پنجاب میں بلدیاتی الیکشن آخر کب؟

گزشتہ سات سال سے بلدیاتی الیکشن التواء کا شکار ہیں ۔ جوکہ ایک بار پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے سیلاب کی تباہ کاریوں کو عذر بنا کر بلدیاتی الیکشن موخر کردیے گئے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد آئینی تقاضا ہے جو پیپلز پارٹی کی حکومت نے پورا کیا نہ آج کی ن لیگی حکومت پورا کر رہی ہے۔ 2013 ء کو دسویں عام انتخابات اور حکومت سازی کے مرحلے کے بعد جمہور پسند سیاست دانوں سے یہ امید بندھ چلی تھی کہ اب بلدیاتی الیکشن شیڈول کے تحت اور عوامی امنگوں کے مطابق جلد کرادیے جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کبھی قومی اسمبلی کے معزز اراکین کی انتخابات مختصر عرصے کے لیے روک دینے کی متفقہ قرار دادیں سامنے آتی رہیں اور کبھی الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی طباعت مقررہ وقت سے قبل مکمل نہ ہونے کے عذر کی باز گشت سنی گئی ، تو کبھی حلقہ بندیوں کا عذر سامنے آیا ۔ اس ساری صورتحال کا دلچسپ پہلو یہ رہا کہ کہ تمام تر حالات و واقعات میں امید وار یکسوئی کے ساتھ رابطہ مہم ، کمپین اور ریلیاں منعقد کرتے رہے ۔

سپریم کورٹ میں بار بار انتخابات کے انعقاد کی یقینی دہانی کرائی مگر عین موقع پر کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے الیکشن کو التواء میں ڈال دیا جاتا ہے اس سے یہ واضع ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے دور اقتدار میں بلدیاتی الیکشن نہیں کروانا چاہتی۔ حالانکہ انتخابات کروانے اور حلقہ بندیوں سمیت دیگر اختیارات الیکشن کمیشن کو تفویض کئے گئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن سندھ اور پنجاب میں حکومتوں کی حاشیہ برداری کرتا نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے 20 ستمبر کوپنجاب اورسندھ میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ سات سال سے سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ اگر سات سال بھی بلدیاتی الیکشن کے لئے کم ہیں تو تیاری کے لئے کیا 100 سال چاہئیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ہونے والے اس اعلامیے کے مطابق دونوں صوبوں میں سپریم کورٹ نے 20 ستمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے احکامات جاری کئے تھے اور اس سلسلے میں 28 جولائی کو الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا تھا تاہم دونوں صوبوں نے بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں موجودہ سیلاب کی صورتحال اور حج سیزن کے باعث انتخابات ستمبر میں کرانے سے معذوری ظاہر کی۔ الیکشن کمیشن یہ معاملہ سپریم کورٹ لے گیا ہے جہاں سے منظوری کی صورت میں انتخابی شیڈول مؤخر ہو جائے گا۔ دوسری صورت میں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق 20 ستمبر کو الیکشن کرانے کا پابند ہو گا۔

آئین کے آرٹیکل 140 الف کے مطابق ہر صوبہ قانون کے ذریعہ مقامی حکومتی نظام قائم کرے گا اور مقامی حکومت کے منتخب نمائندگان سیاسی ، انتظامی اور مالی امور کو منظم طریقے سے چلائیں گے، الیکشن کمیشن آف پاکستان مقامی حکومت کے انتخابات کرائے گا۔‘‘ بلاشبہ مقامی حکومتوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ شہر اور دیہی زندگی کو رواں دواں اور مسائل سے دور رکھنے کے لیے بلدیاتی ادارے آہم ترین کردار ادا کرتے ہیں ۔ دنیا بھر میں تعمیر و ترقی اور عوام کی خدمت پر مقامی حکومتوں کا نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ وطن عزیز میں بلدیاتی اداروں کے قیام پر مسلسل نئے نئے تجربات آزمائے جارہے ہیں ،کبھی بی ڈی ممبرز اور کبھی ناظم اور اب موجودہ حکومت کی جانب سے پرانا بلدیاتی سسٹم بحال کیا جارہا ہے۔

سال رواں کے اوائل سے ہی مختلف پارٹیوں کے کارکنوں نے بلدیاتی انتخابات کے لیے رابطہ مہم شروع کی ہوئی تھی ۔ رمضان شریف ، عید مبارک ، و دیگر مذہبی و قومی تہواروں اور خوشی و غمی کے موقعوں پر امیدواروں نے ووٹروں سے رابطہ مضبوط کیے رکھا ۔ طویل جدو جہد اور الیکشن مہم اور پھر بلدیاتی انتخابات کے التوا ء نے امیدواروں کو بند گلی کا مسافر بنادیا ہے۔ جبکہ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے نہ ہونے سے عوام سب سے ذیادہ متاثر ہورہے ہیں ،ہم علاقائی امور نبٹانے کے لیے کس در پر دستک دیں ، ہم آج بھی گلی محلوں کے کام کے لیے ایم این اے ، ایم پی اے کے محتاج ہیں۔ لوکل باڈی کے الیکشن کا خواب نہ جانے کب پورا ہوگاجبکہ موجودہ حکومت ورثے در ورثے میں ملنے والے مسائل اور وبحرانوں سے نبرد آزما ہے ۔ بلدیاتی انتخابات میں مسلسل تاخیر حکومتی عدم توجہی اور الیکشن کمیشن کی سستی کے باعث ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ صدائے وقت ہے کہ وزیر اعظم پاکستان ڈاکٹر میاں نواز شریف مداخلت کرتے ہوئے ایسے اقدامات کریں جس سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا فوری انعقاد ممکن ہوسکے ۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملے پر جس طرح ادارے اور حکومتی سفیران اپنی اپنی آراء دے کر قوم کو بند گلی میں دھکیلے ہوئے ہیں اس سے بلاشبہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی کارکردگی شدید متاثر ہورہی ہے ۔
Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 816982 views Journalist and Columnist.. View More