ملک میں مون سون بارشوں کے حالیہ سلسلے کے باعث ملک کے
متعدد علاقے گزشتہ کئی روز سے بری طرح سیلاب کی زد میں ہیں۔ ملک میں ہر سال
بارشوں کا سلسلہ شروع ہوکر سیلاب کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جس سے ملک میں
زبردست تباہی پھیلتی ہے۔ ہر سال اس قدرتی آفت کی پہلے سے اطلاع ہونے کے
باوجود ہماری حکومتوں نے کبھی پانی کو کام میں لانے اور سیلاب سے محفوظ
رہنے کے لیے ملک کی ضرورت کے مطابق نہ تو ڈیمز بنائے اور نہ ہی سیلاب کے
حوالے سے حفاظتی تدابیر کی جاتی ہیں، جس کا نتیجہ ہر سال ملک میں سیکڑوں
افراد کی جانوں اور لاکھوں ایکڑ زمین پر کھڑی فصلوں کے ضیاع اور ہزاروں
بستیوں کے ڈوب جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ ملک کے کئی علاقوں میں کئی روز
سے سیلابی ریلے تباہی مچا رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں تو سیلابی ریلے تباہی
مچاتے ہوئے گزر گئے ہیں، جبکہ بعض علاقوں میں سیلابی ریلے موجود ہیں اور
ابھی سیلاب کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ دریائے سندھ بدستور بپھرے رہنے سے سیلاب
کا خطرہ برقرار ہے۔ گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، جس کے
باعث کئی بستیاں پانی میں ڈوب گئی ہیں۔ کوٹ مٹھن میں ایمرجنسی نافذ کر دی
گئی ہے، جبکہ چشمہ کے مقام پر بھی پانی کی سطح بلند ہے۔ راجن پور میں روس
آباد کے قریب بند میں شگاف کے باعث اطراف کی آبادیاں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو
گیا ہے۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر صورتحال سب سے تشویشناک ہے، جہاں سے پانی کا 8
لاکھ کیوسک سے زیادہ کا ریلا گزر رہا ہے۔ 700 سے زاید دیہات کا زمینی رابطہ
منقطع ہو گیا ہے، جس کے باعث ضلع بھر میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر کے انتظامیہ
کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے
درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے۔ فی گھنٹہ دو ہزار کیوسک پانی کا اضافہ
ہورہا ہے۔ لاڑکانہ کے 6 بندوں کو حساس ترین قرار دے دیا گیا ہے۔ بالا میں
قابض بااثر لینڈ مافیا کی زمینوں کو بچانے کے لیے لوپ بند توڑ دیا گیا، جس
سے سیکڑوں ایکڑ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ سجاول میں بھی ریلے نے تباہی مچائی
ہے۔ 8 گاﺅں مکمل طور پر زیر آب آگئے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ آئندہ تین روز
کے دوران پانی کی سطح 7لاکھ پچاس ہزار سے آٹھ لاکھ کے درمیان اور سکھر
بیراج پر پانی کی سطح سات لاکھ سے سات لاکھ پچاس ہزار کیوسک تک ہوگی۔
انچارج کنٹرول روم سکھر بیراج کے مطابق گڈو بیراج پر پانی کی آمد 7 لاکھ 45
ہزار167 کیوسک اور اخراج 7 لاکھ29 ہزار338 کیوسک، سکھر بیراج پر پانی کی
آمد 6 لاکھ 46 ہزار 495، جبکہ اخراج 6 لاکھ 15 ہزار 995 کیوسک اور کوٹری
بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 61 ہزار924 کیوسک اور اخراج 2 لاکھ56 ہزار119
کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
بالائی علاقوں اور کوہ سلیمان سے بارشوں کا پانی نہ آنے کی صورت میں گڈو
بیراج پر پانی کی سطح سات لاکھ پچاس ہزار سے آٹھ لاکھ تک اور سکھر بیراج پر
پانی کی سطح سات لاکھ سے سات لاکھ ہزار کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔ محکمہ
آبپاشی اور دیگر ماہرین کے سیلابی ریلے کے بارے میں اندازے اور تجزیے غلط
ثابت ہوئے۔ آبپاشی ذرایع و ماہرین نے سیلابی ریلے کی زیادہ سے زیادہ سطح 4
سے 6 لاکھ کیوسک تک بتائی تھی، مگر گڈو بیراج میں داخل ہونے والے سیلابی
ریلے کی سطح ساڑھے سات لاکھ کیوسک تک پہنچ گئی ہے ، جس میں مسلسل اضافہ ہو
رہا ہے ۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ گڈو بیراج
سے نو لاکھ کیوسک پانی گزرے گا، اس سے پہلے بھی یہاں سے اس سے زیادہ پانی
گزر چکا ہے۔ یہ سیلابی ریلا دریائے سندھ کے دونوں اطراف تیزی سے کچے کے
تمام علاقوں اور دیہات کو ڈبوتا ہوا سکھر بیراج اور کوٹری بیراج کی جانب
بڑھ رہا ہے۔ دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا
سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔ دریائے سندھ میں کوٹ مٹھن کے مقام پر پانی کی سطح
مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ لاڑکانہ ضلع کے کچے کے علاقے میں 204 سے زاید دیہات
زیر آب آچکے ہیں۔ باقرانی کے 71، ڈوکری کے 24، لاڑکانہ کے 11، رتو ڈیرو کے
8 دیہات سمیت دیگر دیہات مکمل پانی کی زد میں ہیں۔ دریائے سندھ کے کچے میں
سیکڑوں لوگ اب تک اپنے دیہات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نوڈیرو میں ہزاروں افراد
سیلاب میں پھنس گئے ہیں، جس سے ان کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ سیکڑوں
خواتین و بچے اور بوڑھے کھلے آسمان تلے ہیں۔ دادو مورو پل کے قریب کچے کا
پورا علاقہ سیلابی پانی کی لپیٹ میں آگیا ہے ، جس سے 200سے زاید گاؤں کا
دادو شہر سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ پنو عاقل کے 100 سے زاید دیہات مکمل طور
پر ڈوب گئے ہیں، جس سے ان دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔
سکھر بیراج پر سیلابی پانی کے شدید دباؤ کی وجہ سے دروازوں پر دراڑیں پڑ
گئیں، جس کے بعد بیراج کو ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے بند کردیا گیا
ہے۔کشمور کے مقام پر دریائے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
مرمتی کام نہ ہونے کی وجہ سے بیراج کے کئی دروازوں پر دراڑوں کے نشان واضح
ہوگئے ہیں۔ دراڑیں پڑنے سے دیوارکا بیشتر حصہ کسی بھی وقت دریا میں گرنے کا
خدشہ ہے۔ نواب شاہ میں بھی دریا میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہونے سے کئی
دیہات زیر آب آگئے ہیں۔ کوٹ مٹھن سے 8لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گڈو بیراج
کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پانی کے دباؤ کے باعث بیٹ سونترہ بند کے ٹوٹنے کا خطرہ
ہے۔ صادق آباد میں بند ٹوٹنے سے 20 بستیاں زیر آب آگئیں۔ راجن پور میں
کوٹلہ عیسن کا حفاظتی بند ٹوٹ گیا، جس سے کئی بستیاں زیرآب آگئیں۔ کوٹری کے
مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کے باعث سترہ مقامات کو حساس قرار دیا گیا ہے۔
کچے میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث کپاس، گنا، کھجور اور دیگر فصلیں ڈوب
گئی ہیں۔ دوسری جانب سیلاب زدہ علاقوں میں کئی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ طبی
سہولیات نہ ہونے کے باعث اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ذرایع کے مطابق گزشتہ
روز شکار پور کے سیلاب زدہ علاقوں میں بیماریاں پھیلنے کے باعث متعدد بچے
جاں بحق ہوگئے ہیں۔ خواتین اور بچوں میں گیسٹرو، ملیریا، ڈائریا، خارش اور
دیگر امراض پھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ جس سے ایک طرف متاثرین کی مشکلات میں
مزید اضافہ ہوگیا اور دوسری جانب حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے امدادی
کاموں کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ان حالات میں حکومت پر لازم ہے کہ سیلاب
متاثرین کو مشکل کی اس گھڑی میں اکیلا نہ چھوڑے اور ان کے ساتھ ہرقسم کا
تعاون کرے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے۔ |