مجاہد اول ایک عظیم قائد
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
تحریر : مہرالنساء ( سیکرٹری
جنرل مسلم کانفرنس)
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔۔۔توں شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی
چٹانوں میں
9 سالہ سیاسی طالب علم کی حیثیت سے مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان کو
سمجھنا پڑھنا اور ان سے کچھ سیکھنا میرا سرمایا حیات ہے۔
اﷲ تعالی نے نظام کائنات چلانے کے لیے ہر دور میں اپنے نبی بھیجے ۔ رحمت
اللعلمین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو آخری نبی یعنی خاتم
المرسلین بنا کر دین اسلام اور نظام کائنات کو مکمل کر دیا ۔ نظام دین و
نظام دنیا کو چلانے کے لئے اپنے کچھ بندوں کو چن لیا۔ خدمت خلق کو افضل
عبادت قرار دیا ۔ سچے اور سُچے عاشقان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ نے اعلی
مقام عطا کئے اور اپنی مخلوق کے دلوں میں انکے لئے احترام اور محبت ڈال دی۔
بقول اقبال:۔
کی محمد ؐسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم
تیرے ہیں
بظاہر سردار محمد عبدالقیوم خان ۔ مجاہد اول، وزیر اعظم، صدر ریاست ،مسلم
کانفرنس کے سپریم ہیڈ جیسے جلیل القدر عہدوں پر فائز رہے۔ حقیقت میں وہ سچے
عاشق رسول بھی تھے ، شرعیت ، طریقت ، روحانیت، تصوف ، صبر ، استقامت ، خدمت
خلق ہمیشہ سے ان کا جز ایمانی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں
ہی نہیں بلکہ پاکستان و اسلامی دنیا میں بھی ان کا اعلی مقام تھا۔ اکثر
پاکستانی شخصیات و حکمران انھیں مرشد کہا کرتے تھے۔ بانی جماعت اسلامی حضرت
مولانا ابواعلی مودودیؒ ، حضرت علامہ شاہ احمد نورانی، مولانا مفتی محمود،
شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید محترمہ بینظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف،
جنرل محمد ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف، علامہ ساجد نقوی، جناب مجید نظامی
مرحوم، جناب حمید نظامی مرحوم، نوابزادہ نصراﷲ خان، پروفیسر حافظ محمد سعید
و دیگر اعلی شخصیات انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور ہمیشہ اپنانیت کا
رشتہ قائم و دائم رہا۔ ان کی زندگی کے آخری ایام میں میاں محمد نواز شریف
کا ان سے دور رہنا ان کے لئے تکلیف دہ تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد
علی جناح ؒ نے متعدد مرتبہ خاص کر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سرینگر
کنونشن میں خطاب فرمایا۔
کنونشن میں فرمایا کہ مسلم کانفرنس ہی ریاست جموں و کشمیر میں مسلم لیگ ہے
اور پاکستان مسلم لیگ ہی مسلم کانفرنس ہے۔
حضرت قائد اعظمؒ کے اس فرمان کی مجاہد اول نے ہمیشہ لاج رکھی اور زندگی کے
آخری لمحات تک ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ ان کا جز ایمان رہا ۔ مشرقی
پاکستان کے الگ ہونے کے موقع پر مجاہد اول نے ’’کشمیر بنے گاپاکستان‘‘کا
لازوال نعرے کی صدا بلند کر کے پاکستانی قوم کے دل جیت لئے۔ یہ نعرہ ان کی
اور انکی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا بنیادی نکتہ بن گیا ۔ یہی
نکتہ پاکستانی قوم کی کشمیریوں کے ساتھ لازوال محبت ، ایثار اور اپنانیت کا
سبب بنا۔ مجاہد اول دل و جان سے الحاق پاکستان کو ہی مسئلہ کشمیر حتمی حل
سمجھتے تھے۔
مجاہد اول نے 23 سال کی عمر میں آزادی کشمیر بہ زور شمشیر لینے کا فیصلہ
اپنے صاحب بصیرت ساتھیوں کیساتھ 23 اگست 1947 ء کو نیلہ بٹ کی بلند و بالا
چوٹی پر کیا اورباقاعدہ مسلح جہاد کا اعلان کیا جسکے نتیجے میں مہاراجہ کی
فوج اور پھر بھارتی فوج کو بھی موجودہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں
شکست ہوئی۔ اگر ہندوستان اقوام متحدہ میں نہ جاتا اور جہاد جاری رہتا یہ
کہنا غلط نہ ہو گا کہ پوری ریاست آزاد ہو جاتی۔
بدقسمتی سے شیخ محمد عبداﷲ مرحوم بھارتی جال میں پھنس گئے۔ نتیجے میں چھ
لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ دو تہائی کشمیر
پر ابھی بھی بھارتی تسلط موجود ہے اور مقبوضہ ریاست میں تحریک آزادی رواں
دواں ہے۔
مجا ہد اول نے اپنی پوری زندگی میں تحریک آزادی کشمیر کو ایک لمحہ بھی
فراموش نہیں کیا ۔ جہاں حکومت پاکستان اور جملہ پاکستانی قیادت سے رشتے
استوار رکھے وہاں عالمی سطح پر OIC ، اقوام متحدہ اور دنیاکے تمام پاور
سنٹر کے دورے کئے اور مسئلہ کشمیر کو صحیح تناظر میں پیش کیا۔ دشمن بھی
انھیں سن کر مرعوب ہو جاتے تھے ۔مقبوضہ کشمیر کی تمام سیاسی و عسکری
تنظیموں کے ساتھ ان کے گہرے رابطے تھے ۔ سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر
ہر تنظیم اور شخص کے ساتھ انکی محبت اور شفقت عملی نظر آتی تھی۔ میر واعظ
خاندان کے ساتھ ذاتی مراثم تھے ۔ شہید حریت خواجہ عبدالغنی لون کے ساتھ
ذاتی تعلق تھا اور ان سے متاثر بھی تھے۔جناب سید علی گیلانی اور امان اﷲ
خان کے ساتھ دلی ہمدردی تھی۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آنیو الے ہر شخص سے
پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مجاہد اول مجھ سے
ہی سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں 67 سالوں پر محیط سیاست پر مجاہد اول ہمیشہ سورج کی مانند
چمکتے رہے۔ صبر اور رواداری ان کی سیاست کا محور رہا۔ آزاد کشمیر کی تعمیر
و ترقی و گڈ گورننس ( Good Governance)،نئے اداروں کا قیام ، سیاسی کارکنوں
کی تعلیم و تربیت ان کے عظیم کارنامے ہیں۔
آزادی کشمیر کے ہر سیاسی کارکن یا لیڈروں نے ان سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا۔
ان کی وفات پر چشم فلک نے دیکھا کہ کس شان سے وہ اپنے حقیقی مالک سے جا ملے
۔ پاکستانی قوم اور میڈیا نے انھیں عظیم لیڈر قرار دیکر خراج عقیدت پیش
کیا۔ پاک فوج نے بھی کارڈ آف آنر پیش کر کے حق ادا کیا لیکن افسوس کہ حکومت
پاکستان خاموش رہی نہ کوئی سوگ کا اعلان اور نہ ہی کسی قابل قدر شخصیت نے
جنازہ میں شرکت کی۔ مجاہد اول اب ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے افکار، ان
کا نظریہ ، ان کی تنظیم ہمار ا سرمایا حیات ہے ۔ ان کا نام تواریخ میں
ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جاتا رہے گا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔۔۔۔بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں
دیدہ ور پیدا |
|