بلادِ اِسلامیہ میں جشنِ
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ :-
ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتے ہی پورا عالمِ اِسلام میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں اِنعقادِ تقریبات کا آغاز کر دیتا ہے۔ ہر
اسلامی ملک اپنی ثقافت اور رسم و رواج کے مطابق محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ
مہینہ مناتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم آج کے مسلمان ہی نہیں مناتے بلکہ ماضی بعید اور قریب میں بھی انتہائی
گرم جوشی اور اہتمام کے ساتھ یہ دن منایا جاتا رہا ہے۔
علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ / 1116۔ 1201ء) فرماتے ہیں :
لا زال أهل الحرمين الشريفين والمصر واليمن والشام وسائر بلاد العرب من
المشرق والمغرب يحتفلون بمجلس مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ،
ويفرحون بقدوم هلال شهر ربيع الأول ويهتمون إهتماما بليغا علي السماع
والقراءة لمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وينالون بذالک أجرا جزيلا
وفوزا عظيما.
’’مکہ مکرمہ، مدینہ طیبہ، مصر، شام، یمن الغرض شرق تا غرب تمام بلادِ عرب
کے باشندے ہمیشہ سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفلیں منعقد
کرتے آئے ہیں۔ وہ ربیع الاول کا چاند دیکھتے تو ان کی خوشی کی انتہا نہ
رہتی۔ چنانچہ ذکرِ میلاد پڑھنے اور سننے کا خصوصی اہتمام کرتے اور اس کے
باعث بے پناہ اَجر و کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، بيان الميلاد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم : 58
اِمام سخاوی (831۔ 902ھ / 1428۔ 1497ء)، اِمام قسطلانی (851۔ 923ھ / 1448۔
1517ء)، شیخ عبد الحق محدث دہلوی (958۔ 1052ھ / 1551۔ 1642ء) اور اِمام
یوسف بن اسماعیل نبہانی (1265۔ 1350ھ) فرماتے ہیں :
وإنما حدث بعدها بالمقاصد الحسنة، والنية التي للإخلاص شاملة، ثم لا زال
أهل الإسلام في سائر الأقطار والمدن العظام يحتفلون في شهر مولده صلي الله
عليه وآله وسلم وشرف وکرم بعمل الولائم البديعة، والمطاعم المشتملة علي
الأمور البهية والبديعة، ويتصدقون في لياليه بأنواع الصدقات، ويظهرون
المسرات ويزيدون في المبرات، بل يعتنون بقرابة مولده الکريم، ويظهر عليهم
من برکاته کل فضل عظيم عميم.
’’(محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرونِ ثلاثہ کے بعد صرف نیک
مقاصد کے لیے شروع ہوئی اور جہاں تک اس کے انعقاد میں نیت کا تعلق ہے تو وہ
اخلاص پر مبنی تھی۔ پھر ہمیشہ سے جملہ اہل اسلام تمام ممالک اور بڑے بڑے
شہروں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل
میلاد منعقد کرتے چلے آرہے ہیں اور اس کے معیار اور عزت و شرف کو عمدہ
ضیافتوں اور خوبصورت طعام گاہوں (دستر خوانوں) کے ذریعے برقرار رکھا۔ اب
بھی ماہِ میلاد کی راتوں میں طرح طرح کے صدقات و خیرات دیتے ہیں اور خوشیوں
کا اظہار کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرتے ہیں۔ بلکہ جونہی ماہِ
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب آتا ہے خصوصی اہتمام شروع کر دیتے
ہیں اور نتیجتاً اس ماہِ مقدس کی برکات اﷲ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل کی صورت
میں ان پر ظاہر ہوتی ہیں۔‘‘
1. ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم
ونسبه الطاهر : 12، 13
2. قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 148
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم
، 1 : 362
4. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
5. عبد الحق، ما ثَبَت مِن السُّنّة في أيّام السَّنَة : 60
6. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 261، 262
7. إسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 9 : 57
8. أحمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
9. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله
وسلم : 233، 234
10. نبهاني، الأنوار المحمدية من المواهب اللدنية : 29
مفتی محمد عنایت احمد کاکوروی (1228۔ 1279ھ / 1813۔ 1863ء) لکھتے ہیں :
’’حرمین شریفین اور اکثر بلادِ اِسلام میں عادت ہے کہ ماہِ ربیع الاول میں
محفلِ میلاد شریف کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف
کرتے ہیں اور کثرت درود کی کرتے ہیں، اور بہ طور دعوت کے کھانا یا شیرینی
تقسیم کرتے ہیں۔ سو یہ اَمر موجبِ برکاتِ عظیمہ ہے اور سبب ہے اِزدیادِ
محبت کا ساتھ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔ بارہویں ربیع الاول
کو مدینہ منورہ میں یہ متبرک محفل مسجد نبوی شریف میں ہوتی ہے اور مکہ
معظمہ میں مکانِ ولادتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں۔‘‘
کاکوروي، تواريخِ حبيبِ اِلٰه يعني سيرتِ سيد المرسلين صلي الله عليه وآله
وسلم : 14، 15
مجموعی طور پر محافلِ میلاد کے مراکز کے ذکر کے بعد ذیل میں ہم چند ایک خاص
اِسلامی مراکز کا تذکرہ کر رہے ہیں جس سے اِسلامی معاشروں میں مولد النبی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی روایت کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
مکہ مکرمہ میں محفلِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِنعقاد:-
اِمام سخاوی (831۔ 902ھ / 1428۔ 1497ء) فرماتے ہیں :
وأما أهل مکة معدن الخير والبرکة فيتوجهون إلي المکان المتواتر بين الناس
أنه محل مولده، وهو في ’’سوق الليل‘‘ رجاء بلوغ کل منهم بذالک المقصد،
ويزيد اهتمامهم به علي يوم العيد حتي قلَّ أن يتخلف عنه أحد من صالح وطالح،
ومقل وسعيد سيما ’’الشريف صاحب الحجاز‘‘ بدون توارٍ وحجاز. وجود قاضيها
وعالمها البرهاني الشافعي إطعام غالب الواردين وکثير من القاطنين المشاهدين
فاخر الأطعمة والحلوي، ويمد للجمهور في منزله صبيحتها سماطاً جامعاً رجاء
لکشف البلوي، وتبعه ولده الجمالي في ذالک للقاطن والسالک.
’’اور اہلِ مکہ خیر و برکت کی کان ہیں۔ وہ سوق اللیل میں واقع اُس مشہور
مقام کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
جائے ولادت ہے۔ تاکہ ان میں سے ہر کوئی اپنے مقصد کو پا لے۔ یہ لوگ عید
(میلاد) کے دن اس اہتمام میں مزید اضافہ کرتے ہیں یہاں تک کہ بہت کم ایسا
ہوتا ہے کہ کوئی نیک یا بد، سعید یا شقی اس اہتمام سے پیچھے رہ جائے۔
خصوصاً امیرِ حجاز بلاتردّد (بہ خوشی) شرکت کرتے ہیں۔ اور مکہ کے قاضی اور
عالم ’’البرہانی الشافعی‘‘ نے بے شمار زائرین، خدام اور حاضرین کو کھانا
اور مٹھائیاں کھلانے کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور وہ (امیر حجاز) اپنے گھر
میں عوام کے لیے وسیع و عریض دسترخوان بچھاتا ہے، یہ امید کرتے ہوئے کہ
آزمائش اور مصیبت ٹل جائے۔ اور اس کے بیٹے ’’جمالی‘‘ نے بھی خدام اور
مسافروں کے حق میں اپنے والد کی اتباع کی ہے۔‘‘
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه
الطاهر : 15
ملا علی قاری (م 1014ھ / 1606ء) اِس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت : أما الآن فما بقي من تلک الأطعمة إلا الدخان، ولا يظهر مما ذکر إلا
بريح الريحان، فالحال کما قال :
أما الخيام فإنها کخيامهم
وأري نساء الحي غير نسائهم
’’میں کہتا ہوں : اب ان کھانوں میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے دھوئیں
کے۔ اور نہ ہی مذکورہ بالا اشیاء میں سے پھلوں کی خوشبو کے سوا کچھ رہا۔ اب
تو حال شاعر کے اس شعر کے مطابق ہے :
ملا علي قاري، المورد الروي في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ونسبه
الطاهر : 15
(خیمے تو ان کے خیموں کی طرح ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس قبیلے کی
عورتیں ان عورتوں سے بہت مختلف ہیں)۔‘‘
محمد جار اﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ / 1587ء) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے
بارے میں لکھتے ہیں :
وجرت العادة بمکة ليلة الثاني عشر من ربيع الأول في کل عام أن قاضي مکة
الشافعي يتهيّأ لزيارة هذا المحل الشريف بعد صلاة المغرب في جمع عظيم، منهم
الثلاثة القضاة وأکثر الأعيان من الفقهاء والفضلاء، وذوي البيوت بفوانيس
کثيرة وشموع عظيمة وزحام عظيم. ويدعي فيه للسلطان ولأمير مکة، وللقاضي
الشافعي بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم يعود منه إلي المسجد الحرام قبيل
العشاء، ويجلس خلف مقام الخليل عليه السلام بإزاء قبة الفراشين، ويدعو
الداعي لمن ذکر آنفًا بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم يصلون العشاء
وينصرفون، ولم أقف علي أول من سن ذالک، سألت مؤرخي العصر فلم أجد عندهم
علما بذالک.
ابن ظهيره، الجامع اللطيف في فضل مکة وأهلها وبناء البيت الشريف : 201، 202
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ
قاضی مکہ جو کہ شافعی ہیں۔ مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے
ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ
کے قاضی، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس
اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے
کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ
سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے نمازِ عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام
میں آجاتے ہیں اور صاحبانِ فراش کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے
بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں
دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے
کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ
سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود
اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے ’’کتاب الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام فی
تاریخ مکۃ المشرفۃ‘‘ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا
ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ اہلِ مکہ صدیوں سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم مناتے رہے ہیں۔
يزار مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم المکاني في الليلة الثانية عشر من
شهر ربيع الأول في کل عام، فيجتمع الفقهاء والأعيان علي نظام المسجد الحرام
والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثيرة والمفرغات
والفوانيس والمشاغل وجميع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثيرة ويخرجون من
المسجد إلي سوق الليل ويمشون فيه إلي محل المولد الشريف بازدحام ويخطب فيه
شخص ويدعو للسلطنة الشريفة، ثم يعودون إلي المسجد الحرام ويجلسون صفوفا في
وسط المسجد من جهة الباب الشريف خلف مقام الشافعية ويقف رئيس زمزم بين يدي
ناظر الحرم الشريف والقضاة ويدعو للسلطان ويلبسه الناظر خلعة ويلبس شيخ
الفراشين خلعة. ثم يؤذن للعشاء ويصلي الناس علي عادتهم، ثم يمشي الفقهاء مع
ناظر الحرم إلي الباب الذي يخرج منه من المسجد، ثم يتفرقون. وهذه من أعظم
مواکب ناظر الحرم الشريف بمکة المشرفة ويأتي الناس من البدو والحضر وأهل
جدة، وسکان الأودية في تلک الليلة ويفرحون بها.
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہاء، گورنر اور
چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور
ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ
(مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک
عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر
تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ
شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف
کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں،
حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صاحبانِ فراش کے شیخ کو
بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق
نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے
والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ
اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی
اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا
اِظہار کرتے تھے۔‘‘
قطب الدين، کتاب الإعلام بأعلام بيت اﷲ الحرام في تاريخ مکة المشرفة : 355،
356
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1114۔ 1174ھ / 1703۔ 1762ء) مکہ مکرمہ میں اپنے
قیام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وکنت قبل ذلک بمکة المعظمة في مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم في يوم
ولادته، والناس يصلون علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم ويذکرون إرهاصاته
التي ظهرت في ولادته ومشاهدة قبل بعثته، فرأيت أنواراً سطعت دفعة وحدة لا
أقول إني أدرکتها ببصر الجسد، ولا أقول أدرکتها ببصر الروح فقط، واﷲ أعلم
کيف کان الأمر بين هذا وذلک، فتأملت تلک الأنوار فوجدتها من قبل الملائکة
المؤکلين بأمثال هذا المشاهد وبأمثال هذه المجالس، ورأيت يخالطه أنوار
الملائکة أنوار الرحمة.
’’اس سے پہلے مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت
کے دن میں ایک ایسی میلاد کی محفل میں شریک ہوا جس میں لوگ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں ہدیہ درود و سلام عرض کر رہے تھے اور
وہ واقعات بیان کر رہے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے
موقعہ پر ظاہر ہوئے اور جن کا مشاہدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت
سے پہلے ہوا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ اس محفل پر اَنوار وتجلیات کی برسات
شروع ہوگئی۔ میں نہیں کہتا کہ میں نے یہ منظر صرف جسم کی آنکھ سے دیکھا
تھا، نہ یہ کہتا ہوں کہ فقط روحانی نظر سے دیکھا تھا، اﷲ ہی بہتر جانتا ہے
کہ ان دو میں سے کون سا معاملہ تھا۔ بہرحال میں نے ان اَنوار میں غور و خوض
کیا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ یہ اَنوار اُن ملائکہ کے ہیں جو ایسی
مجالس اور مشاہد میں شرکت پر مامور و مقرر ہوتے ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ
اَنوارِ ملائکہ کے ساتھ ساتھ اَنوارِ رحمت کا نزول بھی ہو رہا تھا۔‘‘
شاه ولي اﷲ، فيوض الحرمين : 80، 81
مکہ معظمہ میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات کا
آنکھوں دیکھا حال:-
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ پیدائش کے موقع پر مکہ میں
بڑی خوشی منائی جاتی ہے۔ اسے ’’عید یوم ولادت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ‘‘ کہتے ہیں۔ اس روز جلیبیاں بہ کثرت بکتی ہیں۔ حرم شریف میں حنفی
مصلہ کے پیچھے مکلف فرش بچھایا جاتا ہے۔ شریف اور کمانڈر حجاز مع اسٹاف کے
لباسِ فاخرہ زرق برق پہنے ہوئے آ کر موجود ہوتے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت پر جا کر تھوری دیر نعت شریف پڑھ کر واپس آتے
ہیں۔ حرم شریف سے مولدالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک دو رویہ لالٹینوں
کی قطاریں روشن کی جاتی ہیں اور راستے میں جو مکانات اور دکانیں واقع ہیں
ان پر روشنی کی جاتی ہے۔ جائے ولادت اس روز بقعہ نور بنی ہوتی ہے۔ جاتے وقت
ان کے آگے مولود خوان نہایت خوش اِلحانی سے نعت شریف پڑھتے چلتے جاتے ہیں۔
11 ربیع الاول بعد نمازِ عشاء حرم محترم میں محفلِ میلاد منعقد ہوتی ہے۔ 2
بجے شب تک نعت، مولد اور ختم پڑھتے ہیں اور رات مولد النبی صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم پر مختلف جماعتیں جا کر نعت خوانی کرتی ہیں۔
11 ربیع الاول کی مغرب سے 12 ربیع الاول کی عصر تک ہر نماز کے وقت 21 توپیں
سلامی کے قلعہ جیاد سے ترکی توپ خانہ سر کرتا ہے۔ ان دنوں میں اہل مکہ بہت
جشن کرتے، نعت پڑھتے اور کثرت سے مجالسِ میلاد منعقد کرتے ہیں۔
ماهنامه ’’طريقت‘‘ لاهور
11 ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کے در و دیوار عین اُس وقت توپوں کی صدائے
بازگشت سے گونج اٹھے جب کہ حرم شریف کے مؤذن نے نماز عصر کے لیے اَﷲُ
اَکْبَرُ اﷲُ اَکْبَر کی صدا بلند کی۔ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کو عید
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک باد دینے لگے۔ مغرب کی نماز
ایک بڑے مجمع کے ساتھ شریف حسین نے حنفی مصلہ پر ادا کی۔ نماز سے فراغت
پانے کے بعد سب سے پہلے قاضی القضاۃ نے حسبِ دستور شریف کو عیدِ میلاد کی
مبارک باد دی، پھر تمام وزراء اور اَرکانِ سلطنت ایک عام مجمع کے ساتھ جس
میں دیگر اَعیانِ شہر بھی شامل تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے مقامِ ولادت کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ شاندار مجمع نہایت انتظام و احتشام
کے ساتھ مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف روانہ ہوا۔ قصر سلطنت
سے مولدالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک راستے میں دو رویہ اعلیٰ درجے کی
روشنی کا انتظام تھا اور خاص کر مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو
اپنی رنگ برنگ روشنی سے رشکِ جنت بنا ہوا تھا۔
زائرین کا یہ مجمع وہاں پہنچ کر مؤدب کھڑا ہو گیا اور ایک شخص نے نہایت
مؤثر طریقے سے سیرتِ احمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کی جس کو تمام
حاضرین نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ سنتے رہے۔ اور ایک عام سکوت تھا جو تمام
محفل پر طاری تھا۔ ایسے متبرک مقام کی بزرگی کسی کو حرکت کرنے اجازت نہیں
دیتی تھی اور اس یوم سعید کی خوشی ہر شخص کو بے حال کیے ہوئے تھی۔ اس کے
بعد نائب وزیر خارجہ شیخ فواد نے ایک برجستہ تقریر کی جس میں عالم انسانی
کے اس انقلاب عظیم پر روشنی ڈالی جس کا سبب وہ خلاصۃ الوجود ذات تھی۔ ۔ ۔ ۔
آخر میں قابل مقرر نے ایک نعتیہ قصیدہ پڑھا جس کو سن کر سامعین بہت محظوظ
ہوئے۔ اس سے فارغ ہو کر سب نے مقام ولادت کی ایک ایک کر کے زیارت کی، پھر
واپس ہو کر حرم شریف میں نماز عشاء ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد سب
حرم شریف کے ایک دالان میں مقررہ سالانہ بیانِ میلاد سننے کے لیے جمع ہو
گئے۔ یہاں بھی مقرر نے نہایت خوش اسلوبی سے اخلاق و اوصافِ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کیے۔
عیدِ میلاد کی خوشی میں تمام کچہریاں، دفاتر اور مدارس بھی 12 ربیع الاول
کو ایک دن کے لیے بند کر دیے گئے اور اس طرح یہ خوشی اور سرور کا دن ختم ہو
گیا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اسی سرور اور مسرت کے ساتھ پھر یہ دن دکھائے۔
آمین
1. ماخوذ از اخبار ’’القبله‘‘ مکه مکرمه
2. ماهنامه ’’طريقت‘‘ لاهور
جاری ہے۔۔۔ |