الطاف بھائی: قوم مشکل میں مشکل کُشا انگلینڈ میں
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
ہفتہ یکم اگست کی شب الطاف بھائی
نے ایم کیو ایم امریکہ کے یوم تاسیس کی تین روزہ تقریب میں ٹیلیفونک خطاب
کرتے ہوئے ایک بار پھر وطنِ عزیز پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ویسے یہ ان
کی پُرانی عادت اور اصول ہے کہ جب تک ان کے مفادات پورے ہوتے رہتے ہیں تو
اس وقت تک سب ٹھیک رہتا ہے لیکن جیسے ہی ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے تو یہ
فوراًپینترا بدل لیتے ہیں یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔ ویسے
تو اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس کی واضح مثال سابقہ پی پی
پی حکومت میں ان کا حکومت میں آنا اور جانا ہے۔ جب تک ان کے بات مانی جاتی
یہ حکومت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے، پی پی پی اور آصف
علی زرداری کی تعریفیں کرتے رہتے لیکن جسیے ہی ان کے مفادات پر ضرب پڑتی تو
یہ پی پی پی حکومت اور پی پی پی کے ارکان کے خلاف غلیظ ترین زبان استعمال
کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے اور اب بھی یہی حال ہے۔(یہ بات بھی واضح
رہنی چاہیے کہ مفادات سے مراد اردو بولنے والوں یا مہاجروں کے مفادات نہیں
بلکہ الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے مفادات ہیں)
یہی الطاف بھائی کچھ عرصے پہلے تک مذہبی جماعتوں کے خلاف فوج کو اکساتے رہے
اور یہاں تک کہ کئی بار فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت تک دے ڈالی
تھی۔کراچی آپریشن شروع کرنے کے لیے تمام ہی سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا
اور اس آپریشن کی تحریک متحدہ قومی موومنٹ نے ہی دی تھی، ایم کیو ایم اور
الطاف بھائی ہی فوج کو کراچی میں امن برقرار رکھنے کی دہائی دیتے رہے۔ان کا
خیال تھا کہ آپریشن شروع ہوگا تو اس کا رخ آسانی کے ساتھ مخالفین کی جانب
موڑ کر مخصوص مفادات حاصل کیے جاسکے گے۔ ایم کیو ایم کا خیال تھا کہ جنرل
(ر) پرویز مشرف کی طرح جنرل راحیل شریف بھی ان کی باتوں میں آجائیں گے، اور
نواز شریف بھی سندھ میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں بلیک میل ہوجائیں گے لیکن
ہوا اس کے بر عکس ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے، سیاسی جماعتیں اور کراچی کا
عام شہری اچھی طرح جانتا ہے کہ اس شہر نا پرسان میں سب سے پہلے دہشت گردی ،
بھتہ خوری،مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کا آغاز ایم کیو ایم نے ہی کیا ، اگرچہ
بعد میں سنی تحریک، اے این پی پیپلز امن کمیٹی بھی ان کے نقشِ قدم پر چل
پڑیں لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ شہر کے امن کی بربادی کا آغاز 80کی دہائی میں
ایم کیو ایم کے بلدیاتی حکومت میں آتے ہی ہوگیا تھا۔
میاں نواز شریف نے حکومت سنبھالنے کے بعد دیگر امور کے ساتھ ساتھ ملک کی
معاشی حب کراچی کی حالت سدھارنے کا بھی فیصلہ کیا۔تمام سیاسی جماعتوں کو
اعتماد میں لے کر اس آپریشن کا آغاز کیا گیا۔مجھ سمیت کراچی کے 80فیصد عوام
اس آپریشن کی شفافیت اور اس کے نتائج سے مطمئن ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ یہ آپریشن تمام ہی جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے خلاف ہورہا ہے لیکن
اس کو کیا کہا جائے کہ شہر کی بربادی میں سب سے بڑا حصہ متحدہ کا ہے چاہے
واٹر بورڈ میں بے ضابطگیاں ہوں، کے ایم سی میں کرپشن ہو، محکمہ تعلیم ہو یا
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہر شعبے میں ان کی کرپشن نمایا ہے، اس کے علاوہ
مسلح ونگز، ٹارگٹ کلنگ ، پارٹی میں جرائم پیشہ افراد کی اکثریت، بھتہ خوری
جبری چندہ وغیرہ ، تو زیادہ گرفتاریاں بھی اسی کے لوگوں کی ہورہی ہیں، جب
کہ اس آپریشن میں کالعدم تنظیموں، اے این پی، سنی تحریک ، پیپلز امن کمیٹی
، لیاری گینگ واراور پاسبان کے لوگوں کی بھی گرفتاریاں ہوئیں ہیں، ان کے
دفاتر پر چھاپے پڑے ہیں اور رینجرز پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا فرض انجام
دے رہی ہے۔ اس پر ایم کیو ایم یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کررہی ہے
کہ یہ آپریشن صرف اس کے خلاف ہورہا ہے اور ایم کیوا یم ایک بار پھر مہاجر
کارڈ کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس پس منظرمیں الطاف بھائی نے ڈیلاس میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کارکنان کو اکسایا کہ وہ اقوام متحدہ
اور نیٹو کو خط لکھیں اور نیٹو افواج کراچی بھیجنے کا مطالبہ کریں، اس کے
ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بھی بزدلی کو طعنہ دیتے
ہوئے کہا کہ بھارت بزدل اور بے غیرت ہے ورنہ پاکستان میں مہاجروں کا خون نہ
بہتا( دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف ایکشن
لینا چاہیے تھا اور پاکستان پر حملہ کردینا چاہیے تھا)۔ اسکے ساتھ ہی انہوں
نے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہوئے کوٹہ سسٹم کی مثال دی کہ سندھ میں کوٹی
سسٹم نافذ ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوٹہ ایم کیو ایم خود کوٹہ سسٹم ختم
نہیں کرنا چاہتی ، اگر ایم کیو ایم مہاجروں یا کراچی والوں سے مخلص ہوتی تو
جنرل مشرف اور اس کے بعد پی پی پی کی حکومت میں بہ آسانی کوٹہ سسٹم کو ختم
کرایا جاسکتا تھا لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ
کریں گے تاکہ اس کی بنیاد پر سیاست کی جاسکے۔
ہم پہلے بھی یہ بات کہتے رہے ہیں اور اب بھی اس پر قائم ہیں کہ الطاف حسین
ہمیشہ سے پاکستان مخالف ہیں، مہاجروں کا نام لے کر انہوں نے اپنے مفادات
حاصل کیے ہیں۔ امریکہ میں کیے گئے خطاب سے یہ بات واضح ہوگئی کہ الطاف حسین
کی سوچ اور ذہنیت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، یہ وہی الطاف حسین ہیں جس نے
جنرل ضیا الحق کے دور میں مزار قائد کے سامنے پاکستان کا پرچم نذرِ آتش کیا
تھا، یہ وہی الطاف حسین ہیں جنہوں نے جناح پور کی سازش کی تھی، یہ وہی
الطاف حسین ہیں جس نے انڈیا جاکر پاکستان کے قیام کو تاریخ کی بہت بڑی غلطی
قرار دیا تھا، یہ وہی الطاف حسین ہیں جس نے انڈیا میں جاکر یہ کہا تھا کہ
تقسیم ہند تاریخ کی بہت بڑی غلطی ہے اور اگر میں اس وقت ہوتا تو پاکستان کے
قیام کی مخالفت کرتا۔
آج الطاف حسین صاحب فوج ، حکومت اور وطن کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں اور
نا م لے رہے ہیں قوم کے حق میں بولنے کا لیکن حقیقت تو انہوں نے اپنے ڈیلاس
کے خطاب میں بیان کردی کہ ’’ ہمارے اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے ہیں اور میں
بڑی مشکل سے گزارہ کررہا ہوں‘‘۔ جی ہاں اصل بات یہی ہے کہ انہیں قوم کے
مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کے فنڈز، ان کی رقم ، ان کے عیاشیاں رک
رہی ہیں توان کو پریشانی ہورہی ہے۔ اگر انہیں قوم کا مفاد عزیز ہوتا، اگر
انہیں اپنے لوگوں کی فکر ہوتی تو یہ وطنِ عزیز کے خلاف بولنے سے پہلے کم از
کم دس دفعہ سوچتے کہ کہیں ایسا نہ ہو میرے کسی بیان سے میرے کارکنوں کو
نقصان نہ پہنچ جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کچھ بولوں اور ان کا نتیجہ
میرے لوگوں کو بھگتنا پڑے، اگر ان کو قوم کی فکر ہوتی تو وہ سوچتے کہ میرے
پارٹی کے رہنماؤں کو میری باتوں کی وضاحت کرنا مشکل ہوجائے گی، وہ لوگ مشکل
میں آجائیں گے لیکن بنیادی طور پر وہ مفاد پرست ہیں اور انہیں صرف اپنی ذات
اور اپنے مفادات ہیں عزیز ہیں اس لیے لندن کے ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر وہ
کچھ بھی بول دیتے ہیں اور پھر انکے لوگ سوچتے ہیں کہ یار یہ قائد تحریک نے
کس مشکل میں ڈال دیا ہے اب قوم چاہے کتنی ہی مشکل میں کیوں نہ ہو لیکن
انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ الطاف حسین صاحب کے بارے میں شاعر نے ٹھیک ہی کہا
تھا کہ
کل ایک ورکر نے چپکے سے میرے کان میں کہا
قوم ہے مشکل میں اور مشکل کشا انگلینڈ میں
بہرحال دیکھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکنان اب بھی اپنی عقل استعمال کرتے
ہیں یا نہیں ۔
آخری بات کہ ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر الطاف حسین صاحب کی قیادت سے
دستبرداری کے حوالے سے ایک سروے کیا گیا تھا جس کے نتائج صرف ایک ہی دن کے
بعد ویب سائٹ سے ہٹا دیئے گئے، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سروے میں حصہ لینے
والے 72فیصد افراد نے دستبرداری کے حق میں رائے دی تھی، 26فیصد نے ہرگز
نہیں اور 2فیصد نے معلوم نہیں کا آپشن استعمال کیا۔ ان نتائج کے بعد ایم
کیو ایم کی ویب سائٹ سے یہ سروے ہٹا دیا گیا ہے۔ |
|