ہم سبق حاصل نہیں کرتے

ایک گاؤں میں سیلاب آیا ،جہاں جہاں سیلاب کی خبریں پہنچتی وہاں لوگ گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرتے اور محفوظ مقام پر جاتے ۔ اس گاؤں میں ایک ایسا شخص بھی موجود تھا جو سیلاب کے اطلاع ملنے کے باوجود وہاں پر بیٹھ رہا کہ اﷲ مالک ہے ۔ اﷲ جان بچائے گا۔لوگوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ کسان گھر نہیں چھوڑ رہا تھا۔ کچھ گھنٹوں بعد پانی ان کے گھر میں داخل ہوا لیکن وہ پھر بھی گھر سے نکلنے کے لیے تیارنہیں تھا۔ سیلابی پانی میں اضافہ ہوتا گیا،ریسکیو ٹیم کی کشتی ان کے پاس آئی اور کہا کہ آجاؤ لیکن وہ یہی اپنا فلسفہ بیان کرتا رہتا کہ نہیں اﷲ میاں حفاظت کر یں گا ،اﷲ مالک ہے۔ ریسکیو ٹیم نے ان کو کہا کہ پانی کابہاؤ زیادہ ہو رہا ہے ۔ابھی پانی آپ کے ناف تک ہے ۔اب مز ید پانی آنے ولا ہے اور آپ ڈوب جائیں گے لیکن وہ بضد تھا اور کشتی میں سوار نہیں ہورہا تھا ۔ریسکیو ٹیم آگے بڑھی اور دوسرے لوگوں کو بیٹھا کر کشتی چلی گئی ۔ وہ آدمی وہاں رہا گیا دوسر ا دن شروع ہوا ۔ پانی کے بہاؤ میں بھی کا فی اضافہ ہوا۔ پانی اس شخص کے سینے تک آگیا ۔ اس دوران پا ک فوج کی جانب سے ریسکیو ہیلی کاپٹر آگیا ۔ چکر لگاتے ہوئے اس شخص کو دیکھا ۔ ہیلی کا پٹر نیچے آیا اس شخص کو رسیوں کی سیڑھی پھینکی اور کہا کہ سیڑھی پر چڑھو لیکن وہ مسلسل انکار کر رہا تھا اور اپنی ضد پر قائم تھا کہ اﷲ میاں بچائے گا۔ فو جی ہیلی کاپٹر نے دوسرا چکر لگایا لیکن وہ نہیں مانا۔ آخر میں ہیلی کا پٹر بھی چل گیا اور وہ شخص آکیلے رہ گیا۔ پا نی کا بہاؤ مز ید تیز ہوا اور وہ شخص پا نی میں ڈوب گیا۔

اب یہ شخص اﷲ میاں کے پاس جا کر کیا کہہ گا کہ میرا تو ایمان تھا کہ آپ مجھے بچائیں گے لیکن آپ نے مجھے نہیں بچایا بلکہ پانی کے حوالے کردیا۔ اب وہ بھول گیا کہ ان کے پاس ایک دفعہ گاؤں کے لوگ آئیں کہ سیلاب آرہا ہے گھر سے نکلو لیکن تم نہیں مانے پھر کشتی والے آئیں لیکن تم بضد تھے۔ تیسری بار فو جیوں کی ریسکیو ہیلی کا پٹر آیا، تمھارے پاس سیڑ ھی پھینکی لیکن تم نے اپنی ضد نہ چھوڑی اور ہر دفعہ منع کر رہے تھے ۔اب ان کے تمام گلے شکوے بے کار ہے اﷲ میاں نے تو بار بار ان کے پاس لوگ بھجوائے لیکن وہ خود ہی منع کر رہا تھا ۔ اﷲ میاں خود تو نہیں آسکتا بلکہ اپنے لوگ ہی بھیجواتا ہے لیکن افسوس ہم سبق حاصل نہیں کرتے اور بعد میں اپنے مقدر پر روتے ہیں۔

پا کستان میں ان دنوں بھی سیلاب کی وجہ سے تقر یبا ً سو لوگ مر چکے ہیں ، ہزاروں گھر تباہ ہوچکے ہیں ۔ مال مویشیوں سمیت لاکھوں کا سامان سیلاب کی نظر ہوا ۔ سڑکے ، پل ٹوٹ گئے، خیبر پختوخوا ، پنجاب اور سندھ میں سیلابی پانی نے کروڑ کا نقصان پہنچایا ۔ عام لوگ سڑ کوں پر آگئے۔ پورے کے پورے دیہات بھی مٹ گئے لیکن شہروں میں بھی بارش کے پانی نے بہت سے گھروں کو نقصان پہنچایا۔باقی شہروں کا حال کیا، اسلام آباد کیپٹل میں بھی سڑکے ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہوگئی ۔خیبرپختون خوا ہویا سند ھ اور پنجاب کے شہر کہی بھی انفراسٹکچرٹھیک نہیں۔ نکاسی آب کا سسٹم نہیں۔ سب سے بڑھ کر راولپنڈی اسلام آباد میں شروع کی جانے والی میٹروبس سڑک بھی بارش میں تالاب کی صورت حال اختیار کر جاتی ہے۔ میٹرو اسٹیشن کے بعض حصے ٹوٹ چکے ہیں ۔بہت سی جگہوں پرنکاس آب کا سسٹم ہی نہیں۔راولپنڈی میں سالوں سے موجودہ نالہ لئی بارش میں پانی کے بہاؤسے تباہی کی تصور پیش کر تا ہے۔ ہر سال اس کی وجہ سے نقصانا ت ہوتے ہیں۔ اگر حکومت کم ازکم اس نالے کو تعمیر کریں، دونوں طرف سڑکے بنائیں تو راولپنڈی کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوجائے گا اور نقصانات بھی ختم ہو جائیں گے۔

پاکستان میں سیلاب کی صورت حال نئی نہیں ہے بلکہ ہر سال سیلاب آجاتا ہے ۔پانچ سال پہلے سیلابی کی تباہی نے ملک کو اربوں کانقصان پہنچا یا تھا ۔ پنجاب ، سندھ اور خیبر پختونخوا میں تو ہر سال اور بعض اوقات بلوچستان کے بعض علاقوں میں بھی سیلابی کی تباہ کاری ہو تی ہے ۔ ہمارے حکمران ہمیشہ بیانات دیتے ہیں کہ ہم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ، عوام کے دکھ درد میں ان کے ساتھ ہے۔ حکومت ہر قسم کی تعاؤن کر یں گی لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہو تا۔ یہ حقیقت ہے کہ سیلابی کی تباہ کاریوں پر 100 فی صد قابونہیں پایا جاسکتا لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ ہر سال ایسے ہی نقصان کیا کریں۔ ایک طرف ہم یہ شور مچاتے ہیں کہ ملک کو پانی بحران کاسامنا ہے ۔ صوبوں کا پانی پر جھکڑا ہو تا رہتا ہے تودوسری طرف ملک میں ہر سال کروڑ کیوسک پانی ضائع اور تباہی دے کر سمندر میں گر جا تا ہے ۔ اگر حکومت میٹر و بسوں سے ہٹاکر عوام کا سوچے اور ان منصوبوں پر کام کر یں جس سے ہر سال اربوں کا نقصان ہوتا ہے تو اس ملک کے عوام کو سکون مل جائے گا اور یہ ملک تر قی کر یں گا ۔ جہاں جہاں سے سیلاب کا پانی کا بہاؤ ہو وہاں وہاں چھوٹے چھوٹے ٹیم بنائے جائے۔جس سے ملک کو ہر سال پہنچنے والے اربوں کے جانی اور مالی نقصان سے بچایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے حکمران یہ نہیں کر یں گے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان سیلابوں کے نقصان سے ہمارے حکمران ہر سال اربوں روپے بناتے ہیں ، سڑکے دوبارہ تعمیر ہوتی ہے۔ پل بنائے جاتے ہیں۔نئے نئے ٹینڈرز نکلتے ہیں جس سے پیسے بنائے جاتے ہیں تو جب یہ نقصانات نہ ہوتو حکمران کیا کھائیں گے ۔ پیسے کیسے بنائیں گے ،جب تک ہم خود اپنا احتساب نہیں کر یں گے ، سسٹم کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کر یں تو یہ ایسا ہی چلتا رہے گا۔

جب ملک کے حکمران نااہل ہو اور ہم نا اہل لوگوں کو ووٹ دیتے ہو تو پھر اﷲ میاں سے کیا گلہ شکواہ کیا جائے ۔ اﷲ میاں توخود نہیں آسکتا جس طرح اس گاؤں میں کسان کے پاس ایک نہیں بلکہ تین تین دفعہ مواقعے آئے، کشتیاں اور ہیلی کاپٹر آئیں لیکن وہ اپنی ضد پر قائم تھا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح اﷲ میاں ہمیں وقتاً فو قتاًمواقعے دیتا ہے کہ ہم ایماندار ، سچے اور اہل لوگوں کو منتخب کر یں لیکن ہم کسان کی طرح انتظار میں ہے کہ حکمران نہیں خالق حقیقی ہمارے پاس خود آئے گا اور مجھ ہاتھ سے پکڑ کر بچائے گا۔ ہمیں خود سبق حاصل کر نا چا ہیے اور اپنے مسائل حل کرنے چاہیے۔اﷲ میاں تو ہمیں باربار مواقع دیتا ہے۔
 

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226907 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More