مغرب پرستی (حصہ دوئم )

دریائے ٹیمز لندن کے قریب Sub Way میں دو نوجوان پاکستانی پچھلے آدھے گھنٹے سے اسلام اور پاکستان کے نظام، اخلاقیات کے خلاف اور مغرب کی روشن خیالی اور آزادی کے حق میں تقریر کر رہے تھے اور میں سکون سے سن رہا تھا۔ کیونکہ دونوں نوجوان تھے اس لیے طاقت کے ذور پراپنی بات منوانے کے چکر میں تھے جب وہ اپنا تمام نام نہاد علم اُگل چکے تو میں نے دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولنے کی اجازت چاہی دونو میری طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے شائستگی اور نرمی سے بولنا شروع کیا صرف چند صدیاں پہلے ہی یورپ انسان اور حیوان کے فرق سے نا آشنا تھا یورپ میں باقاعدہ انسانوں کے اکھاڑے لگتے تھے زندہ انسانوں اور غلاموں پر بھوکے درندے چھوڑ دیے جاتے تھے بات بات پر زبان تالو سے کھینچ لی جاتی تھی، ہتھوڑوں سے انسانی دانت سر اور جبڑے توڑے جاتے تھے، انسانوں کے نازک جنسی اعضا کو بے دردی سے کاٹ دیا جاتا تھا، انسانوں پر تارکول مل کر آگ لگا دی جاتی تھی انسانوں کی دونوں ٹانگوں پر رسے باندھ کرمخالف سمتوں میں چیر دیا جاتا تھا، انسانوں کو سزا کے طور پر برف زاروں میں منجمد کر دیا جاتا تھا، ہر گھر اور بازار میں طوائفوں کا میلا لگتا ، جنونی نفسیاتی مجرم طوائفوں اور عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اپنی ذہنی تسکین کر تے تھے۔ یہ تو ماضی کی بات ہے آج یورپ میں طلاق کی شرح کتنی بڑھ چکی ہے، بن بیاہی ماؤں کی تعداد میں روز بروز اظافہ ہوتا جارہا ہے، سنگل مدرز کی تعداد آخری حدود کو چھورہی ہے، بہنوں پر بھائیوں کے حملے معمول بن چکا ہے، بنا شادی کے جانوروں کی طرح زندگی گزارنایہاں کی تہذیب اور عادت بن گئی ہے۔ اسقاط حمل کی شرح نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ آج یورپی، امریکن اور اسرائیلی ڈکشنری کے مطابق انسان صرف وہ ہے جس کا رنگ سفید ہے جس کی ماں شادی کے بنا بچے پیدا کرتی ہے جو کلب میں جانوروں کی طرح ناچتی ہے باپ شراب پی کر فٹ پاتھ یا کسی پارک میں بے ہوش ملتا ہے، یہاں کے مرد عورت کھا نا پینا سیکس کرنا اور نشے میں مدہوش رہناہی کو زندگی سمجھتے ہیں۔ یہاں کی اولاد کا نسب ماں سے شروع ہوتا ہے اور ماں پرہی ختم ہو جاتا ہے، یہاں مرد سے مرد اور عورت سے عورت کی شادی ایمان اختیار کر گئی ہے، یہاں جوا کھیلنا شراب پینا ناجائز بچے پیدا کرنا ایمان ہے، اگر کسی امریکی، اسرائیلی، فرانسیسی، آسڑیلوی یا برطانوی کو ہلکی سی چوٹ بھی لگ جائے، اِن کا کتا بھی مارا جائے، اِن کا ناخن بھی ٹوٹ جائے تو یہ مظلوم ہیں، عراق افغانستان میں کارپٹ بمباری بھی جائز ہے، سینکڑوں معصوم بچوں کو دوران وضو بمباری کر کے مارنا دہشت گردی کا خاتمہ ہے ، یہاں معصوم بچوں کو جو مدرسوں میں قرآن اور اسلام کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اُن کو قیمہ بنادینا اُن کے معصوم جسموں کو دھواں دھواں کرنا دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فلسطین افغانستان عراق اور وزیرستان میں معصوم بچوں کے نازک جسموں میں اتنے بڑے سوراخ کر دیئے جاتے ہیں اف خدایا اتنے بڑے کے آرپار دیکھا جا سکتا ہے، اِن کے نزدیک یہ معصوم بچے دہشت گرد اور گناہ گار ہیں۔ ایسی ہزاروں تصویریں آپ اخبارات اور NET پردیکھ سکتے ہیں ہر تصویر میں ظلم و بربریت کی کروڑوں کی کہانیاں چھپی ہیں، اِن معصوم شہدا کی تصویروں پر کبھی مغرب اور عالمی ضمیر نے جمائی لی اور نہ انسانیت کی نیند ٹوٹی، یہ نیند کیسے ٹوٹ سکتی ہے، یہ جمائی کیسے آسکتی ہے کیونکہ اَن تمام تصویروں کے تمام مقتول مسلمان ہیں اور قاتل اسرائیلی امریکی یورپی جن کی لغت میں انسان صرف وہ ہیں جن کی رنگت گوری ہے۔ یورپ کا ایک فوجی مارا جائے یاکوئی زخمی ہو جائے تو سارا مغرب سراپا احتجاج بن جاتا ہے جب کی عراق افغانستان اور دزیرستان میں اتنی لاشیں گری اتنا خون بہا کہ ریڈکراس کیاہلکار کتنا عرصہ لاشیں ہٹاتے رہے خون دھوتے رہے لاکھوں افغانی عراقی اور وزیرستان میں مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا یہ سارے گناہگار اور دہشت گر تھے اِن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سانس لینا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اِن کا جرم یہ ہے کہ انہیں یورپی امریکی یا گوری چمڑی والی عورتوں نے جنم نہیں دیا، اِن کا جرم یہ ہے کہ انہیں مسلمان ماؤں نے جنم دیا تھا انہیں بپتسما دینے کی بجائے اِن کے کان میں اذان دی گئی اور یہ اﷲکے بنائے ایک مرد اور ایک عورت کی جائز اولاد تھے۔ آج یورپ اور امریکہ اپنے طیاروں اور ٹینکوں کو مسلمانوں کے گھر مسمار اور گولیوں سے بھننے کا آرڈردے رہے ہیں کہ مسلمان کلمہ گو ہیں، کیونکہ اِن کی ڈکشنری میں انسان صرف گوری چمڑی والی مخلوق ہیں، زندہ رہنے اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق صرف گوری چمڑی والوں کو ہے۔کرہ ارض پر بسنے والے باقی انسان اور خاص طور پرمسلمان جانور بن جائیں، اِن کے گلوں میں پٹہ ڈال کر امریکیوں ، اسرائیلیوں اور یورپیوں کے حوالے کر دیا جائے کیا بات ہے یہ مغرب کی انسان دوستی ہے، آپ یورپ کی تہذیب پر نازاں ہیں، آج یورپ کا ہر بچہ ماں کے پیار کا پیاسا اور ماں باپ اپنے بچوں کو سینے کی گرمی پہچانے سے قاصر ہیں اِس کے نتیجے میں نوجوان بچے بچیاں سکون پانے کے لیے نشہ کرتے ہیں اور ماں باپ سکون اور راحت کے لیے بچوں کی جگہ پالتوں جانور کتے اور بلیاں پالتے ہیں، مغرب کی مضبوط تہذیب میں اگر اتنی ہی جگہ ہے تو اِن ممالک میں ہیروئن اور دوسری نشہ آور چیزوں کی مانگ روز بروز کیوں بڑھ رہی ہے، لندن اور یورپی ممالک میں ویک اینڈ پر نوجوان نسل نشے اور شراب میں دھت سڑکوں پر بے ہوش ملتی ہے انکو جو بھی اٹھا کر لے جائے انہیں کوئی خبر نہیں، یہ مغرب کی زندہ تہذیب ہے جس پر مغرب فخر کرتا ہے۔ یہاں کے خاندان کا مطلب ماں باپ بہن بھائی نہیں رہا بلکہ خاندان کا مطلب ایک لڑکا لڑکی یا دو لڑکے لڑکیاں ایک چار دیواری میں مل کر رہ رہے ہیں، ایک عورت کے دو خاوند یا زائد بھی ہو سکتے ہیں، تو گویا یہ خاندان وجود میں آگیا یعنی اِن کے درمیان جنسی تعلقات اِن کے بقول ایک خاندان کو جنم دیتے ہیں اور آپ اور روشن خیال دانشور اور پورے یورپ نے روسو کے اِس فقرے کو کہ انسان آذاد پیدا ہو تھا مگر وہ زنجیروں میں جکڑا ہے، آسمان پر اٹھا رکھا ہے۔ اِن تمام نام نہاد دانشورں کی خدمت میں ادب سے گذارش ہے کہ اِس سے ذیادہ بلیغ اور پر اثر جملہ روسو سے گیارہ سو سال پہلے حضرت عمر فاروق نے ادا کیا تھا جس کی تفصیل یوں ہے:حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں حضرت عمربن عاص مصر کے حاکم تھے، کہ مصر کا ایک آدمی حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے امیرالمومنین میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ہوں آپ نے فرمایا تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ہے، مصری بولا میں نے حاکم کے بیٹے کے ساتھ دوڑ نے کا مقابلہ کیا اور میں جیت گیا تو اُس کے بیٹے نے مجھے کوڑے مارے اور کہا میں شریف اور بڑے خاندان کا بیٹا ہوں، یہ سن کر حضرت عمر نے مصر کے حاکم کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں۔ جب حاکم اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت عمر نے پوچھا مصری کدھر ہے وہ سامنے آیا تو آپ نے کہا یہ کوڑالے اور اِس کو مار، حضرت کے حکم پر مصری نے عمروبن عاص کے بیٹے پر کوڑے برسانے شروع کر دیے اور حضرت عمر فرماتے جارہے تھے شریف خاندان کے بیٹے کو اور مار، جب مصری خوب مار چکا تو حضرت عمر نے وہ تاریخی جملہ کہا جس پر آج پورا یورپ فخر کرتا ہے ’’تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا رکھا ہے جب کی انکی ماؤں نے انہیں آذاد جنا تھا‘‘۔ روسو نے گیارہ صدیاں بعد آپ کے جملے کو دہرایا تو ہر کوئی سر دھن رہا ہے، جب کے یہ جملہ حضرت عمر فاروق نے کہا تھا۔ میرے سامنے دونوں نوجوانوں کے چہروں پر فخر و غرور کی جگہ شرمندگی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے تھے، اب وہ اپنے رویے پر نادم اور شرمندہ تھے، انہوں نے محبت اور عقیدت سے سلام کیا اور یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ ہم تفصیل سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے اور ہمارے اوپر جو مغرب کا نشہ تھا وہ اب اتر چکا ہے، میں نے خدا کا شکر کیا کہ وہ اسلامی تاریخ اور تہذیب کی طرف واپس آگئے۔

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735874 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.