یعقوب میمن کی پھانسی پر جس قدر
لکھا اور کہا گیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے ۔ آئے دن نت نئے پہلو
سامنے آرہے ہیں اور ان سب کا احاطہ کرنے کیلئے ایک مضمون تو کجا ایک کتاب
بھی ناکافی ہے۔ سوگوار انصاف پسند عوام اور مسلمان سوال کرتے ہیں کہ سزائے
موت صرف ایک قوم کیلئے خاص ہو کر کیوں رہ گئی ہے؟ یہ سوال اہم ضرور ہے لیکن
اس کے جواب سے ساری دنیا واقف ہے ۔ باطل نظام حکومت میں سیاسی اہمیت کے
حامل عدالتی فیصلے آزادانہ طور پر نہیں کئے جاتے اس لئے ان میں سے
اکثروبیشتر مبنی بر انصاف نہیں ہوتے ۔ عدالتی آزادی اس حد تک ہوتی ہے کہ
جب تک وہ اہل اقتدار کیلئے نقصان دہ نہ ہو ۔ان حدود کے آگے اس کے پر کتر
دیئے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ حکومت کا عدالتوں سے اپنے لئے مفید و معاون
فیصلے کروانا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ یہ کسی ایک پارٹی کا خاصہ
نہیں بلکہ ساری جماعتیں اس جرم کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ طاغوت اسی طرح کے
فیصلوں سے اپنے چہرے پر پڑی خوشنما نقاب ازخود تارتارکرتا رہتا ہے۔
بابری مسجد کے تالے کھلوانے کا فیصلہ راجیو گاندھی کی سرکار نے اپنے مفاد
میں کروایا تھا تاکہ ہندو رائے دہندگان خوش ہو جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
راجیو گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس
کے خاطیوں کو اس لئے باآسانی رہا کردیا گیا کہ نرسمھاراؤ ہندو رائے
دہندگان کو ناراض کرکے اپنا نقصان نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ بھی اپنے
مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے اور انہیں بھی کرسی چھوڑنی پڑی۔ منموہن سنگھ کی
حکومت نے ہندو دہشت گردوں کو اس لئے شکنجہ میں لیا تاکہ بی جے پی مدافعت
میں آجائے اورکمزورحکومت کا کلنک ماتھے سے مٹ جائےلیکن وہ ہندو رائے
دہندگان کی ناراضگی کے خوف سے زعفرانی دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دینے
سےکتراتی رہی ۔ منموہن کی یہ حکمت عملی ان کے کام نہیں آئی۔ بدعنوانی اور
مہنگائی کے سبب ان کے خلاف اٹھنے والی اکثریتی طبقہ کی ناراضگی نے ان کو
اقتدار سے بے دخل کردیا۔
اس حقیقت کو افضل گرو کی مثال سے بھی سمجھاجاسکتا ہے ۔ایوانِ پارلیمان پر
بی جے پی کے دورِ حکومت میں حملہ ہوا۔ بی جے پی نے اس کے الزام میں افضل
گرو اور پروفیسرسید احمد رحمٰن گیلانی کو موردِ الزام ٹھہرایا لیکن ان
کیلئے کوئی سزا بحال کئے بغیر رخصت ہو گئی۔ کانگریس نے اقتدار میں آنے کے
بعد اس معاملے کو آگے بڑھایا اور ایک ملزم پروفیسرایس اے آرگیلانی
کوتورہا کروادیامگر افضل گرو کو تختۂ دار پر پہنچا دیا جبکہ دونوں ہی
یکساں طور پر بے قصور تھے۔ کانگریس کا خیال تھا کہ پروفیسر گیلانی کی رہائی
سے مسلمان اور سیکولر ہندو خوش ہو جائیں گے۔ اسی کےساتھ شدّت پسند ہندووں
کو یہ پیغام ملے گا کہ بی جے پی نہ ایوان پارلیمان پر حملہ روک سکی اور نہ
اس کے ملزم کو سزا دلا سکی جبکہ ہم نے یہ کردکھایا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
منموہن کے اس اقدام نے مسلمانوں کو ناراض توکیا مگرہندو شدت پسندوں کو خوش
نہ کرسکا اور وہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔
مودی سرکار فی الحال اسی حکمت ِ عملی پر عملدرآمد کررہی ہے۔ یہ لوگ داؤد
ابراہیم کو واپس لانے کےبلند بانگ دعووں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن
اب شاید انہیں احساس ہو گیا ہے کہ یہ خاصہ مشکل کام ہے ۔اس لئے انہوں نے
کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہونے والے دھماکوں کے ایک گرفتار شدہ ملزم
یعقوب میمن پر اپنی توجہات مرکوز کردیں اور اسے سزا بحال کرکے اپنے رائے
دہندگان کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کانگریس جس کو سزا نہیں دے سکی اس کو ہم
نے کیفرِ کردار تک پہنچا دیا اس لئے ہم ان سے بڑے دیش بھکت ہیں ۔زعفرانی
دہشت گردوں کے ساتھ نرمی اور یعقوب میمن کو سزا دے کر یہ سرکار اسی طبقے کی
خوشنودی چاہتی ہے۔ ویسے حکومت اپنے گھناونے مقصد میں کامیاب ہوجائی گی اس
کا امکان کم ہے اس لئے کہ اس حرکت نے شدت پسند وں کو مطمئن کرنے کے بجائے
ان کی بھوک میں اضافہ کردیا ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں اگر یعقوب کے بجائے ٹائیگر
کو پھانسی ہوتی تو ہمیں خوشی ہوتی یعنی ہم تو سمجھ رہے تھے کہ تم شیر کے
شکاری ہو لیکن تم نے بکری کی بلی چڑھا دی۔ ویسے انتخاب کے وقت عام لوگ ان
جذباتی ڈھکوسلوں سے بہل جائیں گے یابے روزگاری اور ویاپم جیسے مسائل کو
اہمیت دیں گے ؟ یہتو وقت ہی بتائے گا۔
یعقوب میمن کی زندہ گرفتاری سے جس طرح نرسمہا راو خاطر خواہ فائدہ نہیں
اٹھاسکے اسی طرح اوران کی پھانسی کی سز ا سے نریندر مودی کے حصے میں حسبِ
توقع کامیابی نہیں آئی ۔ ۱۹۹۳ میں یعقوب میمن کی گرفتاری کے بعد حکومتِ
ہند نے ان کے ذریعہ کئے گئے انکشافات اور ثبوتوں کی بنیاد پر پاکستان کو
دہشت گرد ملک قرار دینے کی زبردست مہم چلائی اور پاکستان کے حوالےسےامریکہ
کا نظریہ بدلنے بھی لگا تھا۔ اس کی نجی بدنام زمانہ فہرست میں پاکستان کا
نام شامل ہو گیا تھا مگر پھر افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی مجبوری ان
عزائم میں رکاوٹ بن گئی اس طرح ممبئی دھماکوں میں پیش کردہ تمام تر شواہد
کے باوجود پاکستان کا شمار دہشت گرد ممالک میں نہیں کرایا جاسکا جو
نرسمہاراو کی سفارتی ناکامی تھا۔
جبر واستبداد کے معاملے میں کانگریس زیادہ تجربہ کار ہے اس لئے اس نے
اندازہ لگا لیا کہ افضل گرو کی پھانسی کے اعلان اور اس کے جسدِ خاکی کو
سرینگر روانہ کئے جانے کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریسی
حکومت نے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے افضل گرو کے اہل خانہ کو بھی اس سے
آخری وقت میں ملنے نہیں دیا۔ افضل گرو کی تجہیز و تکفین راتوں رات دہلی کے
تہاڑ جیل میں کردی گئی اس لئے کہ اگر افضل کو سرینگر میں سپردِ خاک کیا
جاتا تو سارا کشمیر امڈ پڑتا۔ حالات قابو سے باہر ہوجاتے اور مرکزی حکومت
کی بدنامی میں بے شمار اضافہ ہوجاتا۔ اس کے برعکس بی جے پی کے تجربہ کار
سیاستداں اپنی اس رسوائی کا اندازہ نہیں کرپائے اور زبردست خسارے میں رہے۔
ہندوستان میں قانونی داؤں پیچ کے اندر سالہا سال گزر جاتے ہیں ۔ یہی وجہ
ہے کہ یعقوب میمن کی گرفتاری کے بعد سزا کے اعلان اور اس کے نفاذ میں ۲۲
سال کا وقفہ لگا۔ وزیراعظم راجیو گاندھی کے قاتل اسی کا فائدہ اٹھا کر اپنی
سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کروا چکے ہیں۔ عدالت میں وقت کا دورانیہ
سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن اس بار مرکزی اور ریاستی بی جے پی نے
غیر معمولی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلاوجہ ۳۰ جولائی کو مقدس بنا دیا
۔ جو مقدمہ ۲۲سال سے چل رہا تھا اگر اس کا فیصلہ مزید ۲۲ دن بعد نافذ ہوتا
تو اس سے حکومت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن سرکار نے اسے وقار کا مسئلہ بنا
لیا اور اپنی جگ ہنسائی کرالی۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ اس بارسزا دینے والے
لوگ سزا پانے والے سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں ۔
حکومت نے اپنی اس حماقت میں عدالت کو شریک کرکے اس کے عزت و وقار کو بھی
مجروح کردیا۔ رات تین بجے عدالت کا قائم ہونا اور صبح پانچ بجے اس کے فیصلے
کا صادر ہونا یہ عجیب و غریب ہیجان کی علامت ہے جس کی چنداں ضرورت نہیں
تھی۔ جن لوگوں کو اپنی رسوائی کا احساس یا پرواہ نہیں ہوتا وہی ایسی عجلت
پسندی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کے اندر فی الحال زیر سماعت مقدمات کی
تعداد کروڈوں میں ہے اور دوتہائی قیدی اپنے فیصلے کے منتظر ہیں لیکن ان
کیلئے کوئی جج راتوں کی نیند تو درکنار دوپہر کا قیلولہ بھی قربان نہیں
کرتا ایسے میں کسی ایک ملزم کیلئے نصف شب میں غیر معمولی سرعت کا مظاہرہ
بجا طور پر شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے ۔یعقوب میمن کی وطن واپسی کے بعد
سے اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ فیض احمد فیض کے ان اشعار کی مصداق ہے کہ ؎
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتھوں کے شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
یعقوب میمن کی ساری توقعات دھری کی دھری رہ گئیں اس کے باوجود وہ طویل
قیدوبند کے دوران مایوسی کا شکار نہیں ہوا ۔ اس نے اپنے تعلیمی سلسلے کو
جاری رکھا اور دومرتبہ ماسٹرس کی سند حاصل کی ۔ وہ اپنے ساتھیوں کی تعلیم و
تدریس کا کام بھی کرتا رہا اور کئی قیدیوں نے اس کی مدد سے میٹرک کا امتحان
پاس کیا ۔ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں اس نے ناگپور جیل میں تعلیم گاہ کا
ماحول بنا دیا تھا۔ یہ بھی لکھا گیا کہ اس کی سزا پر قیدیوں نے احتجاج کرتے
ہوئے بھوک ہڑتال کردی۔ یہ یعقوب میمن کی بہت بڑی اخلاقی فتح ہے۔ہمارے
سیاستداں بھی جیل میں جاتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے بارے میں اس طرح کی
باتیں سننے کو نہیں ملیں ۔ ہندو دہشت گرد جو جیل کی چکی پیس رہے ہیں ان سے
تو خیر اس کی توقع کرنا ہی حماقت ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس مقدمہ کو جو غیر
معمولی اہمیت دی گئی اس سےسزائے موت کے مخالفین کو بھی اپنی بات رکھنے کا
بھرپور موقع ملا اور یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی کہ کم از کم پڑھے لکھے
اور سوچنے سمجھنے والے طبقہ میں اس کے مخالفین کی تعداد حامیوں سے زیادہ ہے
۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے عدالتی نظام کے دوہرے معیار کو بھی تنقید کا
نشانہ بنایا۔
ذرائع ابلاغ میں اس خبر کے اچھالنے کا ایک مقصد مسلمانوں کو مایوسی و
پژمردگی کا شکار کرنا بھی رہا ہوگا لیکن اس کا الٹا اثر ہوا ۔ پہلے تو یہ
خبر آئی تھی کہ یعقوب میمن کی تدفین ناگپور جیل میں ہوگی اور اس کی ضروری
تیاری بھی کی جاچکی ہے لیکن جب حکومت کو اطمینان ہو گیا کہ ہم نے میڈیا کے
ذریعہ مسلمانوں کو احساسِ جرم کا شکار کردیا ہے اور اب اس کی تدفین میں
شریک ہونے کیلئے کوئی نہیں آئیگا تو اس نے یعقوب کی میت کو ممبئی پہنچانے
کا انتظام کردیا۔ اس خبر کے آتے ہی ممبئی کے مسلمانوں نے جس غیرتِ ایمانی
کا ثبوت دیا اس سے سرکار کے ہوش اڑ گئے ۔ ماہم میں یعقوب کی نماز جنازہ
پڑھی جانے والی تھی اس لئے ہزاروں کی تعداد میں سوگوار وہاں پہنچ گئے۔
حکومت نے یہ دیکھ کر اعلان کروایا کہ نماز جنازہ قبرستان میں ہوگی لیکن اس
کے باوجود ماہم میں جنازے کی نماز ادا کی گئی۔ بڑاقبرستان یعقوب کی رہائش
گاہ سے کافی دور ہےاس لئے جلوس کی شکل میں پیدل جانے کی اجازت نہیں دی گئی
۔ دفع ۱۴۴ نافذ کرکے لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی گئی اور صرف قریبی
رشتے داروں کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی لیکن جب یعقوب میمن کی میت
قبرستان پہنچی تو وہاں ایک جم غفیر منتظر تھا۔ حکومت نے اسے بھی جنازے میں
شامل ہونے دیا۔ پھر سے جنازے کی نماز ادا کی گئی اور ہزاروں کی موجودگی میں
یعقوب میمن کو سپردِ قبر کردیا گیا۔یعقوب میمن کے والد عبدالرزاق میمن کا
۲۰۰۱ میں انتقال ہوا۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو پولس کے حوالے کیا تھا اور
ضمانت پر رہا ہوئے تھے مگر ان کے تئیں اس والہانہ تعلق کا اظہار نہیں کیا
گیا اور نہایت سادگی کے ساتھ ان کی تدفین اسی قبرستان کے اندر عمل میں
آئی۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یعقوب میمن بھی رہائی کےبعد داعیٔ
اجل کو لبیک کہتے تو کیا اس قدر لوگ انکے جنازے میں شریک ہوتے ؟کیاحکومت کو
دفع ۱۴۴ نافذ کرنے کی ضرورت پیش آتی؟ کیا ذرائع ابلاغ میں جنازے کی نشریات
پر روک لگانے کی نوبت آتی ؟ آخر یعقوب میمن کی اس غیر معمولی مقبولیت کا
ذمہ دار کون ہے؟ رب کریم اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ ’’یہ چال تو وہ چلے
اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انہیں خبر نہ تھی‘‘(۲۷:۱۵۰)
یعقوب میمن کے جنازے میں امت کی یہ والہانہ شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ
نہ مایوس ہوئی ہے اور نہ پژمردہ؟ ذرائع ابلاغ کے زور وشور، عدالت کے فیصلوں
اور حکومت کی پابندیوں کے باوجود وہ جانتی ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اس مت کو
آسانی سے بہکایا نہیں جاسکتا۔ اس کو خوفزدہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔
اس کے دل میں اللہ کی خشیت ہے اس لئے یہ دنیا سے نہیں ڈرتی ۔ یہ روز جزا
میں یقین رکھتی ہے ۔ یہ رب العالمین کے عدل و انصاف سے پرامید ہے اس لئے
دنیاوی ناانصافی اسےحزن و ملال کا شکار نہیں کرتی ۔ اس قدر ہیجان انگیز
ماحول میں امت مسلمہ نے جس وقار اور حوصلہ کے ساتھ حلم و بردباری کا مظاہرہ
کیا ہے یہ اسی کا حصہ ہے ۔ ۳۰ جولائی کو بارگاہِ خداوندی میں اٹھنے والے یہ
ہاتھ خالی لوٹ نہیں سکتے۔ ان دلوں سے اٹھنے والی دعائے مغفرت یقیناً
مستعجاب ہوگی ۔ ان شا اللہ ۔ |