بنے گا نیا پاکستان
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
جن دن عمران خان اسلام آباد میں
دھرنا دھرنا کھیل رہے تھے اپنے لالہ عطاء اﷲ عیسیٰ خیلوی کا گایا ایک ترانہ
نما گانا نوزائیدہ کروڑ پتی ڈی جے بٹ بڑے جوش وخروش سے بجایا کرتا
جب آئے گا عمران،سب کی جان،بڑھے گی اس قوم کی شان
بنے گا نیا پاکستان
عمران کے آنے میں تو خیر ابھی نجانے کتنے زمانے درکار ہیں کہ فی الحال تو
دھرنے کی شورا شوری سے جو جوڈیشل کمیشن برآمد ہوا تھا اس سے تو مسلم لیگ
نون اور اس کے سربراہ نواز شریف ہی کی شان بڑھی ہے کہ وہ الیکشن جس کو ساری
دنیا دو نمبر الیکشن مانتی ہے تحریک انصاف کے بزرجمہروں کی مہربانی سے شفاف
قرار پا گیا ہے۔مسلم لیگ سمیت ہر پارٹی نے یہ تسلیم کیا تھا کہ دو ہزار
تیرہ کے الیکشن میں دھاندلی کے ریکارڈ ٹوٹے ہیں ۔جوڈیشل کمیشن جس کی
سربراہی خود سپریم کورٹ کے عزت ماٰب چیف جسٹس ناصرالملک کر رہے تھے نے اس
الیکشن کو لگی لپٹی رکھے بغیرانتہائی شفاف منصفانہ قرار دے دیا ہے۔کمیشن کے
لئے ٹرمز آف ریفرنس لیکن چیف جسٹس نے نہیں بلکہ مسلم لیگ نون اور تحریک
انصاف کی مذاکراتی ٹیم نے بنائی تھیں۔مک مکا شاید اسی وقت طے ہو گیا تھا کہ
جو ہوا سو ہوا اس پہ مٹی ڈالیں گے اور آگے چلیں گے۔ہم اپنا راگ آلاپتے رہیں
گے آپ اپنی ڈفلی بجاتے رہنا۔اب سوشل میڈیا پہ سر پھرے کمیشن کے ارکان کے
لتے لے رہے ہیں ۔سوچا جائے تو لتے تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے لئے جانے
چاہئیں جنہوں نے ان ٹرمز پہ کمیشن بنانے پہ رضامندی ظاہر کی جن پہ دھاندلی
کسی صورت ثابت نہیں کی جا سکتی تھی۔جنہوں نے حفیظ پیرزادہ کو خدا جانے کہاں
سے برآمد کیا کہ اس طرح کے کیسزوہ لڑتے ہی نہیں۔کمیشن کے ارکان کا اگر کوئی
قصور ہے تو صرف اتنا کہ انہوں نے جانتے بوجھتے کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ
کالے کئے حالانکہ ان کے پاس ا ٓئینی طور پہ اس طرح کی دو نمبری میں شامل نہ
ہونے کا اختیار تھا۔
بڑھ گئی بات حالانکہ یہ سب کہانیاں تو اب بچے بچے کی زبان پہ ہیں ۔مجھے تو
بات کرنی تھی کہ اس تخریب پہ جو آجکل ہر سو بپا ہے۔ظاہر ہے کسی کا جما
جمایا کاروبار اکھاڑ پھینکنا ایک طرح سے تخریب ہی کہلائے گا۔وہ طالبان جو
لوگوں سے چندہ مانگ مانگ کے،لوگوں کو اپنا مہمان بنا بنا کے معصوم بچوں کو
خود کش جیکٹیں پہنا کے غریب والدین کو غربت سے نجات دلا رہے تھے انہیں پکڑ
پکڑ کے بیج سمیت ختم کیا جا رہا ہے۔وہ جو کراچی کے بڑے بڑے پلاٹوں اور
پارکوں سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے چائنا کٹنک کے نام سے غریبوں میں بانٹ رہے تھے
انہیں بھی رینجرز والے اس نیک کام سے روک رہے ہیں۔کچھ لوگوں نے سرکار کی
فالتو اور فضول پڑی زمین پہ شادی ہال بنا کے لوگوں کے گھر بسانے شروع کئے
تھے ۔ان شادی ہالوں کو گرا کے ان کنواروں کے ارمانوں پہ اوس گرائی جا رہی
ہے۔سب سے بڑا ظلم ان محب وطن اور قوم کا درد رکھنے والوں ان لوگوں پہ کیا
جا رہا ہے جو دن رات قوم کے غم میں دبلے ہو ہو کے کراچی کو آبادی کے ٹک ٹک
کرتے بم سے نجات دلانے کے لئے دن رات ٹارگٹ کلنگ میں مصروف تھے۔اور تو اور
ان تخریب کاروں نے مذہب کو بھی نہیں بخشااور جو متقی اور پرہیزگار لوگ سر
پہ پگڑیاں باندھے کافروں اور مشرکوں کو ختم کر رہے تھے انہیں بھی ان دنوں
سخت حالات کا سامنا ہے۔
یہ ایسے ظالم لوگ ہیں کہ انہوں نے عوام کے ووٹوں سے بر سر اقتدار آئی
انتہائی صاف اور شفاف حکومت کے برسوں سے چلتے کاروباروں پہ بھی نظر رکھ لی
ہے۔کبھی یہ لوگ بلڈنگز میں گھس جاتے ہیں تو کبھی معصوم مچھلیوں کی چھان
پھٹک شروع کر دیتے ہیں۔انتہائی محنت اور مشقت سے کمائی دولت جو حفاظت سے
زیر زمین تہہ خانوں میں رکھی ہے تا کہ مناسب ٹائم پہ اس کسی معصوم سی بچی
کے ہاتھ یا کسی لانچ میں رکھ کے مناسب جگہ پہنچا دیا جائے۔یہ نہ تو ان عفت
ماٰب خواتین کی عزت کا کچھ پاس کر رہے ہیں نہ ان لانچوں کوبخش رہے ہیں۔کیا
کیا ظلم ہے جو یہ لوگ ہمارے مقدس و محترم حکمران طبقے پہ نہیں کر رہے۔یہ
بھی قابل برداشت تھا لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ کسی ایک کو بھی تو معاف نہیں
کر رہے۔
عجیب وحشی ہیں جب ہمارے حکمران کبھی کچھ دن کاروبارِ مملکت سے جان چھڑا کے
کبھی کسی صحرا میں پناہ گزین ہوتے ہیں یا بے دینوں کے دیس سدھارتے ہیں یا
اﷲ کے گھر میں پناہ لئے ہوتے ہیں تو یہ ان دنوں میں جنگ ترک نہیں کرتے۔کبھی
ایک محاذ پہ تو کبھی دوسرے مورچے پہ۔آخر انہیں چین کیوں نہیں آتا۔ہزاروں کی
تعداد میں بازاروں میں مسجدوں میں خانقاہوں میں مرتے لوگوں کی چیخیں بھلے
قابل توجہ ہوں لیکن اتنی بھی نہیں کہ نصف صدی کے جمے جمائے کاروبار کو جڑ
سے اکھاڑنے پہ ہ تل جایا جائے۔
مجھے تو یہ وہ مزدور دکھتے ہیں جو کسی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے اپنے
آوازر اٹھا کے پرانی اور بوسیدہ عمارت کو گرانے آتے ہیں۔کچرا اور گند صاف
کرتے ہیں اور پھر اسی ملبے کے اندر سے ایک نئی شاندار اور پر شکوہ عمارت
نمودار ہوتی ہے۔اگر آپ کو بھی ایسا لگتا ہے تو پھر خاطر جمع رکھیئے جلد ہی
ہم ایک نیا پاکستان طلوع ہوتا دیکھیں گے جس میں کوئی مذہب ،مسلک ،طبقے ،
زبان ،رنگ ،نسل کی بنیاد پہ کسی معصوم کا حق غصب نہیں کر سکے گا۔برابری ہو
گی اور مساوات اور راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
حیف صد حیف! ان قائدین پہ جنہیں ہم نے سر کا تاج بنایا اور جو نہ تو کبھی
زلزلے میں ہمارے کام آئے نہ کسی سیلاب میں۔جو ہر وقت مشکل وقت میں ہمیں
چھوڑ کے بھاگ گئے ۔اقتدار کی چھینا چھپٹی میں مرتے رہے اور شہادت کا تاج
پہنتے رہے۔آج پتہ چلا کہ شہید کے خون میں بھی وفا ہوتی ہے۔جنت میں اگر ان
کے خون سے اجالا ہو سکتا ہے تو پاکستان بھی ان شاء اﷲ ایک دن افواج، رینجرز
،پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہادر سپوتوں کے خون سے
ضرور جگمگائے گا۔ |
|