جدید ٹیکنالوجی ،ثواب یا عذاب

دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتی جدید ترین ٹیکنالوجی نے لوگوں کے لئے حتی المکان آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ اب خواتین کو اپنی شاپنگ کرنی ہو, کراکری خریدنی ہو,گاڑیاں, اے سی اور دیگر الیکٹرونک اور روز مرہ کی تقریباً ہر شے صرف ایک کلک کی دوری پر میسر ہے یہاں تک کے بجلی گیس کے بل ادا کرنے ہو یا رقم کی ارسال و ترسیل سب کچھ گھر بیٹھے ممکن ہے۔جہاں تیز ترین نظام ٹیکنالوجی نے ہمیں آسانیاں فراہم کی ہیں وہیں پرانے آلات و ٹیکنالوجی دن بدن غیر مؤثر ترین ثابت ہوتے جارہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں قومی اعداد و شمار کے ادارے آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس کا کہنا ہے کہ گاڑیوں میں استعمال ہونے والے سیٹ ٹیوو کا استمال تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ماضی کے اس انتہائی اہم اور مقبول سیٹ کی خریداری اب اتنی کم ہوگئی ہے کہ افراط زر کا جائزہ لینے والا ادارہ اب اسے اپنے جائزوں میں بھی شامل نہیں کرتا۔ سیٹ ٹیوو کے زوال کی سب سے بڑی وجہ سمارٹ فون کا مقبول ہونا ہے۔ اس وقت تقریبلً ہر کمپنی کے سمارٹ فون میں سیٹلائٹ نیو بگیشن کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اور پیجرر کو کون بھول سکتا ہے ایک زمانہ تھا جب پیجر کو لوگ اپنی حیثیت کا پتہ دینے کیلئے بیلٹس پر چسپاں کرتے تھے۔ اور ڈاکٹرز کی اکثریت اسکا استعمال کرتی تھی۔ پھر اچانک اسکا استعمال متروک ہوگیا اور 2001 میں موٹر ولا نے پیجر بنانا ہی بند کردیا۔اسی طرح 2001میں جب پہلی مرتبہ سالڈ اسٹیٹ ڈرائیو مارکیٹ میں لائی گئی تھی اگرچہ اسوقت بھی سالڈ اسٹیٹ ڈرائیو کے آلات بہت پہلے ہی میسر تھے مگر ان کا زیادہ تر استعمال کارڈز یا یو ایس بی ڈرائیوز تھیں۔ لیکن سالڈ اسٹیٹ ڈسک نے یہ ثابت کردیا کہ ہارڈ ڈسک کی کمو بیش بیس سالہ حکمرانی ختم ہونے کو ہے۔ سالڈ اسٹیٹ ڈرائیوز کی صلاحیت سال ہا سال بڑھتی گئی اور ہارڈ ڈسک زوال پذیر ہوتی گئی۔یہی نہیں جدید ترین ٹیکنالوجی نے میڈیکل سائنس کی دنیا میں بھی تہلکہ مچا دیا ہے۔ پہلے معمولی آپریشن کے لئے بھی چیر پھاڑ کی جاتی تھی تھی اور مریض موت سے زیادہ آپریشن سے ڈرتے تھے۔ لیکن جدید ترین آلات کے ذریعے آنکھ ,دل اور دماغ جیسے پیچدہ اور مشکل ترین آپریشن لیزر کے کے ذریعے ممکن بنا لئے گئے ہیں۔پچھلے دنوں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے امریکہ اور فرانس کی جامعہ مونٹپلر کے سائنس دانوں نے ایک ایسی مشین تیار کی جو خون کا تجزیہ بذریعہ اسمارٹ فون کرسکتی ہے۔ اس ایجاد کا نام سیل اسکواپ لوا رکھا گیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ایسے آلات عام ہوتے جارہے ہیں جو مریض ہر وقت اپنے ساتھ رکھ کر صحت سے آگاہ ہوسکتے ھیں۔جید ٹیکنالوجی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی وہ ٹیکنالوحی ہے جس کی وجہ سے لوگوں تک جلد انصاف کی رسائی ممکن بنائی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور احمد نیپنجاب جوڈیشنل اکیڈمی میں منعقدہ تقریب میں پنجاب بھر کی ضاعی بار ایسوسی ایشن کے اداروں کو اس ضمن میں کمپیوٹر اور لاء سائٹس کے پاسورڈز فراہم کئے۔ ورنہ اس سے پہلے وکلاء کتابوں سے ہی استفادہ حاصل کرتے تھے۔ جہاں ہر طرح کی جدید ترین ٹیکنالوجی ترقی کی راہ پر گامزن ہے وہیں بائیو ٹیکنالوجی کی جدید ترین آلات زراعت اور زراعت کی دیگر ترقی کردہ مواد لوگوں کو حیران کرنے کیلئے کافی ہے۔ مہینوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا منٹوں میں ہونا ممکن بنا لیا گیا ہے۔ زرعی ٹیکنالوجی کی ترقی سے جہاں معاشی طور پر کسان مضبوط ہورہے ہیں وہیں انکے لئے ہزار ہا آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ٹیکنالوجی کی ایک اور اہم قسم الیکٹرونک میڈیا ٹیکنالوجی جس کے بغیر اب ہمارا چلنا ناممکن ہے۔ ایک زمانہ تھا جب رسل و ترسیل کا نظام کبوتروں کے ذریعے قائم تھا۔ پھر جوں جوں ترقی ہوتی گئی نظام بدلتا گیااور ایک وقت آیا جب انسان کا شعور اسے ریڈیائی لہروں تک لے گیا اور یہ سلسلہ ریڈیو تک جاپہنچا۔ جو الیکٹرانک میڈیا کی سب سے پہلی ایجاد تھی۔ الیکٹرونک میڈیا کی ترقی جہاں ہم سب کے لئے فائدہ مند ہے وہاں اسکا حد سے زیادہ بے باک ہونا ہمارے مسائل کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اب بات کرتے ہیں سب سے اہم اور عام ٹیکنالوجی کی جس کے فوائد بے شمار ہیں تو نقصان بھی شمار نہیں کئے جاسکتے۔ جی بالکل یہاں ذکر ہورہا ہے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ مصروف ٹیکنالوجی ہے۔ اسکی بدولت ہم اپنے پیاروں اور چاہنے والوں سے ہر وقت رابطے میں رہ سکتے ھیں۔ کچھ سال پہلے تک موبائل فون اتنے عام نہ تھے گھر کے کسی ایک فرد کے پاس موبائل فون ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ موبائل ہر فرد کی ضرورت بنتا چلا گیا۔ بعد میں انٹرنیٹ موبائل متعارف کروادئیے گئے اور عوام کا ایک جم غفیر فیس بک , ٹوئٹر , واٹس ایپ اور دیگر سوشل سائٹس پر ٹوٹ پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں انٹرنیٹ 30 ملین پاکستانیوں کو دستیاب ہے جس میں سے دس ملین فیس بک اور دو ملین ٹویٹر استعمال کرتے ھیں۔موبائل پر سوشل نیٹورک کے استعمال لوگوں کا رابطہ وسیع تو ہوتا چلا جارہا ہے۔ چھوٹی سی افواہ ہو یا خبر منٹوں میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچائی جارہی ہے۔پچھلے دنوں مصر میں ایسے ہی ایک بے بس نوجوان کی آواز سوشل میڈیا پر طوفان بن کر اٹھی اور پھر پوری قوم اس نوجوان کے ساتھ یک جت ہوگئی اور انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا۔جہاں فیس بک , وائبر,ٹوئٹر جیسی ایپ لوگوں میں حلقہ احباب وسیع کرنے کا ذریعہ ہے وہیں اسکائپ, ایمو,میسینجر اور اس جیسی دوسری ویڈیو کال ایپس لوگوں کو اپنے پیاروں سے باندھے رکھتی ہیں اور دوری کا احساس کم کرتی ہیں۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار کسی صورت ممکن نہیں لیکن جہاں اسکے بے شمار فوائد ہیں وہیں کچھ نقصانات ایسے ہیں جو ہماری آئندہ آنے والی نسل کو بری طرح متاثر کررہے ھیں۔خاص طور پر ہمارے نوجوان اور طلبہ جو اپنا زیادہ تر وقت موبائل فون,کمپیوٹر اور ویڈیو گیم میں گذار دیتے ہیں۔اسطرح کی مصروفیت سے انکا لوگوں سے ملناجلنا کم ہوجاتا ہے اور وہ کم عمری میں ہی تنہائی پسند ہوتے چلے جاتے ہیں.اسکے علاوہ انکی کھیلوں میں دلچسپی نہیں رہتی جو صحت سے دوری کا سبب ہے۔ اس مصروفیت کی وجہ سے تعلیم سے دوری پیدا ہونا ایک اور بنیادی اور اہم نقصان ہے۔ہم ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے فوائد کے ہر لحاظ سے قائل ہیں مگر اسکے بارے میں خطرات اور آگہی بہت کم ہے۔ اس ضمن میں اگر میڈیا آگہی مہم کے ذریعے لوگوں کو شعور دے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس صورتحال پر قابو نہ پایا جاسکے۔ایک ریسرچ کے مطابق ویڈیو گیم کھیلنے والے سات سے نو سال کے بچوں میں نصف تعداد ایسے گیم کھیلتی ہے جو بالغوں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورک کے استعمال سے جہاں لوگوں کے لئے رابطہ آسان ہوا ہے وہیں ان سائٹس پر ہیکنگ کا بازار بھی خاصا گرم ہے۔ جس کی مدد سے لوگوں کا پرسنل ڈیٹا چوری کرکے انکو بلیک میل کرنا عام سی بات بنتی جارہی ہے۔ بلکہ پچھلے دنوں ایک خبر کافی دنوں تک اخباروں کی زینت بنتی رہی جب ایک 9سالہ بچے کو فیس بک کے ذریعے اغواء کرلیا گیا۔ ان مسائل کے سدباب کے لئے عوام کو ایک بھرپور شعوری مہم کی اشد ضرورت ہے۔ ٹینالوجی کے ہزار ہا فوائد ہوں یا کچھ نقصان ایک بات تو پکی ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں ہم ٹیکنالوجی کے ایسی اور جدید ایجادات دیکھیں گے جسکی وجہ سے بہت سی پرانی ایجادات قصہ پارینہ بن جائیں گی۔
Saba Eishal
About the Author: Saba Eishal Read More Articles by Saba Eishal: 51 Articles with 47283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.