یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان
بھر کی تمام پولیس کرپشن، بدعنوانی،رشوت ستانی، ظلم و بربریت ،قانون شکنی،
نا جائز اختیارات، شریف النفس شہریوں کی عزت ہتک ان کا شیوا ہےجبکہ تھانے
جرائم کے انسٹیٹیوٹ ہیں، بد اخلاقی، بد کرداری انکی فطرت کا حصہ ہیں،ایسے
حالات میں کس قدر پاکستان میں عدلیہ نظام بہتر اندازمیںچل سکتا ہے کیونکہ
تھانوں میں درج مقدمات کی تفتیش دولت اور اختیارات پر منحصر ہوجائے تو صرف
با اختیار اور دولت مند مجرم کبھی بھی مجرم نہیں بن سکے گا اور وہ جس طرح
چاہے قانون کو اپنی لونڈی بناکر زر خرید غلام کی طرح رکھ سکتا ہے یہی کچھ
پاکستان میں کئی سالوں سے چلا آرہا ہے، اس کی اصل وجہ پولیس کے محکمے پر
براہ راست سیاسی مداخلت رہی ہے، پولیس میں تعینات میں نہ قابلیت اور نہ
اخلاقی اقدار کو پرکھا جاتا ہے ، چور اچکے بدمعاش، لٹیرے، ظالم، بد اخلاق،
بد کردار کو ہی ایک بہتر پولیس کے محکمے کیلئے سب سے زیادہ مناسب سمجھتے
ہوئے انہیں نہ صرف نوکری دی جاتی ہے بلکہ سیاستدان اپنے مزید مقاصد کیلئے
ان کی ترقیوں کو اجاگر کرتے ہیں۔دوسری جانب اگر پولیس کے محکمے کو دیکھیں
تو یاد آتا ہے کہ یہ محکمہ خلیفہ دوئم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے بنایا تھا اور اس محکمے کے طریقہ کار کو مکمل طور پر واضع بھی کیا
تھا ۔آج ترقیاتی دنیا کے بڑے بڑے ممالک نے محکمہ خلیفہ دوئم حضرت عمر بن
خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اپنے محکمہ پولیس کو
مکمل ڈھالا ہے جن میں یورپ، امریکہ اور ایشیا کے چند ترقی یافتہ ممالک ہیں
لیکن پاکستان جو نظریہ اسلام کے تحت وجود میں آیا تھا اس عظیم پاک وطن کے
محکمہ پولیس کو ہمارے سیاستدانوں نے جس طریقے سے نہ صرف برباد کردیا بلکہ
جرائم کی پیداوار کا بہترین ذریعہ بھی بناڈالا ہے۔ سن انیس سو ستر کے بعد
سے پولیس کا محکمہ سیاست کی نظر ہوگیا تھا ، سب سے پہلے پولیس کے محکمہ کو
سیاسی مفادات کیلئے سابقہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے استعمال
کرنا شروع کیا اگر بھٹو کے متعلق یہ کہا جائے کہ انھوں نے جمہوریت کو
اشرافیہ تک محدود کیا یا پھر تعصب کی نذر کردیا تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ان
کے ہی دور اقتدار سے ادارے اپنی حیثیت کھوتے چلے گئے، پی آئی اے، پاکستان
اسٹیل ملز، پاکستان کسٹم، کے پی ٹی، سندھ ٹرانسپورٹ، بینک، تعلیمی ادارے،
اسپتال، پاکستان ریلوے ایسے ادارے تھے جو براہ راست شدید متاثر ہوئے۔ ڈھاکہ
کے محصور مہاجرین کی نو آبادی کیلئے شاہ فرماں شاہ فیصل نے عندیہ دیا کہ
وہ اپنے ملک میں آباد کریگا تو بھٹو نے سندھ سقوط ڈھاکہ کے مہاجرین کے
بجائےسندھ کے لوگوں کو آباد کیا گو کہ ان مہاجرین کیساتھ نہایت نا انصافی
اور تعصب برتا،بھٹو ہی نے سندھ نے دو قوموں کا تشخص پیدا کیا ایک مقامی
سندھی دوسرے معروض پاکستان کے وقت آنے والے مہاجرین۔ ان دونوں کے درمیان
دوری پیدا کرنے کیلئے کوٹہ سسٹم صرف اور صرف سندھ میں لگایا گیا جبکہ بھارت
سے پاکستان کے وجود کے بعد ہجرت کرنے والے مہاجرین ہر صوبہ میں آباد ہوئے
تھے۔بھٹو قوم پرستی میں اس قدر اندھے ہوچکے تھے کہ انھوں نے میرٹ کا قتل
سرے عام کیا گوکہ ایک قوم مہاجر جو اردو بولنے والے کہلاتے ہیں ان میں
احساس محرومی بڑھنے لگی ،ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری
و ساری رہا، وہ مہاجر قوم جو بھارت سے تعلیم و ہنر کے زیور سے آراستہ تھی
انہیں ان کی قابلیت و ہنر کے با وجوددیوار سے لگادیا گیا۔سندھ پولیس میں
صرف مقامی سندھیوں کو بھرتی کیا جانے لگا اور تو اور سندھ سیکریٹریٹ میں
بھی سندھ پبلک کمیشن ہو یا براہ راست جاب ان سب میں سندھی قوم پرستی کی
انتہا کردی گئیاور سندھ پبلک کمیشن میں مہاجرین تحریری اور ذہانت کا امتحان
اچھے نمبروں سے پاس کرجاتے بھی تو انہیں انٹرویو میںفیل کردیا جاتا اور
اپنے نا اہل امیدواروں کو انٹرویو میں کامیاب کرکے ان کی مطلوبہ پوسٹ عطا
کردی جاتی رہی ہیں مسلسل یہ طریقہ کار جاری رہا ہے جو ابتک ہے، دوسری جانب
وفاق نے بھی سندھ کی دیکھا دیکھی کسی طور کمی نہ کی ۔میں یہ نہیں کہتا کہ
ایم کیو ایم کا وجود بہتر ثابت ہوا ہے کیونکہ ایم کیو ایم نے بھی اس قوم کو
بہت مایوس کیا ہے ، ایم کیو ایم کے مخلص لوگوں کو بھی دیوار سے لگاکر چند
لوگوں نے یرغمال بناڈالا اور اس تنظیم کو مثبت کی جگہ منفی راہ کی طرف لے
گئے، آج جو حالات ہیں ان کے ون ہی لوگوں کی غلط پالیسیوں اور غلط عمل کا
نتیجہ ہیں،اگر لیجینڈ،شریف النفس، مدبر، دانشور ومفکروں کو آگے لاکر مثبت
راہ پر چلتے تو ایم کیو ایم پورے پاکستان کی سب سے مقبول اور مظبوط جماعت
کی شکل میں ہوتی۔ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔اب بھی وقت ہے ایم کیو
ایم کیلئے کہ وہ اپنی صٖوں میں چھپے مفاد پرست، موقع پرست، خود غرضوں کو
تلاش کرکے نکال باہر کریں بصورت ایسے چند اشخاص ایم کیو ایم کو نا تلافی
نقصان سے دوچار کردیں گے،قوم تھک چکی ہے سیاست اور سیاسی جماعتوں کے خوابوں
سے ، قوم کو حقیقی عملی صورت چاہیئے۔ مہاجر اردو بولنے والی قوم پاکستان
اور پاکستانی اداروں سے انتہائی مخلص ہے اور چاہتی ہے کہ اس قوم کے ساتھ
ہونے والی نا انصافیوں کا خاتمہ کیا جائے اس قوم کو دیگر قوموں کی صف
میںکھڑا کرکے ان کے ہونہار، قابل نوجوانوں کی صلاحیت سے ملک و قوم کے فائدہ
کیلئے استعمال میں لایا جائے ، عدلیہ ، پولیس، بیوروکریٹس اور سیاستدان اب
فیل ہوگئے ہیں اگر پاکستان آرمی نے اس قوم کے مثبت، قابل، ہونہار، ذہین
بچوں کے مستقبل کیلئے ایوان سے لائحہ عمل نہ دلوایا تو ڈر ہے کہ ہمارے ان
بچوں کا مسقبل تاریک نہ بن جائے۔مہاجر قوم کو صرف اور صرف پاکستان آرمی پر
بھروسہ ہے کہ وہ اقتدار عالیٰ سے اس قوم کی نسلوں کی بقا اور مستقبل کیلئے
بہتر لائحہ عمل بنائیں اس قوم کو غیر تو غیر اپنوں نے بھی نہیں بخشا۔آرمی
چیف راحیل شریف اور کور کمانڈر ز سے یہ قوم امید کرتی ہے کہ پاکستانی تمام
قوموں کو ان کے جائز حقوق کیلئے وہ مثبت کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کی
تاریخ ان کے دور کو سنہری حروفوں سے لکھے۔سن دوہزار پندرہ پانچ اگست کو
سپریم کورٹ کے بینچ نے ملٹری کورٹ کےخلاف تمام درخواستیں مسترد کردیں
اورسپریم کورٹ نےاٹھارویں ترمیم کے خلاف بھی تمام درخواستیں مسترد کردیں
جبکہ سپریم کورٹ کافوجی عدالتیں برقرار رکھنےکاحکم بھی آگیا،سترہ رکنی
بینچ میں گیارہ ججزنےحمایت اورچھ ججزنےفوجی عدالتوں کی مخالفت کی جسےچیف
جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصرالملک نےفیصلہ تحریرکیا ۔آئی ایس پی آر کے
مطابق ابتدائی طور پرنوفوجی عدالتیں قائم کی گئیں ہیں جن میں پنجاب اور
خیبر پی کے میں تین ،تین فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جبکہ سندھ میںدو
اوربلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم کی گئی ہیں۔فوجی عدالتوں نے نہایت
شفاف اور غیر جانبداری کیساتھ سب سے پہلے اپنے ہی ادارے میں احستابی عمل
کیا، تحقیق کے بعد آئی ایس پی آر نے واضع کیا کہ این ایل سی کومالی نقصان
پہنچانےپرمیجرجنرل(ر)خالد ظہیراختربرطرف کردیا گیا،خالدظہیراخترکی پنشن ختم
کردی گئے اورتمام سروسز سہولتیں بھی واپس لے لی گئیں جبکہ میجرجنرل
(ر)خالدظہیرکے رینکس،میڈلز اورایوارڈ بھی واپس لےلئےگئے ہیں،آئی ایس پی
آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل(ر)افضل مظفرکی سخت سرزنش کی گئی ،لیفٹیننٹ
جنرل(ر)افضل مظفرپرقوائدوضوابط نظراندازکرنےپراظہارناپسندیدگی بھی کی دوسری
جانب لیفٹیننٹ جنرل (ر)خالد منیرخان کسی مالی بدعنوانی میں نہیں پائےگئے
اور لیفٹیننٹ جنرل(ر)خالدمنیرخان کیخلاف مالی بےضابطگی ثابت نہ ہوسکی
ہے،لیفٹیننٹ جنرل(ر)خالدمنیر این ایل سی بدعنوانی کیس سے بری کردیا گیا
ہے،آئی ایس پی آرکے مطابق پاک فوج انصاف اورمنصفانہ احتساب کا عمل جاری
رکھےگی جبکہ آرمی چیف کی ہدایت پر این ایل سی کیس کی دوبارہ تحقیقات کی
جائیں گی۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی
ہے ،بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔یقینا ً اس شعر پر آرمی چیف
راحیل شریف بھی آتے ہیں۔پاکستان کی پوری قوم کی نظریں آرمی چیف راحیل
شریف پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ یہ قوم جانتی ہے کہ راحیل شریف پاکستان پر
اپنی جان نچھاور کرنے والے خاندان سے ہیں ۔فوجی عدالتوں کے ذریعے وطن عزیز
پاکستان میں کرپشن، بدعنوانی، دہشتگردی، لاقانیت،عدم استحکام جیسے عوامل کا
خاتمہ ممکن بنایا جاسکے گا کیونکہ یہاں کسی پولیس کی تفیش افسر کی رپورٹ
نہیں ہوتی ہے الحمد للہ پاک آرمی واحد وہ ادارہ ہے جو اپنے اندر احستابی
عمل رکھتا ہے جس میں نظم و ضبط، قوانین کی پاسداری اور شفافیت کا عمل کوٹ
کوٹ کر پنہا ہے جو سول سوئٹی میں پھیلی ہوئی برائیوں، جرائم سے مکمل پاک ہے
اور اس ادارے میں صلاحیت ہے کہ وہ اس گندگی کو صاف کرسکتی ہے۔ اب انشا اللہ
ہمارے عظیم اداروں کیخلاف لب کشائی کرتے ہوئے سیاستدان ضرور سوچیں گے
اوراحترام کو ملحوظ خاطر ضرور لائیں گے بصورت قوم انہیں غدار وطن جانے گی
اور کبھی بھی معاف نہیں کرے گی ، یہ قوم ہر گناہ معاف کرسکتی ہے مگر غداری
کو برداشت نہیں کرسکتی، وطن عزیز کے دشمن کا دوست ہم سب کا دشمن ہے ،اللہ
پاکستان کو بلند و بالا اور سلامت رکھے ،ہماری افواج کو تمام قوم کیلئے
ہیرو بنائے رکھے جیسے محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی، تیمور لنک اور
خالد بن ولید جیسے عظیم سپہ سالار کے نقش قدم پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے
آمین ثما آمین، اس قوم کی تمام نیک دعائیں اور عقیدت پاک فوج کیساتھ
ہیں۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد، پاک فوج زندہ باد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |