اب بھی کھیل میں سیاست ضرور ہوتی ہے۔کھیل میں ایک اصطلاح سپورٹس مین شپ استعمال ہوتی ہے، جو کہ سفارت کاروں کے لحاظ سے ڈپلومیسی ہی کی دوسری شکل ہے۔ انسان اپنے جذبات میں کبھی دوغلا نہیں ہو سکتا۔ زبان میں ایسا ہو جاناعام بات ہے۔ جذبات چھپائے نہیں چھپتے۔لیکن یہ کہنا کہ ہارنے کا غم نہیں ،کوئی سچی بات نہیں ہے۔ اور سیاست کسے کہتے ہیں؟

ایک مالی چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پھل پھول اگائے اور اس مقصد کے لئے وہ موسم، جگہ، آب وہوا، پانی وغیرہ کا ایسا انتخاب اور استعمال کرتا ہے جس سے اس کے مقاصدحاصل ہونے میں مدد ملتی ہے اور اس طرح وہ ایک دو نہیں بلکہ کئی ایک گل کھلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔مالی پن بھی سیاست کی اچھی خاصی مالیت کی چیز ہے۔ ہر کوئی مالی نہیں ہوتا کہ اسے اس کی سیاست نہیں آتی۔

کھانا پکانا اور کھانا بنانادو اصطلاحیں ہیں۔ کھانا پکانے کو تو ہر کوئی پکا لیتا ہے لیکن کھانا بنانا کسی کسی کو آتا ہے۔ کھانا پکانا اور بنا نا دونوں میں سیاست کی مداخلت دیکھی جا سکتی ہے۔کھانا پکانے کے پہلے مرحلے سے لے کر آخری مرحلے تک سیاست کا عمل جاری رہتا ہے ۔کس چیز کو کتنا ، کس چیز کو پہلے، کس کو بعد میں، کس کو آخر میں وغیرہ سب کا سب انتہائی سوچ بچار کا پروسس ہے۔ذرا سی کمی بیشی اور دیر سویر سے سارے کھانے کا ستیاناس ہو جاتا ہے جیساکہ انجان یا نئے نئے پکانے والوں سے ہو جاتا ہے۔ جبکہ ماہر کھانا بنانے والے ایسے کھانا بناتے ہیں کہ ہر کوئی ان کے فن کی داد دیتا ہے اور کھانے کی تعریف کرتا ہے۔کھانا بنانا بہت ذہانت اور سوچ کا ارتکاز مانگتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس میں سیاست کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔

یہاں تک کہ کھانا ،کھانا بھی سیاسی عمل جیسا ہے۔ لوگ چن کر اچھی اچھی بوٹیاں نکالتے ہیں اور تھوڑی سی کھا کر باقی ضائع کر دیتے ہیں۔لوگ گھروں میں کھانا ایک طریقے سے کھاتے ہیں اور شادیوں ، محفلوں میں دوسرے طریقے سے کھاتے ہیں۔ اپنا کھانا اور دوسروں کا کھانا فرق رکھتا ہے۔ یہی فرق ہی تو سیاست کا نام پاتا ہے۔ موقع محل کے مطابق رویئے کی تبدیلی ہی کو سیاست کہتے ہیں جو کہ اکثر لوگ کھانوں کے مواقع پر کیا کرتے ہیں۔

ہم نے آپ کو یہ بات باور کرانے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ ہر شخص کے اندر ایک سیاست دان ہوتا ہے ۔ لیکن اگر آپ اس بات پر اتفاق کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم نے اگلے ٹاپک پر بھی آخر بات کرنی ہے۔ویسے ہمیں بات اتنے اچھے طریقے سے کرنی بھی نہیں آتی۔ ہم اچھے لسنر ہیں اچھے ٹاکر نہیں ہیں۔

ہم سوچ رہے ہیں یا ہم سیاست لڑانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگلے دونوں عنوان ہم اکٹھے زیرِ بحث لائیں۔ کیوں کہ شیطان اور فرشتہ کی بحث بار بار ایک دوسرے کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔ویسے بھی دونوں کی اکٹھے جلدی سمجھ آ سکتی ہے۔ کیوں کہ وہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔اور چیزیں اپنی ضد کے ساتھ زیادہ واضح ہو جاتی ہیں۔

ہر انسان کے اندر ایک شیطان اور ایک فرشتہ ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کو نیکی اور بدی یا نیکی اور بدی کے جذبات اور محرکات بھی کہا جا سکتا ہے۔شیطان انسان کو برائی کی طرف بلاتا ، بلکہ کھینچتا ہے اور فرشتہ اسے نیکی کی طرف بلاتا اور بدی ترک کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ایک سراپا برائی اور دوسرا سراپا اچھائی ہے۔دونوں کی سرشت ہی ایسی ہے۔ جبکہ انسان ان دونوں انتہاؤں کے درمیان میں ہے۔کبھی وہ ایک طرف جھکا ؤ رکھتا ہے اور کبھی دوسری طرف جھکا ہوتا ہے۔ انسان دراصل ان دو سپر نیچرل قوتوں کے قابو آیا ہوا ہے۔ اس کی کمزور نظر نہ تو انہیں دیکھ سکتی ہے اور نہ وہ خود سے ان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی شیطان اور فرشتے کی باہمی لڑائی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کو ڈھا لے اور پھر انسان مکمل طور پر ایک ہی کا تابعدار بن جائے۔ وہ دونوں آپس میں تو لڑتے نہیں لیکن انسان کے ذہن کو تقسیم ضرور کئے رکھتے ہیں۔ بے چارہ انسان کبھی ایک کی جاگیر بنتا ہے تو کبھی دوسرے کیلئے دلگیر ہوتا ہے۔اس کی صبح ایک کے ساتھ تو شام دوسرے کے ساتھ۔ یا کچھ دن ایک کے ساتھ اور کچھ دوسرے کے ساتھ۔ کبھی ایک کی صحبت سے فیض یاب تو کبھی دوسرے کے ہاتھوں خراب۔کبھی مئے کدہ تو کبھی حرم۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

انسان اس کشمکش سے مرتے دم تک پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔بلکہ مرتے دم کا لمحہ بھی سراپاآزمائش ہے۔
انسان اشر ف المخلوقات ہونے کے ساتھ ساتھ بہت دلچسپ بھی ہے کیوں کہ یہ ہر وقت میدانِ جنگ یا میدانِ کھیل بنا رہتا ہے۔ اس کے اندر ہر وقت رزمِ حق و باطل جاری رہتی ہے۔ قرآن کا خلاصہ سورہ فاتحہ ہے اور سورہ فاتحہ کا خلاصہ اھدناالصراط المستقیم ہے۔ انسان کو ہر وقت اس سیدھے راستے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ا س کو بھٹکانے والا ہر وقت اس کے نفس کی لگام برائی کی طرف کھینچنے کی تدبیر میں رہتا ہے۔ وہ ہے بھی عیاروں کا عیار۔ وہ انسان کے اندر بھی گھس جاتا ہے، بلکہ اس کے خون میں سرایت کر جاتا ہے۔اس کے ذہن کو دبوچ لیتا ہے۔بلکہ اس پر سوار ہو جاتا ہے پھر اسے جدھر چاہے گھماتا پھراتا ہے۔

اور پھر جب انسان برائی کے انجام کی طرف جاتا ہے تو اس کا دامن ندامت سے بھر جاتا ہے۔وہ پچھتاتا ہوا اپنے مالک سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو اس کے اندر کا فرشتہ اس پر اپنے اثرات ڈالتا ہے اور وہ نیکی کے رستے پر چلتا ہوا اپنے مالک کی قربت اختیار کرنے لگتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیں جیسے فٹ بال برائی کے گول سے نکل کر اچھائی کے گول کی طرف چلا جاتاہے۔انسان ،انسانی لحاظ سے پھر اس میدان میں اترتا ہے جہاں اسے شیطان کی کِکوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور وہ کک برائی کے گول کی طرف لے جاتی ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ برائی برائی ہے، برائی کر جاتا ہے۔برائی کے بعد پھر اچھائی کی کک لگتی ہے اور انسان اپنے مالک کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

نیک لوگوں کا فرشتہ زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور شیطان بہت کمزور ہوتا ہے، جبکہ برے لوگوں کا شیطان طاقتور اور فرشتہ کمزور ہوتا ہے۔انسان شیطان سے لڑ نہیں سکتا ، اس سے بچ سکتا ہے اور وہ بھی صرف خدا کی پناہ میں آکے، ورنہ انسان کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ اسی لئے شیطان سے لڑنے کی کہیں بات نہیں کی گئی لیکن اس سے بچنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔جو دشمن نظر ہی نہیں آتا اس سے لڑا کیسے جا سکتا ہے۔اور کوئی اپنے آپ سے کیسے لڑ سکتا ہے، کہ وہ دشمن تو ہمارے خون میں حلول کرجاتا ہے۔

ان چار کرداروں میں سے تین ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتے ہیں۔آخری دو کرداروں میں سے ایک وقت ایک ہی انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلے دو کردار انسانی گھر کے مستقل رکن رہتے ہیں۔تیسرا اور چوتھا ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لئے وہ اکٹھے اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔ لیکن ان میں سے جو بھی آتا ہے، وہ اس گھر کی رہنمائی کرتا ہے۔ شیطان آئے تو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے رستے تلاش کرنے کے لئے سیاستدان کو ہدایت کرتا ہے، سیاست دان اپنا کام مزدور کے ذریعے تکمیل میں لاتا ہے۔ اور یوں انسان برائی کے رستوں پر چلتا ہوا شیطان کی قربت میں چلا جاتا ہے۔ اور جب فرشتہ اس گھر میں پاور فل ہوتا ہے تو وہ اسی سیاستدان کو اپنی خواہش پوری کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ سیاست دان پھر اسی مزدور کے ذریعے اپنی سوچ کو عمل کی شکل دیتا ہے اور یوں انسان اپنے مالک کی قربت پاتا ہے۔

اخلاقیات اور مذاہب انسانی گھر سے تیسرا کردار یعنی شیطان نکالنا چاہتے ہیں اور چوتھے کردار کو اس گھر کا مستقل رکن بنانا چاہتے ہیں۔اچھے انسانوں میں تیسرا کردار غلبہ نہیں رکھتا، جبکہ برے انسانوں میں تیسرا کردار حاکم اور چوتھا مفلوج ہوتا ہے۔

دنیا میں سارے جھگڑے انہی آخری دو کرداروں کے ہوتے ہیں۔ گھریلو نا چاقیوں سے لے کر بین الاقوامی ریشہ دوانیوں تک انہی دو کے جھگڑے چل رہے ہوتے ہیں۔پہلے دو رکن تو بس آخری دو کے ماتحت ہوتے ہیں۔اگر تیسرا کردار کمزور اور چوتھا کردار طاقتور ہو جائے تو دنیا جنت اور انسان سکون میں آ جائے۔ اور اگر اس کے برعکس ہو جائے تودنیا جہنم اور انسان پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ۔

اس طرح انسانی زندگی ان چار کرداروں کی کہانی ہے۔ بظاہر ان کے بے شمار نام اور رنگ ہیں۔ لیکن جب ان سب کو اکٹھا کیا جاتا ہے تو بات انہی چار کرداروں پر آ کر رکتی ہے۔جیسا کہ ہم اپنی حقیر رائے کا اظہار آغاز ِ تحریر ہی میں کر چکے ہیں کہ یہ ہماری اپنی سوچ ہے، کسی کا اس کے ساتھ اتفاق یا نا اتفاقی سب ٹھیک ہے۔ ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس سے کسی کی دل آزاری مقصود نہ ہو۔ امید ہے کہ قارئین کو ہماری ادنیٰ کاوش پسند آئے گی اور وہ ہمیں اپنی پسندیدگی سے نوازیں گے۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313059 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More