ملّا عمر کب مرے ہیں؟

بیسویں صدی کے غروب کی آخری سانسوں اور اکیسویں صدی کے طلوع کی ابتدائی انگڑائیوں پر مشتمل پندرہ بیس برسوں کی تاریخ کو اگرآج اٹھا کر پڑھا جائے، تو اب اور جب کے مابین کوئی نسبت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ،اُس وقت جبرواستبداد اور اس سے برسرِپیکار قوتوں کا ایک اور طرح سے تذکرہ کیا جاتا اور جائزہ لیا جاتاتھا ،اور ارض ِافغان کے غیورسپوتوں کے تاریخی اور روایتی کردار کو دینی حلقوں اور آزادی کی تحریکات کے لئے تو بہر حال مشعلِ راہ کے طورپر پیش کیا جاتاتھا۔

مگر پھر رفتہ رفتہ‘ نائن الیون’ سے دنیا کا نقشہ بدلنے کا خواب دیکھنے والوں نے اپنے خواب کو حقیقت بنا نے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرہی لی ، انقلابات اور مزاحمتوں کے نام نہاد ہیروز چند لمحوں میں دھڑام سے زیرو پوائنٹ پر آگرے ، اور استعمار کے ایوانوں میں لرزہ پیداکرنےکے بلند بانگ دعوےدار بادِ مخالف کے دوچار ہلکے سے جھونکوں سے زمین بوس ہونے لگے ۔

آھن وآھنگ کے ذریعے زمین پر خدائی جمانے والوں کے ناقابل شکست ہونے کے ثبوت اوروجوہ گنوانے میں سب سے پیش پیش وہی نکلے جو کل تک ان کی شکست وریخت کی پیش گوئیاں کرتے نہ تھکتے تھے، جبکہ سامراجی ھیبت سے مبہوت یا مغرب کے جعلی خدوخال کی بلائیں لینے والے بزدل تو اول وآخر استعمار کے سامنے سجدہ ریز تھے اور اسی کو بچاؤکا واحد راستہ سمجھتے تھے ۔

افغان سرزمین کے غیور سپوت مگر کسی کرّوفر سے مرعوب ہونے والے نہ تھے، انہوں نے ان سخت ترین حالات کو ہمت و استقامت سے جھیلنے اوراپنوں پر ایوں کی کوئی ترغیب وترھیب ان کے پائے استقامت کو ڈگمگانہ سکی ،پختوں میزبان اور عرب مہمان نے نصرت وہجرت کی مصطفوی تاریخ دوہرانے کی ٹھانی تھی اور پندرہ سال کی تاریخ میں پندرہ صدیوں کی ایمانی اور جہادی ہسٹری کا مکھن تاریخ ِانسانی کی میز پر رکھ کر تاریخِِ عزیمت کی تجدید کیلئے جاں جان ِآفریں کے سپردکردی ، اسامہ کی طرح اب عمر بھی اس جہاںمیں نہیں رہے مگر سامراج اور اسکے ایجنٹوں کو یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیئے،کہ غاروں میں بسیرا کرنے والے جن شیروں کے نحیف وضعیف جسموں نے امتِ جہاد کو پندرہ برس تک علَمِ جہاد بلند کرنے کا حوصلہ دیا، وہ اب قبروں میں لیٹ کر بھی صدیوں تک خونِ مسلم میں ایمانی حرارت پیدا کرتے رہیں گے،سوچیئے ضرور،کہ سوچنے سے سمجھ کے بند دریچے کھلتے ہیں۔

مؤرخ کا کام ہوتا ہے احوالِ واقعی کو ضبط کرنا اور مبصر کا فرض ہوتا ہے ماضی کے حالات وواقعات کا ایسا تجزیہ جس سے مستقبل میں درست راہِ عمل کے تعین میں مدد ملے۔نقطۂ نظر کا اختلاف انسانی سوسائٹی کا حسن ہے مگر اس کو خوش اسلوبی کی بجائے بد سلوکی سے نمٹانا عالم انسانی کا المیہ ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ ان سطور کا کاتب اپنے جذبات وآرا میں صائب ہو ،مگر یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ملت اسلام کو پائے رعونت سے مسلنے کاخواب دیکھنےوالے بس خوابوں ہی کی دنیا میں رہ رہے ہیں اور حق وحقیقت سے وہ آج بھی اتنے ہی دور ہیں جتنے وہ جبر کا آغاز کرنے کے پہلے روز تھے۔ میری پاک دھرتی کے رکھوالے مجھے بہت عزیز ہیں اور میں ان کی آبرو کو کوئی بھی گزند پہنچنے کا قطعا متحمل نہیں ہوں ۔عالمی سیاست کی باگ ڈور جن کے ہاتھ میں ہے اور ملکی سیاست کے سیاہ وسفید کے جو مالک ہیں ان سب کی نیت شک وشبہے سے بالاتر قرار دی جاسکتی ہے مگر ان کی حکمتِ عملی میں کھلا تضاد اور صاف ناکامی عیاں ہے۔چشمِ بینا ہو تو کھلے بندوں اس کا مشاھدہ کیا جا سکتا ہے۔ سو عرض ہے کہ حقیقی طالبان آج بھی ایک حقیقت ہیں اور ان کے وجود وکردار کے بارے میں کوئی غلط اندازہ مستقبل میں مزید المیوں کو جنم لے سکتا ہے لہٰذا ان کی قدرت وحقیقت کا صحیح اندازہ لگا یا جائے اور ان کے جائز وجود کوجائز حد تک تسلیم کر لیا جائے اور ان کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر از سر نو مناسب تعلقات استوار کئے جائیں اور قلندر کے یہ الفاظ اپنے پلو میں باندھ رکھیئے کہ ملا عمر کی موت سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچنے کی ذرہ بھی امید نہیں ۔وہ آج بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے کیوں کہ ملا عمر اب ایک فرد نہیں بلکہ مزاحمت کی علامت کے طور پر ہر دل میں زندہ رہیں گے۔

طالوت جالوت کا، ابراہیم نمرودکا، موسیٰ فرعون کا،محمد قیصر وکسریٰ کا، فاروق روم وفارس کا،ایوبی صلیبیوں کا،شامل روسیوں کا ،عمر المختار ایٹالین کا،ٹیپو انگریزوں کا اور بن لادن وعمرِ ثالث امریکیوں کا کیا ہر فرعونِ زمان کا آج بھی پیچھا کررہے ہیں اور تا قیامت یہ سب اپنے اپنے کردار سے زندہ رہ کر اپنے ماننے والوں کواِس حوالے سے تازہ بتازہ ولولہ فراہم کرتے رہینگے۔

کوئی مانے یا نہ مانے ،ملّا عمر اسلامی وعالمی تاریخ کے عمرِ ثالث ہی ہیں،عِنادی مخالفین تو عمربن خطابؓ اور عمر بن عبد العزیزؒ کے بھی روزِ اول سے امروز تک کچھ نہ کچھ پائے جاتے ہیں،مگر جیسےاُن کی مخالفت اپنے ہی منہ پر تھوک ہے،اسی طرح تعصب کی عینک لگاکر بلاوجہ عمرِ ثالث کی مخالفتیں بھی اپنے ہی منہ پر تھوک ثابت ہوں گی،افغانستان، جہاد ومجاہدین،طالبان،القاعدہ،حکمرانی،مزاحمت،نیٹو،خلافت وامارت،پختون،مدارس،حتیٰ کہ امریکہ ویورپی یونین تک کی تاریخیں اب ملاّ عمر کے تذکرے کےبغیر ناقص اور ادھوری رہیں گی،وہ کچھ اس ادا سے اپنی حیاتِ مستعار گذار گئے ہیں کہ اب وہ کبھی بھی نہیں مریں گے، کیونکہ دنیا کی تاریخ میں ایسی شخصیت کہاں جو مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کےاپنے اور پرایےتمام فرعونانِ وقت کا مطلوب ہو،کروڑوں ڈالروں میں اُن کے سر کی قیمتیں لگی ہوں،تیز ترین،برق رفتار اور نہایت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اُن کی کھوج میں ہو،پھر بھی وہ ناکام اور یہ اپنی موت تک کامیابی سے اپنی راہ پر مستقل مزاجی کے ساتھ اورکسی کو خاطر میں لائے بغیرگامزن ہو،گویاپوری دنیا کے لاؤ و لشکر میدانِ کارزار میں جنہیں جھکا نہیں سکے اور وہ اپنے مقررہ طبعی موت کے عین مطابق داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے رخصت ہوئے،تو ما وشما جیسے قلمکار،رپورٹر وکالم نگاراور مؤرخ اُ نکی تعریفیں کرکے انہیں کیا دے سکتے ہیں،یاتنقید کرکے اُن کا کیا بال بیکا کرلینگے!کیا خوب کہا ہے:
ہر گز نمیرد ہرکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877893 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More